رپورٹس اور ضروری کاغذت (تیسری  اور آخری قسط)

ضائع نہ کریں!

رپورٹس اور ضروری کاغذات(قسط : 03)

اُمِّ نور عطاریہ

ماہنامہ اپریل 2021

بیماری وغیرہ اس امتحان گاہِ زندگی میں آتی ہی رہتی ہے ، یہ بیماریاں ایک مسلمان کے یا تو گناہ معاف کرواتی ہیں یا پھر درجات بلند کرواتی ہیں ، لیکن اس معاملے میں بھی کچھ احتیاطوں کی ضرورت ہے ، جب بھی گھر میں کسی بیمار کی کوئی دوائی لائیں یا چیک اپ اور ٹیسٹ وغیرہ کروائیں تو اس چیک اپ کی رسیدیں ، ٹیسٹ کی رپورٹس ، دوائی کی پرچیاں اور بلز محفوظ رکھیں ، ان کو ضائع نہ کریں ، کیونکہ اللہ نہ کرے کبھی ایک ہی بیماری بار بار لوٹ کر آتی ہے تو ڈاکٹرز کو اس کی پرانی رپورٹس اور تشخیص کی رسیدوں کی ضرورت پڑتی ہے۔

بالخصوص حمل کی صورت میں تو ہررسید اور رپورٹ لازمی محفوظ رکھیں اور اسی طرح بلڈ پریشر ، دل ، گردوں ، ہیپاٹائٹس اور دیگر بڑی بیماریوں میں مبتلا افراد کی رپورٹس وغیرہ بہت احتیاط سے رکھیں۔

کپڑے دھوتے وقت گھر کے مَردوں کی جیبوں سے عموماً کئی طرح کی رسیدیں ، بلز اور کارڈز وغیرہ نکلتے ہیں ، ان کاغذات کو بھی محتاط طریقے سے سنبھال لیجئے ، بعض اوقات مَرد بھی کہہ دیتے ہیں کہ ان کی ضرورت نہیں لیکن بعد میں خود ہی تقاضا بھی کرتے ہیں اور ڈھونڈ بھی رہے ہوتے ہیں ، اس لئے کوشش کیجئے کہ ایک الماری وغیرہ میں کوئی جگہ ان سب کاغذات ، بلز اور میڈیکل رپورٹس وغیرہ کے لئے مختص کردیں تاکہ ضرورت پڑے تو بروقت مل سکیں۔

موجودہ ترقی یافتہ دور میں ان کاغذات کو محفوظ کرنے کے دیگر جدید ذرائع بھی ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ضروری کاغذات کی موبائل کے ذریعے صاف ستھری تصاویر بنائیں اور اپنے میل اکاؤنٹ کے ذریعے اپنی ہی آئی ڈی پر میل کردیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تمام کاغذات کو اسکین کرکے پی ڈ ی ایف فائل بنالیں اور گوگل ڈرائیو پر محفوظ کرلیں۔ اگر آن لائن محفوظ نہ کرنا چاہیں تو یہ تصاویر گھر کے دو یا تین موبائلز میں محفوظ کرلیں ، اسکین کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ان کاغذات کی کبھی کہیں بھی ضرورت پڑے تو جلد میسر آسکتے ہیں ، پرنٹ نکلوایا جاسکتاہے ، فوٹو کاپی کے لئے بار بار اوریجنل کاغذات نکالنے کی بچت ہوتی ہے۔ البتہ ہر صورت میں اصل کاغذات پھر بھی محفوظ رکھنے ہوں گے۔

گھر میں عموماً ضائع ہوجانے والی چیزوں میں بچّوں کی کتابوں اور کاپیوں کی طرح ایک اہم چیز ان کی پنسلیں اور کلرز بھی ہیں۔ یاد رکھئے! بچے تو بچّے ہیں ، اس بات کا خیال آپ کو کرنا ہے کہ قلم یعنی پنسل یا پین کے ذریعے علم لکھا جاتاہے اس لئے اس کا ادب بھی کرنا چاہئے کہیں بے ادبی کی جگہ نہ گرے ، بچّوں کی عادت ہوتی ہے کہ جونہی پنسل چند بار تراشنے کے بعد چھوٹی ہوئی یا دوسرے بہن بھائی کے پاس بڑی پنسل دیکھی تو چھوٹی پنسل پھینک کر بڑی کا تقاضا شروع کردیتے ہیں ، جبکہ بعض تو والدین بھی ایسے ذہن کے ہوتے ہیں کہ جھٹ چھوٹی پنسل پھینک کر بچّے کے ہاتھ میں بڑی تھما دیتے ہیں ، ہمیشہ یاد رکھئے! اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو پورا پورا استعمال کرنا کنجوسی ہرگز نہیں جبکہ انہیں استعمال کے قابل ہونے کے باوجود جان بوجھ کر ضائع کردینا اسراف و گناہ ضرور ہے۔ مارکیٹ میں پنسل کے لئے ایک پائپ کی طرح کا پنسل ہی کے سائز کا کور ملتاہے ، چھوٹی پنسل اس میں فِٹ کردی جائے تو بڑی بن جاتی ہے یوں بچّے بھی راضی رہیں گے اور پنسل جو کہ علم حاصل کرنے کا ذریعہ ہے وہ بھی ضائع نہ ہوگی۔


Share

Articles

Comments


Security Code