دین آسان ہے

حدیث شریف اور اُس کی شرح

دین آسان ہے

* مولانا محمد ناصر جمال عطّاری مدنی

ماہنامہ جولائی 2021

حُضورِ اکرم ، نورِ مجسّم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے : اِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ یعنی دین آسان ہے۔ [1]

شارحِ بخاری علامہ بدرُ الدّین عینی حنفی  رحمۃُ اللہِ علیہ  نےدین آسان ہونے کی جووضاحت کی ہے ، اُس کاخلاصہ ملاحظہ کیجئے : دین آسان ہے یعنی دینِ اسلام پچھلے تمام اَدیان سے آسان ہے۔ اسی لئے امّتِ محمدیہ کے لئے پچھلی اُمّتوں جیسی دشواریاں نہیں کیوں کہ پچھلی امتوں کےلوگ مٹی سے(تیمم کےذریعے) طہارت حاصل نہیں کرسکتے تھے ، کپڑے پر جس جگہ نجاست لگ جاتی اسے کاٹناپڑتا وغیرہ ۔ اللہ  پاک نے اپنے لطف و کرم سے اس اُمَّت پر رحم فرماتے ہوئے اُن تمام سختیوں کو دُور فرما دیا۔ اللہ  پاک ارشاد فرماتا ہے : (وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍؕ-)[2] ترجَمۂ کنزُالایمان : اور تم پردین میں کچھ تنگی نہ رکھی۔ [3] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اسلام دینِ فطرت ہےجس کی واضح علامت یہ ہے کہ اسلام نے بندے کو اُنہی احکام کا پابند کیا ہے جو اُس کی طاقت و قوت کے تحت آتے ہوں چنانچہ ربِّ کریم ارشاد فرماتا ہے : (لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ-) ترجَمۂ کنزُالایمان : اللہ  کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت بھر۔ [4] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

دین آسان ہونے کی چندمثالیں :

(1)اللہ پاک نےاس اُمت سے بھول اوردل میں آنے والے گناہوں بھرے خیالات کومعاف فرما دیا جب تک کہ وہ “ عزم “ [5] کی حدتک نہ پہنچیں۔

(2) فرائض و واجبات اور سنّت فجر میں قیام یعنی کھڑے ہونا فرض ہے ، لیکن اگر کوئی شدّتِ تکلیف میں مبتلا ہو اور قیام کی کوئی صورت نہ ہوتو اسے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی رخصت دی گئی ہے ، جس کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنا انتہائی دُشوار ہو اسے لیٹ کر پڑھنے کی اجازت دی گئی ، جو اپنے جسم کو حرکت نہ دے سکتا ہو اسے اشاروں سے نماز پڑھنے کی رُخصت ہے۔

(3)غسل و وضو کے لئے اگر پانی دستیاب نہ ہوسکے یا پانی کا استعمال اس کے لئے نقصان دہ ہے توتمام شرائط پائے جانے کی صورت میں نیت کرکے اسےمٹی پر ہاتھ مار کر چہرے اور کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں پر پھیر کر تیمم کرلینے کووضو و غسل کے قائم مقام قرار دے دیا گیا ہے۔

(4)اسی طرح سفر کی دُشواریوں کا لحاظ کرکے شریعت نے مسافر کوشرعی سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھنے اور اسے بعد میں قضا کرلینے کی رُخصت دی ہے۔

(5)شرعی سفر کے لئے نماز قصر کرنے یعنی چار رکعت  فرض کو دورکعت پڑھنےکاحکم دیا ہے۔ لہٰذا دین میں بےجا سختی اور مبالغہ آرائی نہیں کرنی چاہئے اور جن امور میں شریعت نےرخصت و نرمی دی ہے انہیں قبول بھی کرنا چاہئے ، اللہ  پاک کےآخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اِنَّ اللہَ یُحِبُّ اَنْ تُؤْتٰی رُخَصُہُ کَمَا یُحِبُّ اَنْ تُؤْتٰی عَزَائِمُہُ یعنی جس طرح اللہ کریم کو یہ پسندہے کہ اس کے عطا کردہ فرائض پر عمل کیا جائے اسی طرح اسے یہ بھی پسند ہے کہ اس کی دی گئی رخصتوں پر عمل کیا جائے۔ [6]یاد رہےکہ رخصت میں بھی درمیانی راہ اختیار کرنی چاہئے یعنی جن صورتوں میں شریعت نے جتنی رعایت دی ہے اس سے تجاوُز  نہ کیا جائے کہ محض اپنی سہولت اور سُستی کی وجہ سےراہِ اعتدال چھوڑ دی جائے ، مثلاً کسی عالمِ دین سے شرعی راہنمائی لئے بغیر ہی معمولی سی تکلیف یا خود ساختہ مجبوری کی وجہ سے نماز کی جماعت چھوڑدی جائے یا معمولی عذر میں بیٹھ کر نماز پڑھ لی جائے ، دینی معاملات و احکامات پر عمل کرنے میں اگر کسی مسلمان کو کوئی عذر اور تکلیف ہو یا عمل کی راہ میں کوئی مجبوری آڑے آجائے تو اسے چاہئے کہ “ دین بڑا آسان ہے “ کہہ کر اپنے اندازے سے اس مشکل کا حل نکالنے کی بجائے علما و مفتیانِ کرام کے پاس حاضر ہوکر اس کا حل معلوم کرےکیونکہ جس طرح ہم بہت سے دنیوی کاموں میں پیش آنے والی رکاوٹوں اور اُلجھنوں کے حل کے لئے جب اس کام کے ماہرین کےپاس جاتے ہیں تبھی وہ معاملہ صحیح طور پر حل ہوتاہےمثلاً جسمانی مسائل اور پریشانیوں کا خود سے ہی علاج نہیں کرتے اور نہ ہی کسی معمار و ٹھیکیدار کے پاس جاتے ہیں بلکہ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور بیماری جتنی سنگین ہو اتنے ہی بڑے ماہر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ، کوئی مکان بنوانا ہو تو حجام کے پاس نہیں بلکہ معمار و ٹھیکیدار کے پاس جاتے ہیں اور سر کے بڑھے ہوئے بالوں کی اُلجھن کے حل کے لئے ڈینٹسٹ کے پاس نہیں جاتے ، اسی طرح دینی مسائل میں بھی کسی غیرِ عالم وغیرِ مفتی سے اس کا حل معلوم کرنے یا خود ہی اپنے اندازے سے اسے حل کرنے کے بجائے سنی عُلمائے کرام اور مفتیانِ دین کے پاس جانا ہی لازمی اور ضروری ہے تاکہ وہ مسئلہ صحیح طریقےسےحل ہوجائے۔

روزمَرَّہ کا مشاہدہ ہمیں بتاتا ہے کہ کم ہمت انسان کو معمولی سا کام بھی پہاڑ جتنا وزنی لگتا ہےاور بلند ہمت انسان پہاڑ جیسے کام کو معمولی سمجھ کر کرگزرتا ہے۔ ایک تعداد وہ ہے جو اپنی سستی و کاہلی اورکم ہمتی کی وجہ سے اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کرتی لیکن “ دین پرعمل بہت مشکل ہے “ کہہ کر اپنی بے عملی چھپانے کی کوشش کرتی ہے ایسے لوگوں کو لمبا سفر کرکے کڑی شرائط کےساتھ بالکل وقت پرآٹھ آٹھ دس دس گھنٹوں کےلئےدفتر پہنچنا دشوارنہیں لگتا مگر چند منٹوں میں پڑھی جانےوالی پانچ وقت کی نماز مَعاذَ اللہ بوجھ محسوس ہوتی ہے ، اپنی ماہانہ آمدنی کا اکثرحصہ عیاشیوں میں لُٹانا آسان لگتا ہے جب کہ ضروری شرائط کے بعد فرض ہونے کی صورت میں صرف ڈھائی فیصد زکوٰۃ نکالنا پریشان کردیتا ہے ، کیرئیر بنانے کی خاطر مشکل سے مشکل عُلوم حاصل کرنے کے لئے کئی سال تک رات دن اُٹھائی جانے والی مشقت توگوارا ہےمگر ضروری دینی علم حاصل کرنے کے لئےکچھ نہ کچھ وقت نکالنا بہت بھاری پڑتا ہے۔ یہ مختصر سا جائزہ ہمیں یہ باوَر کرانے کے لئے کافی ہے کہ دین ِ اسلام پر عمل کو مشکل بنانے میں انسان کے زاویۂ نگاہ اور ترجیحات کا دخل ہے ۔

جو زندگی کے ہرمرحلے میں اِسلام کو ترجیح دیتے ہیں اُنھیں دینِ اسلام پرعمل مشکل نہیں لگتا ، اُن کا حُسنِ عمل دنیا پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے اوراُنہیں رول ماڈل کےطور پر یاد رکھا جاتا ہے ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ذمہ دار شعبہ فیضان اولیا و علما ، المدینہ العلمیہ(اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی



[1] بخاری ، 1 / 36 ، حدیث : 39

[2] پ17 ، الحج : 78

[3] عمدۃ القاری ، 1 / 348ملخصاً

[4] پ3 ، البقرۃ : 286

[5] اگر گناہ کے کام کا بالکل پکا ارادہ کرلیا جس کو عزم کہتے ہیں تو یہ بھی ایک گناہ ہے اگرچہ جس گناہ کا عزم کیا تھا اسے نہ کیا ہو۔ (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب ، ص305)

[6] مصنف لابن ابی شیبۃ ، 6 / 234 ، حدیث : 1


Share

Articles

Comments


Security Code