اگر جانور کے سینگ نکال دیئے گئے ہوں تو

دارالافتاء اہلِ سنّت

ماہنامہ جولائی 2021ء

 (1)اگر جانور کے سینگ نکال دیئے گئے ہوں تو!

سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک جانور خریدنے کا ارادہ ہے ، مگر اس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہے۔ اس کے مالک سے پوچھا ، تو اس نے بتایا کہ ایک سینگ ٹوٹ گیا تھا ، دوسرے کو بھی ہم نے شروع سے ہی نکال دیا تھا ، تو کیا ایسے جانور کی قربانی ہوسکتی ہے ، جبکہ جانور کے سر پر کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا اور نہ ہی سر پر اب کسی طرح کا کوئی زخم ہے۔ راہنمائی فرمائیں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اس جانور کی قربانی جائز ہے ، سینگ کا ٹوٹنا اس وقت عیب شمار ہوتا ہے ، جبکہ جڑ سمیت ٹوٹ جائے اور زخم بھی ٹھیک نہ ہوا ہو ، لہٰذا اگر کسی جانور کا سینگ جڑ سمیت ٹوٹ جائے اور زخم بھرجائے ، تو اب اس کی قربانی ہوسکتی ہے ، کیونکہ جس عیب کی وجہ سے قربانی نہیں ہورہی تھی ، وہ عیب اب ختم ہوچکا ہے ، لہٰذا اس کی قربانی ہوجائے گی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

          مُجِیْب                                                                                                                                                                                                  مُصَدِّق

ابو حذیفہ محمد شفیق عطّاری مدنی                 مفتی محمد قاسم عطّاری

(2)کیا احرام باندھے بغیر میقات سے گزر سکتے ہیں؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہماری کچھ دنوں بعد حج کے لئے روانگی ہے ، ہم پہلے مدینہ پاک جائیں گے ، پھر وہاں سے حج کے قریب مکہ شریف آئیں گے ، تو اس کے لئے حج منسٹری والوں کی طرف سے یہ میسج آیا ہے کہ “ آپ کی حج پرواز جدہ جائے گی ، پھر وہاں سے بس کے ذریعے مدینہ منورہ جائیں گے ، مدینہ میں قیام کے بعد آپ سنتِ نبوی کی روشنی میں احرام باندھ کر مکہ مکرمہ کے لئے بذریعہ بس روانہ ہوں گے ، لہٰذا جدہ کے سفر کے لئے آپ احرام نہ باندھیں “ ، معلوم یہ کرنا ہے کہ جدہ تو میقات کے اندر ہے ، تو کیا ہم میقات سے احرام کے بغیر گزر سکتے ہیں؟سائل : محمد عدنان عطّاری (کہوٹہ ، راولپنڈی)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں آپ میقات سے بغیر احرام باندھے گزر سکتے ہیں ، کیونکہ اگر کوئی شخص مکہ (حدودِ حرم میں) جانے کے ارادے سے میقات سے گزرے ، تو اس پر حج یا عمرے کا احرام باندھنا واجب ہوتا ہے ، ایسے شخص کا میقات سے بغیر احرام کے گزرنا ، دَم واجب ہونے کا سبب ہے ، لیکن اگر میقات سے گزرتے ہوئے مکہ جانے کا ارادہ نہ ہو ، بلکہ حدودِ حرم سے باہر ہی کسی جگہ مثلاً جدہ جانا ہو ، تو اُس پر میقات سے گزرتے ہوئے احرام باندھنا ضروری نہیں اور آپ کا میقات سے گزرنا مکہ جانے کے لئے نہیں ، بلکہ حدودِ حرم سے باہر جدہ ، پھر وہاں سے مدینہ شریف جانا ہے ، لہٰذا میقات سے حج یا عمرے کا احرام باندھے بغیر گزر سکتے ہیں۔

اس کی نظیر یہ ہے کہ نبیِّ کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   اور صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان مختلف اغراض کے لئے مدینہ شریف سے مقامِ بدر تشریف لاتے ، جو میقات کے اندر ہے ، لیکن میقات سے احرام نہیں باندھتے تھے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبــــــــــــــــہ

مفتی محمد قاسم عطّاری

(3)اگرمالدار شخص 12 ذوالحجہ کو سفر پر ہو تو قربانی کا حکم

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مالدار مقیم پر قربانی واجب تھی پھر بارہ ذوالحجہ کی صبح بانوے کلو میٹر سے زائد سفر شرعی پر نکل گیا ، کیا اب اس پر قربانی واجب رہی یا نہیں؟نیز اگر اس نے قربانی کی نیت سے بکرا خرید لیا تھا ، تو اب مسافر ہونے پر اسے فروخت کرسکتا ہے یا نہیں؟ سائل : محمدحامد سلطانی(فیصل آباد)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق اُس شخص پر قربانی واجب نہ رہی ، کیونکہ قربانی کے وجوب کی شرائط میں سے ایک شرط مقیم ہونابھی ہے ، لہٰذا اگر وہ بارہ ذوالحجہ کی صبح مسافر ہو گیا اور قربانی کے آخری وقت یعنی غروبِ آفتاب تک مسافر شرعی ہی رہا ، تو اب اس پر قربانی واجب نہ ہوگی اور اگر اس شخص نے قربانی کی نیت سے جانور خرید لیا تھا ، تو اسے فروخت کرسکتا ہے ، صدقہ کرنا واجب نہیں ، کیونکہ مسافر شرعی بننے کی صورت میں اس پر قربانی واجب نہ رہی تھی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

          مُجِیْب                                                                                                                                                            مُصَدِّق

عبد الرب شاکر عطّاری مدنی                   مفتی محمد قاسم عطّاری

(4)غنی شخص کا قربانی کے لئے خریدا ہوا جانور مرگیا تو!

سوال : کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک مالدار ، غنی شخص نے قربانی کا جانور خریدا اور وہ قربانی سے پہلے مرگیا ، تو کیا نیا جانور اتنی ہی قیمت کا لینا ضروری ہے یا پھر کم قیمت کا بھی لے سکتا ہے؟ راہنمائی فرمائیں۔ سائل : فیصل عطّاری (صدر کراچی)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اس غنی شخص کوا ختیار ہے کہ جو بھی قربانی کے قابل جانور ہو ، اسے قربان کرسکتا ہے۔ پہلے جانور کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ یا کم قیمت والا لینا ، سب کی اجازت ہے ، کیونکہ جانور مرجانے کی صورت میں دوسرے کم قیمت والے جانور کی قربانی کرنے سے پہلے جانور سے کسی قسم کے منافع حاصل نہیں کیے جارہے اور جب کسی قسم کے منافع حاصل نہیں کئے جارہے ، تو اب کم قیمت والے جانور کی قربانی میں بھی کوئی حرج نہیں ، ہاں قربانی کے لئے خریدنے کے بعد غنی شخص اگر جانور بدلنا چاہے تو حکم یہی ہے کہ اس جانور سے اعلیٰ جانور سے بدلنے کی اجازت ہے ، پہلے جانور کی مثل یا اس سے کم قیمت والے سے بدلنے کی اجازت نہیں ، مگر مر جانے کی صورت میں یہ حکم نہیں ہے ، بلکہ فقہائے کرام مطلقاً فرماتے ہیں کہ دوسرا کوئی جانور قربان کرے اور اپنا واجب ادا کرے ، البتہ بہتر یہ ہے کہ اچھا ، فربہ جانور ذبح کیا جائے۔

یاد رہے کہ یہ مسئلہ غنی کے پہلے جانور کے مر جانے کی صورت میں ہے ، البتہ چوری یا گم ہونے اور ایام قربانی تک اسے دوبارہ مل جانے کی صورت میں مسئلہ جدا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

           مُجِیْب                                                                                                                                                                                            مُصَدِّق

ابو حذیفہ محمد شفیق عطّاری مدنی                                                       مفتی محمد قاسم عطّاری


Share

Articles

Comments


Security Code