کچرا

ننھے میاں کی کہانی

کچرا

* مولانا ابوعبید عطاری مدنی

ماہنامہ اپریل 2021

امّی! کیا رمضان میں زیادہ کچرا جمع نہیں ہوجاتا؟ ننھے میاں کی امی نے دادی سے پوچھا تو وہ کہنے لگیں : بھئی! کچرا تو زیادہ ہوگا کیونکہ روز مرہ کا کوڑا کرکٹ اور افطاری کے پھلوں کے چھلکے جو جمع ہوجاتے ہیں ، کیا کچرا لینے والا کچرا لے کر جاچکا ہے؟ امی نے جواب دیا : بس آنے ہی والا ہوگا ، میں نے کچرا ڈسٹ بن سے نکال کر شاپنگ بیگ میں بھر کر دروازے کے قریب رکھ دیا ہے کچرے والا آئے تو اسے دے دیجئے گا ، تھوڑی دیر بعد باہر سے آواز آئی : کچرا دے دو۔ دادی نے اٹھنا چاہا مگر کچھ سوچ کر آواز دی : ننھے میاں! جاؤ جاکر باہر کچرا دے آؤ ، ننھے میاں نے اپنے کمرے سے جواب دیا : ابھی تھوڑی دیر میں دے آتا ہوں۔

تھوڑی دیر بعد ننھے میاں کچرے کا شاپنگ بیگ ہاتھ میں لئے گھر سے باہر نکلے تو کچرے والا انہیں کہیں نظر نہیں آیا ، گلی کے کونے تک جاکر دیکھا تو وہاں بھی دکھائی نہ دیا ، منہ لٹکا کر واپس آرہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ اب اس کچرے کا کیا کروں ، دادی اور امی سے ڈانٹ سننی پڑے گی کہ کچرا فوراً کیوں نہیں دیا۔ اچانک ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ کسی کے گھر کے دروازے پر رکھ دوں ، گلی میں روشنی اس وقت کم تھی ننھے میاں نے ادھر ادھر دیکھا گلی میں اس وقت کوئی نہیں تھا ، پڑوسن بوڑھی خالہ کے گھر کے پاس گئے اور ایک مرتبہ پھر آس پاس نظر دوڑائی کوئی دکھائی نہ دیا تو چپکے سے دروازے کے پاس کچرے کا شاپنگ بیگ رکھا اور تیزی سے اپنے گھر کی طرف قدم بڑھا دئیے۔

کچھ دیر بعد ڈور بیل بجی ، دادی نے دروازہ کھولا تو پڑوسن خالہ ہاتھ میں کچرے کا شاپنگ بیگ پکڑے کھڑی تھیں ، کہنے لگیں : یہ آپ کے گھر کا کچرا ہے ، آپ کے ننھے میاں اسے ہمارے گھر کے دروازے پر چھوڑ آئے تھے وہ تو میں نے اوپر سے دیکھ لیا ورنہ ہمارے دروازے پر پڑا  رہ جاتا اور آپ کو معلوم ہے رمضان میں کچرا کچھ زیادہ جمع ہوجاتا ہے اور کل اتوار ہے اور اتوار کو کچرے والا نہیں آتا ، اپنے ننھے میاں کو سمجھا دیجئے گا آئندہ ایسی غلطی نہ کرے ورنہ کان پکڑوادوں گی ، مجھے شرارتی بچّے بالکل پسند نہیں ہیں ، دادی نے شاپنگ بیگ اپنے ہاتھ میں لیا اور معذرت کرتے ہوئے بولیں : میں اس کی طرف سے مُعافی مانگتی ہوں آئندہ ایسی کوئی شکایت نہیں ہوگی ، پڑوسن خالہ بڑبڑاتے ہوئے چلی گئیں۔ دادی نے کچرے کا شاپنگ بیگ دروازے کے قریب رکھے ہوئے ڈسٹ بن میں ڈال دیا ، پھر ننھے میاں کے کمرے میں آئیں اور ننھے میاں کے پاس بیٹھ گئیں ، باتوں باتوں میں پوچھا : ننھے میاں! ایک بات تو بتائیے ، ننھے میاں نے کہا : جی دادی! پوچھئے ، دادی نے کہا : آپ کے کپڑے صاف ہیں یا گندے؟ ننھے میاں نے جواب دیا : دادی! بالکل صاف ہیں ، اور آپ کا کمرہ اور گھر صاف ہے یا گندہ؟دادی نے پھر پوچھا تو ننھے میاں کہنے لگے : کمرہ اور گھر دونوں صاف ہیں ، دادی نے پھر سُوال کیا : اچھا یہ بتائیے! ہم اپنے کپڑوں کو ، کمرے کو اور گھر کو صاف کیوں رکھتے ہیں۔ ننھے میاں نے جواب دیا : اس لئے کہ ہمارا پیارا مذہب اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے۔ دادی نے اگلا سُوال کیا : اور کیا گلی کو بھی صاف رکھنا چاہئے؟ گلی کو بھی صاف رکھنا چاہئے مگر آپ یہ سب کچھ کیوں پوچھ رہی ہیں؟ اب کی بار ننھے میاں نے سُوال کیا۔ اس بات کو رہنے دیں کہ میں کیوں پوچھ رہی ہوں ، اچھا یہ بتائیے! آپ گھر کے دروازے کے پاس کھڑے ہوں اور کوئی اپنا کچرا وہاں پھینکے تو آپ کیا کریں گے اور اسے کس طرح سمجھائیں گے؟ دادی! میں اسے منع کروں گا اور کہوں گا کہ یہ بُری بات ہے اس سے گندگی پھیلتی ہے اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں آپ اپنا کچرا ڈسٹ بن میں ڈالئے اور کچرے والے کے حوالے کیجئے یہاں مت پھینکئے ، اس سے ہمیں پریشانی ہوگی۔ دادی نے کہا : اسی لئے میں نے  اپنے گھر کا کچرا اپنے ڈسٹ بن میں ڈال دیا ہے۔ اپنے گھر کا کچرا……… ننھے میاں بولتے بولتے رُک گئے۔ جی ہاں بیٹا! پڑوسن خالہ نے آپ کو دیکھ لیا تھا وہ کچرا لے کر آئی تھیں اورسخت ناراض تھیں ، آپ کو معلوم تو ہے کہ دوسروں کو تکلیف دینا بُری بات ہے اور رمضان کے بابرکت مہینے میں تو ان باتوں کا اور زیادہ خیال رکھنا چاہئے اللہ کریم کے ایک نیک بندے قاضی شریح بن حارث  رحمۃُ اللہِ علیہ  بھی ہیں ، یہ تابعی بزرگ اور کوفہ کے جج تھے ، ان کے پاس ایک بلی تھی ایک دن وہ بلی مر گئی تو انہوں نے اپنے گھر میں ایک گڑھا کھودا اور اس بلی کو اس میں ڈال دیا اور گڑھا بند کردیا ، انہوں نے اپنی مُردہ بلی کو باہر اس وجہ سے نہیں پھینکا کہ اگر اسے باہر پھینکوں گا تو اس کی بدبو سے دوسرے لوگوں کو تکلیف ہوگی۔ (مکارم الاخلاق ، ص228ماخوذاً ، اخبار القضاۃ ، 2 / 220ملخصاً) ننھے میاں! اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ہمیں تکلیف نہ دیں تو ہمیں بھی چاہئے کہ ہم دوسروں کو تکلیف نہ دیں ، میں نے پڑوسن خالہ سے مُعافی تو مانگ لی ہے مگر آپ ابھی جاکر ان سے مُعافی مانگئے اور کہئے خالہ! آئندہ اس طرح کی کوئی غلطی نہیں کروں گا۔ ننھے میاں نَدامَت سے سر جھکائے دادی کی باتیں سنتے رہے پھر خاموشی سے اُٹھ کر پڑوسن خالہ کے گھر کی طرف چل دئیے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code