حقیقی کامیابی  اور اس کے حصول کا طریقہ(قسط:01)

تفسیر قراٰنِ کریم

حقیقی کامیابی اور اس کے حصول کا طریقہ(قسط : 01)

* مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ جولائی 2021

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : (قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵))ترجمۂ کنزالعرفان : بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (پ18 ، المؤمنون : 1تا5)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر : اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنّت میں داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پاجائیں گے۔ (تفسیر کبیر ، 11 / 161 ، روح البیان ، 8 / 457 ملتقطاً)

سورۂ مؤمنون کی ابتدائی دس آیات کے بارے میں حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں : جب نبیِّ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر وحی نازل ہوتی تو آپ کے چہرۂ اقدس کے پاس مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح آواز سنائی دیتی۔ ایک دن وحی نازل ہوئی تو ہم کچھ دیر ٹھہرے رہے ، جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے قبلہ رو ہو کر ہاتھ اٹھائے دعا مانگی۔ ۔ ۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا : مجھ پر دس آیات نازل ہوئی ہیں ، جس نے ان میں مذکور باتوں کو اپنایا وہ جنت میں داخل ہوگا ، پھر آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے “ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ “ سے لے کر دسویں آیت کے آخر تک پڑھا۔ (ترمذی ، 3 / 452 ، رقم : 3097)

انہی آیات کے متعلق یزید بن بابنوس سے مروی ہے کہ ہم نے حضرت عائشہ صدیقہ   رضی اللہُ عنہا  سے عرض کی : اے اُمُّ المؤمنین! حُضور پُر نور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اَخلاق کیسے تھے؟ ارشاد فرمایا : رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا خُلق قرآن تھا ، پھر فرمایا : “ تم سورۂ مؤمنون پڑھتے ہو تو پڑھو۔ چنانچہ ایک شخص نے شروع کی دس آیتیں پڑھیں تو حضرت عائشہ صدیقہ   رضی اللہُ عنہا  نے فرمایا : رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اَخلاق ایسے ہی تھے۔ “ (مستدرک ، 2 / 426 ، حدیث : 3481)

کامیابی کی دو قسمیں ہیں : ایک ، جزوی کامیابی اور دوسری ، کلی کامیابی۔

جزوی کامیابی وہ ہے جو زندگی کے کسی ایک دو معاملات میں ہو ، جیسے کسی مصنف کے لئے اس کی کتابوں کا چھپنا ، بکنا ، پسند کیا جانا ، کامیابی ہے۔ یونہی بزنس مین کے لئے کاروبار بڑھنا ، پھیلنا ، دوسرے شہروں میں شاخیں کھل جانا ایک بڑی کامیابی ہے۔ اسی طرح نوکری پیشہ کے لئے اچھی تنخواہ ، اچھی مراعات ، اچھا عہدہ ، عہدے میں ترقی ، تنخواہ میں اضافہ اور اچھی کارکردگی کا ایوارڈ ملنا ایک مرغوب کامیابی ہے۔ اسی طرح کی تفصیل دِینی معاملات کے اعتبار سے بھی ہوسکتی ہے۔

لیکن کامیابی کا ایک کُلّی ، جامع اور بلند تر معنیٰ ہے جو حقیقت میں ہمارا مطلوب و مقصود ہونا چاہئے۔ کامیابی کا وہ مفہوم بحیثیتِ انسان اور بطورِ مسلمان اس لئے حقیقی ، کامل اور اعلیٰ ہے کہ اس کا علم ہمیں اُس علیم و خبیر ہستی نے دیا ہے جو ہم سے زیادہ ہمیں جاننے والا ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے : (اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَؕ-وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۠(۱۴)) ترجمہ : کیا جس نے پیدا کیا وہ نہیں جانتا؟ حالانکہ وہی ہر باریکی کو جاننے والا ، بڑا خبردار ہے۔ (پ29 ، الملک : 14)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اگر پیسہ ہی انسان کی کامیابی کے لئے کافی ہوتا تو کوئی مال دار دنیا میں دُکھی نہ ہوتا ، جبکہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ بہت سے پیسے والے نافرمان اولاد ، زبان دراز بیوی ، تباہ حال صحت اور انتشارِ ذہنی کی وجہ سے زندگی عذاب میں گزارتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ان مسائل میں سے کوئی مسئلہ بھی نہ ہو پھر بھی حقیقی کامیابی کا دعویٰ نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر دنیا میں ہر چیز حاصل ہے لیکن اس کے ساتھ بندہ خدا کی لعنت و غضب کا مَوْرِد اور عذابِ جہنم کا مستحق ہے ، تو ایسی کامیابی ، ناکامی ہی ہے۔

کامیابی کا وسیع تر اسلامی تصوریہ ہے کہ خدا راضی ہو ، آخرت میں نجات ملے ، جہنم سے چھٹکارا اور جنت میں داخلہ حاصل ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب انسان رضائے الٰہی کو اپنا مقصودِ اصلی بنا کر کوشش کرتا ہے اور وہ کوشش احکامِ خدا ، ہدایاتِ اسلام ، تعلیماتِ شریعت ، اتباعِ سنت کے مطابق ہوتی ہے تو اس کے سارے کام ہی سیدھے ہوجاتے ہیں ، مخلوق راضی ، بیوی خوش ، بچے فرمانبردار ، ذہن پُرسکون اور رزق میں قناعت نصیب ہوجاتی ہے۔ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا اس کے متعلق ایک بہت خوبصورت فرمان ہے : اسود بن یزید نے روایت کیا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہُ عنہ  نے کہا کہ میں نے تمہارے محترم نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو فرماتے ہوئے سنا : “ جس نے اپنے سارے غموں کو آخرت کا غم بنا لیا تو اللہ تعالیٰ اس کی دنیا کے غم کے لئے کافی ہے ، اور جو دنیاوی معاملات کے غموں اور پریشانیوں میں الجھا رہا ، تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوا۔ “ (ابن ماجہ ، 4 / 425 ، حدیث : 4106)

کامیاب لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۵۲))ترجمہ : اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرےاور اس (کی نافرمانی)سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔ (پ18 ، النور : 52)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اور فرمایا : (فَمَنْ  زُحْزِحَ  عَنِ  النَّارِ  وَ  اُدْخِلَ  الْجَنَّةَ  فَقَدْ  فَازَؕ-) ترجمہ : تو جسے آگ سے بچا لیا گیااور جنت میں داخل کر دیا گیا تو وہ کامیاب ہو گیا۔ (پ4 ، اٰل عمرٰن : 185)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

قرآن بتاتا ہے کہ لوگ دو طرح کے ہیں : ایک وہ جو صرف دنیا کی کامیابی چاہتے ہیں اور دوسرے وہ جو دنیا و آخرت کی کامیابی مانگتے ہیں۔ چنانچہ طالبینِ دنیا کے متعلق فرمایا : (فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ(۲۰۰)) ترجمۂ کنزُالعرفان : اور کوئی آدمی یوں کہتا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں دیدے اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں۔ (پ2 ، البقرۃ : 200)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اور طالبینِ آخرت کے متعلق فرمایا : (وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱) اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْاؕ-وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ(۲۰۲)) ترجمہ : اور کوئی یوں کہتا ہے کہ اے ہمارے رب!ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں بھی بھلائی عطا فرمااور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ ان لوگوں کے لئے اُن کےکمائے ہوئے مال سے حصہ ہے اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے (پ2 ، البقرۃ : 202 ، 201)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

دوسری جگہ پر فرمایا : ( مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۱۸) وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا(۱۹) كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَؕ-وَ مَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا(۲۰)) ترجمہ : جو جلدی والی (دنیا) چاہتا ہے تو ہم جسے چاہتے ہیں اس کیلئے دنیا میں جو چاہتے ہیں جلد دیدیتے ہیں پھر ہم نے اس کے لیے جہنم بنارکھی ہے جس میں وہ مذموم ، مردود ہوکر داخل ہوگا۔ اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔ ہم سب کو مدد دیتے ہیں اِن کو بھی اور اُن کو بھی تمہارے رب کی عطا سے اور تمہارے رب کی عطا پر روک نہیں۔ (پ15 ، بنٓی  اسرآءیل : 18 ، 19 ، 20)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

قرآن کی نظر میں ایمان اور اچھے کردار والے حقیقت میں کامیاب ہیں۔ (اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْۗ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵)) ترجمۂ کنزالعرفان : یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔ (پ1 ، البقرۃ : 5)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  آخرت کو بھلا کر صرف مالی کامیابی حاصل کرنا قرآن کی رُو سے ہرگز کامیابی نہیں ، چنانچہ فرمایا : (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۹))ترجمہ : اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں اور جو ایسا کرے گا تو وہ لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ (پ28 ، المنافقون : 9)   (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

مزید تفصیلات اِنْ شآءَ اللہ اگلی قسط میں۔ ۔ ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنت ، فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code