بے سایہ محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

باتیں میرے حضور کی

 بے سایہ محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (قسط : 01)

* مولانا کاشف شہزاد عطاری مدنی

ماہنامہ جولائی 2021ء

اللہ پاک نے رسولِ پاک ، صاحبِ لولاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو جو بے شمار خصوصی شانیں عطا فرمائی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ سورج ، چاند اور چراغ کی روشنی میں آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا سایہ نہیں ہوتا تھا۔ [1]

اے عاشقانِ رسول! سینکڑوں سال سے مُفسّرین ، مُحدّثین ، شارحین اور دیگر عُلمائے دین اپنی کتابوں میں سرکارِ دو عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی اس عظیمُ الشّان خصوصیت اور فضیلت کا بیان کرتے آرہے ہیں۔ اللہ پاک کی رحمت حاصل کرنے کے لئے ان بزرگانِ دین کے کچھ فرامین اور قراٰن و حدیث سے دیگر دلائل ملاحظہ فرمائیے :

قراٰن و حدیث سے عدمِ سایہ کا ثبوت : قراٰنِ کریم کی کئی آیات اور کثیر احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ رحمتِ عالَم ، نورِ مُجَسَّم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو اللہ پاک نے بے مثال بشریت کے ساتھ ساتھ نورانیت سے بھی نوازا ہے اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ نور کا سایہ نہیں ہوتا۔ ان دونوں باتوں کو ملانے سے نتیجہ یہ نکلا کہ نور والے آقا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سائے سے پاک ہیں اور آپ کی نورانیت پر دلالت کرنے والی تمام قراٰنی آیات اور احادیثِ مبارکہ اس بات کی دلیل ہیں ۔ حصولِ برکت کے لئے صرف ایک قراٰنی آیت اور اس کی تفسیر ملاحظہ فرمائیے :

نور آگیا : اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے : ( قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵) ) ترجمۂ کنزُالعرفان : بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب۔ [2]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اس آیتِ کریمہ میں نور کے مرادی معنی بیان کرتے ہوئے امام جلالُ الدین سیوطی شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : هُوَ النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  یعنی نورسےمرادنبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہیں۔ [3]

نور کا سایہ نہیں ہوتا : پیارے اسلامی بھائیو! نور کا سایہ نہ ہونا ایک معروف بات ہے اور کثیر بزرگانِ دین نے اسے بیان فرمایا ہے ، یہاں صرف 4 بزرگوں کے فرامین پیش کئے جاتے ہیں :

 (1)شِہابُ الملّۃ وَالدِّین حضرت علّامہ احمد بن محمد خَفاجی مصری حنفی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : اَلْاَنْوَارُ شَفَّافَۃٌ لَطِیْفَۃٌ لَاتَحْجِبُ غَیْرَ ھَا مِنَ الْاَنْوَارِ فَلَاظِلَّ لَھَا یعنی انوار شفاف اور لطیف ہوتے ہیں ، اپنے غیر تک روشنی کے پہنچنے میں رکاوٹ نہیں بنتے اس لئے ان کا سایہ نہیں ہوتا۔ [4]

(2)علامہ محمدبن عبدالباقی زُرقانی مالکی  رحمۃ اللہ علیہ  تحریر فرماتے ہیں : اِنَّ النُّوْرَ لَا ظِلَّ لَہٗیعنی بےشک نور کا سایہ نہیں ہوتا۔ [5]

(3)شیخِ مُحقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں : نُور رَا سَایہ نَمِی باشَد یعنی نور کا سایہ نہیں ہوتا۔ [6]

(4) امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : نور کے لئے سایہ نہیں۔ مزید لکھتے ہیں : سایہ اس جسم کا پڑے گا جو کثیف ہو اور انوار کو اپنے ماوراء سے حاجِب (یعنی اپنے آگے موجود چیز تک روشنی کے پہنچنے میں رکاوٹ بنے) ، نور کا سایہ پڑے تو تنویر (یعنی روشنی) کون کرے؟ اس لئے دیکھو آفتاب (یعنی سورج)کے لئے سایہ نہیں۔ [7]

تو ہے سایہ نور کا ہر عُضْو ٹکڑا نور کا

سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا[8]

بزرگانِ دین کے فرامین : پیارے اسلامی بھائیو! سرکارِ دو عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی عظیم خصوصیت و فضیلت ’’سایہ نہ ہونے ‘‘ کو نقل کرنے والے بزرگانِ دین اور ان کے بیان کردہ دلائل اتنے زیادہ ہیں کہ انہیں ایک مضمون میں ذکر کرنا بہت مشکل ہے ،

حصولِ برکت کے لئے کچھ دلائل ملاحظہ فرمائیے :

(1)ایک موقع پر حضرت سیدنا ذُوالنُّورین عثمانِ غنی  رضی اللہُ عنہ  نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا : اِنَّ اللهَ مَا اَوْقَعَ ظِلَّكَ عَلَى الْاَرْضِ لِئَلَّا يَضَعَ اِنْسَانٌ قَدَمَہٗ عَلٰى ذٰلِكَ الظِّلِّ یعنی بےشک اللہ پاک نے آپ کے سائے کو زمین پر نہ پڑنے دیا تاکہ کوئی انسان اس سائے پر پاؤں نہ رکھے۔ [9] ایک روایت کے مطابق آپ  رضی اللہُ عنہ  یوں عرض گزار ہوئے : آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا ، تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ناپاک زمین پر پڑ جائے۔ [10]

(2)امام بخاری وامام مسلم کے استاذُ الاستاذ حافظُ الحدیث امام عبدالرزاق ، تبعِ تابعی بزرگ حضرت سیدنا عبدُاللہ بن مبارک اور امام ابنِ جوزی ر حمہم اللہ سے منقول ہے کہ صحابیِ رسول حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس  رضی اللہُ عنہ ما نے ارشاد فرمایا : لَمْ یَکُنْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ظِلٌّ یعنی رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا سایہ نہیں تھا۔ مزید فرماتے ہیں : وَلَمْ يَقُمْ مَعَ شَمْسٍ قَطُّ اِلَّا غَلَبَ ضَوْؤُہٗ ضَوْ ءَ الشَّمْسِ وَلَمْ يَقُمْ مَعَ سِرَاجٍ قَطُّ اِلَّا غَلَبَ ضَوْؤُہٗ ضَوْ ءَ السراج یعنی رسولِ خدا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  جب سورج کے سامنے کھڑے ہوتے توآپ کا مبارک نورسورج کی روشنی پر غالب آجاتا اور چراغ کے سامنے کھڑے ہوتے تو چراغ کی روشنی پر غالب آجاتا۔ [11]نورِ مصطفیٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کےسورج اور چراغ کے نور پر غالب آنے کے 2 معنی ہوسکتے ہیں : (1) نورِ مصطفیٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے سامنے سورج اور چراغ کی روشنیاں پھیکی پڑجاتیں جیسے سورج کی روشنی کے سامنے چراغ کی روشنی (2)اُس مبارک نور کے سامنے ان دونوں کی روشنی بالکل ختم ہوجاتی جیسے سورج کے سامنے ستاروں کی روشنی۔ [12]

(3)عارف باللہ امام حافظ ابوعبداللہ محمد بن علی حکیم ترمذی شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  تابعی بزرگ حضرت سیدنا ذکوان  رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت کرتےہیں : اِنَّ رَسُوْلَ الله صلى الله عليه وسلم لَمْ يَكُنْ يُرىٰ لَہٗ ظِلٌّ فِيْ شَمْسٍ وَلَا قَمَرٍ یعنی سورج اور چاند کی روشنی میں رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا سایہ نظر نہیں آتا تھا۔ [13]

عَدِیمُ الْمِثْل و لاثانی ہے وہ ذاتِ مبارک یوں

بنایا ہی نہیں اللّٰہ نے سایہ محمد کا[14]

 (4) شیخُ الاسلام امام احمد بن محمد ابنِ حجر مکی ہیتمی شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں : سرکارِ دو عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے سراپا نور ہونے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جب آپ دن یا رات میں سورج یا چاند کی روشنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نہ پیدا ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سایہ صرف کثیف جسم کا ظاہر ہوتا ہے اور اللہ پاک نے اپنے محبوب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو تمام جسمانی کثافتوں اور غلاظتوں سے پاکیزہ فرماکر آپ کو سراپا نور بنادیا تھا اس لئے آپ کا سایہ بالکل بھی نہ تھا۔ [15]

حق نے انہیں بے مِثْل بنایا ، پڑتا زمیں پر کیونکر سایہ

نورِ خدا ا َعضائے محمد  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم[16]

شیطان کے دھوکے میں مت آئیں : پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ سائے سے پاک ہونا رحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ایک ایسی عظیم فضیلت و خصوصیت ہے جو آپ کو اللہ پاک کی عطا سے حاصل ہوئی۔ خبردار! شیطان کے بہکاوے میں آکر اللہ کے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے کسی معجزے اور خصوصیت سے متعلق شکوک و شبہات کا شکار ہرگز نہ ہوں۔ حضرت سیدنا امام عبدالوہاب شعرانی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : اس بات کو جان لو کہ ہر وہ بات جس سے رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی عظمت و شان ظاہر ہوتی ہو ، کسی کے لئے اس میں بحث و مباحثہ کرنا یا مخصوص قسم کی دلیل کا مطالبہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ [17]

عقل کے گھوڑے نہ دوڑائیں : اے عاشقانِ رسول! بزرگانِ دین کی کرامات اور سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے معجزات و خصوصیات کے معاملے میں عقل کے گھوڑے دوڑانا اور ان باتوں کو عقل کے ترازو پر تولنا دنیا وآخرت میں نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ یاد رکھیں! اللہ کریم نے اپنے پیارے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو بےنظیر ، لاثانی اور بےمثال بنایا ہے اس لئے آپ کو دیگر انسانوں پر قیاس کرنا ہرگزدرست نہیں۔

امامِ اہلِ سنّت امام احمدر ضا خان  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : وہ بَشَر ہیں مگر عالَمِ عُلْوی سے لاکھ درجہ اَشرف واَحسن ، وہ انسان ہیں مگر اَرواح وملائکہ سے ہزار درجہ اَلْطَف (یعنی روحوں اور فرشتوں سے کہیں زیادہ لطیف و نورانی) ، وہ خود فرماتے ہیں : (1)لَسْتُ کَمِثْلِکُمْ میں تم جیسا نہیں۔ [18] (2) لَسْتُ کَھَیْئَتِکُمْ میں تمہاری ہیئت پر نہیں۔ [19] (3)اَیُّکُمْ مِثْلِیْ تم میں کون مجھ جیسا ہے۔ [20] پھر اس خیالِ فاسد پرکہ ہم سب کا سایہ ہوتاہے ان کا بھی ہوگا توثبوتِ سایہ کا قائل ہونا ، عقل وایمان سے کس درجہ دورپڑتاہے۔ [21]

انکار کرنے والے کا حکم : غزالیِ زمان حضرت علامہ مولانا سیّد احمد سعید کاظمی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : عقائد و اعمال سے متعلق ہمارے بے شمار ایسے مسائل ہیں جنہیں ہم جَزم و یقین کے مرتبہ میں شمار نہیں کرتے ، بلکہ محض فضیلت و منقبت کے درجہ میں مانتے ہیں ، حتّٰی کہ اگر کوئی نیک دل طالبِ حق محض دلیل نہ ملنے کی وجہ سے ہمارے اس مسئلہ کو تسلیم نہ کرے تو ہم اسے بدعقیدہ نہیں کہتے ، نہ اس کے حق میں برا بھلا کہنا جائز سمجھتے ہیں ، بشرطیکہ اس کا انکار رسول اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی عداوت اور بغض و کینہ کی وجہ سے نہ ہو۔ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے جسمِ اقدس کا سایہ نہ ہونا بھی بابِ فضائل و مناقب سے ہے جس پر کفر و ایمان کا مدار(یعنی بنیاد) نہیں۔ [22]

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اپنے بے سایہ محبوب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے طفیل ہمیں دونوں جہاں میں اپنی رحمتوں کا سایہ عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  

(بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضان مدینہ ، کراچی



[1] خصائص کبریٰ ، 1 / 116 ، مدارج النبوۃ ، 1 / 21

[2] پ6 ، المائدۃ : 15

[3] تفسیر جلالین ، 2 / 33

[4] نسیم الریاض ، 4 / 335

[5] زرقانی علی المواہب ، 5 / 525

[6] مدارج النبوۃ ، 1 / 21

[7] فتاویٰ رضویہ ، 30 / 706

[8] حدائقِ بخشش ، ص244

[9] تفسیر نسفی ، ص772

[10] مدارج النبوۃ ، 2 / 161

[11] الوفا باحوال المصطفیٰ ، 2 / 19 ، زرقانی علی المواہب ، 5 / 525 ، الجزء المفقود من المصنف لعبدالرزاق ، ص56

[12] فتاویٰ رضویہ ، 30 / 708مفہوماً

[13] خصائص کبریٰ ، 1 / 116 ، مواہب لدنیہ ، 2 / 71

[14] قبالۂ بخشش ، ص51

[15] المنح المکیۃ فی شرح الہمزیۃ ، ص86

[16] قبالۂ بخشش ، ص160

[17] کشف الغمۃ ، 2 / 53

[18] مسند احمد ، 9 / 132 ، حدیث : 23563

[19] بخاری ، 1 / 633 ، حدیث : 1922

[20] بخاری ، 4 / 352 ، حدیث : 6851

[21] فتاویٰ رضویہ ، 30 / 725

[22] مقالاتِ کاظمی ، 4 / 57


Share

Articles

Comments


Security Code