ہماری عادتوں کے فوائد و نقصانات

فریاد

ہماری عادتوں کے فوائد و نقصانات

دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران حاجی محمد عمران عطاری

ماہنامہ جولائی 2021ء

ایک نوجوان نے باہر ملک جاکر جاب کرنے کا سوچا ، ایک جگہ باہر ملک کی ویکینسی آئی ، تووہاں گیا ، دیکھا کہ کئی لوگ انٹرویو دے کر آرہے ہیں ، لیکن ہرایک کے چہرے سے مایوسی جھلک رہی تھی کہ انٹرویو اچھا نہیں ہوا اس نوجوان نے سوچا کہ مجھے بھی کہاں سے جاب ملے گی ، بہر حال اس نے دل چھوٹا نہ کیا ، جب اس کی انٹرویو کی باری آئی تو یہ چل پڑا جہاں انٹرویو لینے والے بیٹھے تھے وہاں پہنچتے پہنچتے راستے میں جو بھی فضول لائٹس  روشن  تھیں ، انہیں بند کردیتا ، کرسی بیچ راستے میں نظر آئی تو اسےاٹھا کر سائیڈ میں کردیا کیونکہ یہ اس کی عادت تھی ، گھر میں اس طرح کے کام کرتا تھا ، جب انٹرویو لینے والوں کے پاس پہنچا تو انہوں نے نام وغیرہ پوچھا ، اس نے بتادیا ، انٹرویو لینے والوں نے اسے کہا : جاؤ! تمہاری جاب لگ گئی۔ اس نے پوچھا : انٹرویو تو نہیں ہوا جاب کیسے ہوگئی؟ انہوں نےکیمرے کی طرف اشارہ کرکے کہا : اسے دیکھ رہے ہو  تم نے آتے آتے جو کام کئے یہ سب ہم نے دیکھ لئے ، یہی  تمہارا  انٹرویو تھا ، ہمیں وہی بندہ چاہئے تھا جسے ان تمام چیزوں کا احساس ہو ، پہلے جتنے بھی افراد آئے ان کو جلتی ہوئی لائٹیں نظر نہ آئیں اور نہ ہی کچھ اور نظر آیا ، یہ ہمارے لئے کیا کام کریں گے۔

پیارے اسلامی بھائیو! اس نوجوان کو اس کی عادت اور گھر کی تربیت نے جاب دلائی ، بعض عادتیں اچھی ہوتی ہیں اور بعض بری ، سبھی کو چاہئے کہ اچھی عادتیں اپنائیں اور بری عادتوں سے دور رہیں۔ جس آدمی میں بری عادتیں ہوتی ہیں وہ اس تک محدود نہیں ہوتیں بلکہ دوسروں کےلئے بھی باعثِ تکلیف ہوتی ہیں۔ آئیے ذیل میں کچھ اچھی اور بُری عادات کے متعلق پڑھتے ہیں :

 زبان کی عادت اور بدن کے اعضاء : بدن کے اعضاء زبان سے کہتے ہیں : تو ٹھیک رہے گی تو ہم ٹھیک رہیں گے ، تو بگڑجائےگی تو ہم بگڑ جائیں گے ، یوں ہمیں نقصان پہنچے گا۔ جیسے گالی زبان دیتی ہے لیکن کوئی اسے پکڑ کر مارتا نہیں کہ تونے گالی دی ، بلکہ زبان کی جگہ بدن کا دوسرا حصہ مارکھاتا ہے۔ ایسے وقت میں زبان تو چھپ جاتی ہے مگر بدن اس کی سزا بھگت لیتاہے۔

دھکے کھلانے اور ٹرخانے کی عادتیں : بعض لوگ بلا وجہ دوسروں کو دھکا کھلاتے اور پریشان کرتے ہیں : مثلاً (1) سیل مین سے چیزیں منگاتے ہیں جب وہ سامان لے کرآتا ہے تو سامان وصو ل کرلیتے ہیں مگر رقم دینے میں ٹال مٹول کرتے اور اسے دھکا کھلاتے ہیں (2)بعض لوگ مزدوروں کو دھکے کھلاتےہیں اور کام مکمل کرنے کے بعد بھی ان کے پیسے نہیں دیتے (3)بعض لوگ کسی جگہ مسجد وغیرہ میں رقم خرچ کرنے کا اعلان کرتے ہیں ، جب رقم کی وصولی کے لئے کوئی ان کے پاس جاتا ہے تو بغیر کسی وجہ کے دھکے کھلاتے اور ٹرخاتے ہیں کہ ابھی میں مصروف ہوں ، دوتین گھنٹے بعد آجانا ، اکثر اوقات پیسے پاس ہوتے ہیں لیکن دیتے نہیں۔ حق دار کو اس کا حق نہ دینا بہت بُری بات ہے اس کا حق فوراً دینا چاہئے اسی طرح چندہ مانگنے والے کا تو شکریہ ادا کرناچاہئے کیونکہ وہ آپ کا محسن ہے ، آپ کے پیسوں کو نیک کاموں میں خرچ کررہا ہے۔

تاخیری مزاج : بعض افراد کی تاخیر سے کام کرنے کی عادت ہوتی ہے ، ہر کام لیٹ کرتے ہیں ، مثلاً بل بھرنا ہے تو لاسٹ ڈیٹ پر ، کالج یا یونیورسٹی وغیرہ کی فیس بھرنی ہے تو لاسٹ ڈیٹ پر ، کوئی ٹیکس ادا کرنا ہے تو لاسٹ ڈیٹ پر ، اکثر چیزیں لاسٹ ڈیٹ پر نظر آتی ہیں حتّٰی کہ بعض تو تاخیر کے اس قدر عادی ہوتے ہیں کہ نمازیں بھی قضا کرکے پڑھتے ہیں۔ کہیں جانا ہے ، کچھ کرنا ہے ، سونا ہے ، اٹھنا ہے جو کام کرناہے تو تاخیر سے ہی کرنا ہے۔ یہ بھی بہت ہی بری عادت ہے مہربانی کرکے اسےختم کریں ۔

شخصیت سے ملنے والا تأثر : ہم ایک مشہور شخصیت سے ملاقات کرنے گئے ، ملاقات اور بات چیت کرکے تقریباً 45 منٹ میں فارغ ہوئے ، اجازت ملنے پر ہم باہر آگئے ، جس نے ہماری ملاقات کروائی تھی باہر نکل کر اس نے ہمارا شکریہ ادا کرکے کہا : آپ نے تو کمال کردیا۔ یہ ہمارے کام سے فارغ ہو کر جلدی چلے جانے کی وجہ سے متأثر ہوئے تھے۔ آپ بھی جب کسی کے پاس جائیں تو  کام ہونے پر فوراً اٹھ جایا کریں ، اپنا اور اس کا ٹائم بچائیں ، وقت کی قدر کریں جسےاپنے وقت کی قدر نہیں ہوتی وہ دوسروں کے وقت کی بھی قدر نہیں کرتا۔

مختلف عادات : بعضوں کو بھولنے کی عادت ہوتی ہے ، پین رکھ کے بھول جانا یا چشمہ رکھ کے بھول جانا۔ بعضوں کی عادت ہوتی ہے چابی جہاں چاہے رکھ دیتے ہیں ، پھر خود بھی پریشان ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔ اسی طرح بعضوں کی عادت ہوتی ہے کسی کی نہیں مانتے ، اپنی بات منواتے ہیں ، یہ خود پسندی کا مزاج ہے کہ میں درست ہوں باقی سب غلط ہیں ، دعوتِ اسلامی نے ہمیں یہ تربیت دی ہے کہ آپ جب بھی مشورہ دیں تو ناقص کہہ کر مشورہ دیں ، کہ میری ناقص رائے ہے یا ناقص مشورہ ہے۔ مشورہ کےلئے سامنے والے کو یہ حق حاصل ہےکہ وہ مانے یا نہ مانے۔ اس میں کسرِ شان نہیں سمجھنا چاہئے کہ میری بات مانی نہیں گئی۔

کسی اور کی گاڑی لینے والوں کی عادت : بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کسی کی موٹر سائیکل یا گاڑی لیتے ہیں ، اگر اس میں پیٹرول ہے تو اپنا کام کرکے گاڑی کھڑی کردیتے ہیں اس میں پیٹرول ڈلواتے نہیں ، ایسا کرنا اچھی عادت نہیں ، اگر ٹینکی بھری ہوئی تھی تب بھی کچھ نہ کچھ فیول بھروادیں ، ایک تو اس کا دل خوش ہوگا اور اگر آئندہ بھی آپ کو ضرورت پڑے گی تو مِل جائے گی۔

اپنی گاڑی کے بارے میں بری عادتیں : بعض ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی گاڑیوں کو آفس بنایا ہوتا ہے ، گاڑی کے کسی کونے میں پیپر پڑا ہے ، کسی کونے میں ٹفن پڑاہے یا چپس پڑے ہیں ، ایسا نہیں کرنا چاہئے یہ اچھی عادت نہیں۔

اپنی صفائی نہ کرنے کی عادت : بعضوں کا ذہن ہوتا ہے کون صاف ستھرا رہے ، روز روز نہائے ، بعض لوگ موچھیں نہیں تراشتے ، داڑھی کے بال سیٹ نہیں کرتے ، سر کے بالوں پر تیل نہیں لگاتے ، ناخن نہیں کاٹتے اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی جرابوں ، جوتوں اور کپڑوں سے بدبو آتی ہے۔ صفائی کا اچھے انداز میں اہتمام کریں ، اپنے جسم ، کپڑے اور گھر سے متعلق تمام ہی چیزیں پاک و صاف رکھنے کی کوشش کریں۔

صفائی اور اسلام : صفائی ستھرائی دینِ اسلام کا خوبصورت ٹاپک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کل جو وبا پوری دنیا میں کرونا کے نام سے مشہور ہے ، اس نے لاکھوں کو صفائی ستھرائی کی اہمیت سمجھا دی ہے ، اس میں زیادہ زور ہی صفائی پر ہے جبکہ صفائی ستھر ائی کابیان 14 سو سال پہلے تو ہمارے پیارے  نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ارشاد فرماچکے ہیں۔

بچّوں کی صفائی کے حوالے سے تربیت : والدہ اگر بچے کو بچپن سے ہی صاف ستھرا رکھے ، اسے تیل لگائے ، اس کے بال بنائے ، اور موقع کی مناسبت سے اولاد کی یوں تربیت کرے کہ بیٹا! یہ کام کرنا چاہئے اور یہ نہیں کرنا چاہئے ، بیٹا !اسے صاف کرو ، بیٹا! دسترخوان کو صاف کرو ، بیٹا! زمین کو صاف کرو ، بیٹا!آپ کی انگلیاں صاف ہونی چاہئیں۔ جب یہ سب کچھ ہوگا تو بچے کا یہ مزاج بنے گا ، اگر اسے بچپن سے نہ سکھا یا گیا تو وہ کہاں سے صاف رہنے کا مزاج بنےگا؟

ایک اچھی عادت : بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگر کوئی ان کے پاس کھانا وغیرہ بھیج دے تو یہ برتن خالی نہیں بھیجتے اس میں کچھ نہ کچھ ڈال کرہی بھیجتےہیں ، یہ اچھا اخلاق اور اچھی عادت ہے۔ وہ دھوکر بھیجتےتب بھی ان کو برا نہ لگتا لیکن یہ بھر کر بھیجتے ہیں۔ اسی طرح اگر گھر میں کوئی مہمان آئے تو اپنی طبیعتوں اور عادتوں کو درست کریں ، تاکہ مہمان اچھا تأثر لےکرگھر سے جائے۔ میری تمام عاشقان رسول  سے  فریاد ہے کہ آپ سب بری عادتوں سے اپنا پیچھا چھڑائیں اور اچھی عادتیں اپنائیں ، اچھی اچھی عادتیں ہوں گی تو دنیا میں بھی کامیا بی ہوگی اور آخر ت میں بھی اِن شآءَ اللہ کام آئیں گی۔


Share

Articles

Comments


Security Code