بے بسی(Helplessness)

ہماری کمزوریاں

بے بسی(Helplessness)

* مولانا ابورجب محمد آصف  عطاری مدنی

ماہنامہ جولائی 2021ء

ایک یونانی بزنس مین اَرسطو اَوناسِس بہت بڑی شپنگ کمپنی کا مالک تھا ، 1975ءمیں اس کے مرنے کے بعد ایک ٹی وی چینل نے اُس پر ڈاکومینٹری (دستاویزی ویڈیو) بنائی جس میں ایک انکشاف نے لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ، وہ اس کی بے بسی پر حیران رہ گئے کہ اتنا امیر کبیر آدمی ایک عجیب بیماری کا شکار تھا کہ وہ اپنی پلکوں (Eyelash) کو اپنی مرضی سے نہیں اٹھا سکتا تھا ، وہ دنیا کے قابل ترین ڈاکٹرز سے علاج کروانے کے بعدبھی شفایاب نہ ہوسکا۔ دن کے وقت اُس کے پپوٹوں (آنکھوں کے اوپر والے حصوں) پر سلوشن ٹیپ لگادی جاتی جس کے لگانے سے دن بھر اُس کی آنکھیں دیکھ سکتی تھیں ، رات کو وہ ٹیپ اتار دی جاتی تو پلکیں اُس کی آنکھوں پر گر جاتیں اور وہ سو جاتا۔ اگلے دن دوبارہ اُس کو ٹیپ لگا دی جا تی۔ اوناسس سے پوچھا گیا کہ تم دنیا کے امیر ترین شخص ہو! کیا تمہاری کوئی ایسی خواہش ہے جو ابھی تک نہ پوری ہوئی ہو تو اوناسس کہنے لگا : “ کاش! میں صرف ایک بار اپنی پلکوں کو اپنی مرضی سے حرکت دے سکوں ، چاہے میری ساری دولت چلی جائے۔ “

ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین!

 انسان کو اپنی طاقت و توانائی کے ساتھ ساتھ بے بسی پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔ انسان فضاؤں میں جہاز کے ذریعے پرواز کرتا ہے ، آبدوز میں بیٹھ کر سمندروں کی تہہ میں اُتر جاتا ہے ، پہاڑوں کا سینہ چیر کر ٹنلز (سرنگیں) بنالیتا ہے ، زیرِ زمین گھر بناکر اس میں رہ لیتا ہے ، مصنوعی روشنیوں کے ذریعے رات کو دن بنا لیتا ہے ، اے سی کے ذریعے گرم موسم میں کمرے کو ٹھنڈا اور ہیٹر کے ذریعے سرد موسم میں کمرے کو گرم کرلیتا ہے ، کراٹے کا وار کرکے پتھروں اور برف کی سلوں کو توڑ دیتا ہے ، ہاتھوں کی طاقت سے لوہے کے برتنوں کو توڑ مروڑ دیتا ہے اور نہ جانے کیسے کیسے حیران کُن کام کر گزرتا ہے ، لیکن یہی انسان کبھی اتنا بے بس اور مجبور ہوجاتا ہے کہ *تھوڑا سا فاصلہ بھی اپنے قدموں پر چل کر طے نہیں کرسکتا *چائے کی پیالی یا پانی کے گلاس کو اپنے ہاتھوں میں سنبھال نہیں سکتا *صحت مند انسان کا دل ایک دن میں ایک لاکھ تین ہزار چھ سو اسی مرتبہ دھڑکتا ہے اور اگر کسی وجہ سے دھڑکنوں کی ترتیب کم یا زیادہ ہوجائے تو جان پر بن جاتی ہے *انسان طرح طرح کی نعمتیں کھاتا اور لطف اٹھاتا ہے اگر اس کی آنتوں کی حرکت رک جائے یا مثانہ پانی نکالنے سے انکار کر دے تو زندگی کتنی خوفناک ہوجائے گی اِس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ، ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ میرے پاس ایسے بھی مریض آتے ہیں جن کی آنتیں کاٹ کر معدے کے منہ پر نالی لگا کر سائیڈ پر پلاسٹک بیگ لٹکا دیا جاتا ہے اب سارا دن فُضلہ اُس بیگ میں جمع ہوتا رہتا ہے اور مریض سارا دن اُس بیگ کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے *جس بے چارے کی کسی حادثے میں ہڈیاں ٹوٹ جائیں تو اس کے بازوؤں اور ٹانگوں پر پلستر لگا دیا جاتا ہے ، وہ انسان جو سوتے وقت اپنی مرضی سے کروٹیں لیتا تھا ، اب کروٹ بدلنے جیسی نعمت سے بھی محروم ہوجاتا ہے *اگر کسی کی ذائقہ چکھنے کی صلاحیت جاتی رہے تو اس کی زندگی بے ذائقہ ہوجاتی ہے کیونکہ پوری میڈیکل سائنس زبان جیسا آلہ بنانے سے قاصر ہے جو لیموں کی ترشی اور آم کی مٹھاس میں فرق محسوس کر سکے *جس کی کسی وجہ سے بینائی (Sight) جاتی رہے اس کی زندگی میں کیسا اندھیرا ہوجاتا ہے وہی جانتا ہے *گاڑی کا بریک فیل ہونے ، کمپیوٹر سے ڈیٹا ڈیلیٹ ہونے یا دورانِ ڈرائیونگ نیند آنے پر انسان بے بسی کی کیسی تصویر نظر آتا ہے! *بچہ غبارہ پھٹنے پر ، نوجوان بائیک پنکچر ہونے اور کار والا انجن کی گیس کِٹ جلنے پر کیسا بےبس ہوتا ہے وہی سمجھ سکتا ہے *حال ہی میں ایک ملک میں کھلی فضا میں مزے سے سانس لینے والے جب کرونا کا شکار ہوکر مصنوعی آکسیجن کے لئے فٹ پاتھوں پر تڑپ رہے تھے تو ان کی بے بسی عبرت انگیز تھی *تاریخ میں دیکھا جائے تو نمرود جیسا کرّوفر والا بادشاہ ایک معمولی مچھر کے ہاتھوں انجام کو پہنچا جو اس کے دماغ میں گھس گیا تھا *فرعون جیسا جابر و ظالم کیسی بے بسی کے عالَم میں اپنے لشکر سمیت دریائے نیل میں ڈوب کر مرا۔

دیکھا جائے تو انسان کی بے بسی کا سفر اس کے بچپن سے شروع ہوتا ہے جب وہ کھانے پینے وغیرہ میں دوسروں کا محتاج ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ بچے کو اپنی بےبسی کا شعور نہیں ہوتا اور بڑھاپے میں اپنی انتہا کو پہنچتا ہے جب اس کی ہڈیاں کمزور پڑ جاتی ہیں اور گردے ، پھیپھڑے اور معدہ وغیرہ کمزور ہوجاتے ہیں۔ پھر جب انسان کو موت آتی ہے تو نزع میں شدید بےبسی کا عالَم ہوتا ہے موت کا ایک جھٹکا تلوار کے ہزار وار سے سخت ہے لیکن وہ اپنی زبان بند ہونے کی وجہ سے کسی سے اپنی بےبسی شیئر بھی نہیں کرسکتا ، مُردے کی بے بسی اس کو غسل دینے والے سے پوچھئے کہ وہ اپنے جسم کو ذرا سی بھی حرکت نہیں دے سکتا پھر اس کا جنازہ بےبسی کی داستان سناتے ہوئے لوگوں کے کندھوں پر قبرستان کی طرف جاتا ہے جہاں اسے قبر میں بے بس اور تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے ، اس کے بعد قیامت میں پُل صراط پر ، میدانِ محشر میں انسان کی بے بسی کا کیا عالَم ہوگا اس کے تصور سے ہی دل کانپ اٹھتا ہے۔

آخری بات :

 جب انسان اتنا بے بس و کمزور ہے تو اسے تمام جہانوں کے پیدا کرنے والے ربِّ جلیل کی نافرمانی زیب نہیں دیتی کیونکہ اللہ پاک کی نافرمانی کا انجام جہنم کے عذابات ہیں اور جہنم کے عذابات اس قدر خوفناک اور دہشت ناک ہیں کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے ، کئی احادیث و روایات کے مطابق دوزخیوں کو ذِلّت و رُسوائی کے عالَم میں داخلِ جہنم کیا جائے گا ، وہاں دُنیا کی آگ سے ستّر گنا تیز آگ ہوگی جو کھالوں کو جَلا دے گی ، ہڈیوں کا سُرمہ بنا دے گی ، اس پر شدید دُھواں جس سے دَم گُھٹے گا ، اندھیرا اتنا کہ ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہ دے ، بھوک پیاس سے نڈھال بیڑیوں میں جکڑے جہنمی کو جب پینے کے لئے سخت کھولتا ہوا پانی پینے کو دیا جائے گا تو منہ کے قریب کرتے ہی اس کی تپش سے منہ کی کھال جھڑ جائے گی ، کھانے کو کانٹے دار تھوہڑ ملے گا ، لوہے کے بڑے بڑے ہتھوڑوں سے اسے پِیٹا جائے گا۔ ذرا تصور کیجئے کہ اگر ہمیں جہنم میں ڈال دیا گیا تو ہمارا یہ نرم و نازک بدن اس کے ہولناک عذابات کو کس طرح برداشت کر پائے گا؟ حالانکہ یہ تو اتنا بے بس اور کمزور ہے کہ کسی تکلیف کی شدت جب اپنی انتہاء کو پہنچتی ہے تو یہ بےہوش ہوجاتا ہے یا پھر بےحس و حرکت (Numb and Motionless) ہوجاتا ہے۔ جبکہ جہنم میں پہنچنے والی تکالیف کی شدت کے سبب انسان پر نہ توبے ہوشی طاری ہوگی اور نہ ہی اسے موت آئے گی۔ آہ! وہ وقت کتنی بے بسی کا ہوگا! کیا اب بھی ہمیں گناہوں سے وحشت محسوس نہیں ہوگی؟ کیا اب بھی ہمارے دل میں نیکیوں کی محبت نہیں بڑھے گی؟ آہ! اگر رحمتِ خداوندی شاملِ حال نہ ہوئی تو ہمارا کیا بنے گا؟

ہر خطا تو دَرگزر کر بیکس و مجبور کی

ہو الٰہی! مغفِرت ہر بیکس و مجبور کی

(وسائلِ بخشش (مرمَّم) ، ص96)

اللہ کریم ہمیں دنیا و آخرت میں عافیت ، راحت اور آسانی نصیب فرمائے۔

 اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* اسلامک اسکالر ، رکن مجلس المدینۃ العلمیہ(اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code