سلسلہ: اخلاقیات
موضوع: خودغرضی
(نئی رائٹرز کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ دو مضمون 37ویں تحریری مقابلے سے منتخب کر کے ضروری ترمیم و اضافے کے بعد پیش کیے جا رہے ہیں۔)
ہمشیرہ حنظلہ صابر (اول پوزیشن)
(درجہ:دورۃ الحدیث،فیضانِ اُمِّ عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ)
خود غرضی یعنی صرف اپنے فائدے، آرام اور مفاد کو ترجیح دینا اور دوسروں کے حقوق و احساسات کو نظر انداز کرنا۔یہ ایک اخلاقی بیماری ہے جو انسان کو معاشرتی اور دینی ذمہ داریوں سے غافل کر دیتی ہے۔قرآن و حدیث میں اس رویے کی سخت مذمت کی گئی ہے اور دوسروں کا خیال رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے۔
قرآنِ مجید کی روشنی میں خود غرضی کی مذمت:
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ
(پ28، الحشر: 9)
ترجمہ:اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو۔
یہ آیت ایثار(دوسروں کو ترجیح دینے)کو ایک اعلیٰ صفت قرار دیتی ہے،جو خود غرضی کے برعکس ہے۔اسی طرح خود غرضی کے حامل لوگوں کو قرآن میں منافقین کی صفات والوں میں شمار کیا گیا ہے۔فرمانِ باری ہے:
وَ یَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ۠(۷)
(پ30،الماعون:7)
ترجمہ:اور برتنے کی معمولی چیزیں بھی نہیں دیتے ۔
احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں:
ایک روایت میں ہے کہ جو رحم نہیں کرتا،اس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔([1])یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دوسروں کا خیال نہ رکھنا،خود غرضی کی علامت ہے اور اس پر اللہ کا غضب ہو سکتا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔([2])
خود غرضی کے اسباب:
1دنیا کی محبت:
جب انسان دنیاوی مال و اسباب کو اصل کامیابی سمجھے تو وہ خود غرض ہو جاتا ہے۔
2نفس پرستی:
اپنی ذات کو سب سے اہم سمجھنا۔
3ایمان کی کمزوری:
اللہ اور آخرت پر یقین کمزور ہو تو انسان صرف دنیاوی فائدے کو دیکھتا ہے۔
4تربیت کا فقدان:
یعنی اچھی اخلاقی تربیت نہ ہونا۔
خود غرضی سے بچنے کے طریقے:
1ایمان مضبوط کرنا:
آخرت پر یقین اور اللہ کے سامنے جواب دینے کا احساس پیدا کرنا۔
2ایثار و قربانی کا جذبہ:
دوسروں کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دینا۔
3سیرت النبی کا مطالعہ:
حضور کی زندگی ایثار و اخلاص کا نمونہ تھی۔
4دعائیں اور استغفار:
اللہ پاک سے ہدایت اور دل کی صفائی مانگنا۔
5اجتماعی زندگی کو فروغ دینا:
دوسروں کے ساتھ مل کر رہنے سے خود غرضی کم ہوتی ہے۔
خود غرضی ایسا منفی رویہ ہے جو نہ صرف انسان کو روحانی طور پر کمزور کرتا ہے بلکہ معاشرے کو بھی تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمیں چاہیے کہ ہم ایثار،محبت اور خدمتِ خلق کو اپنی زندگی کا شعار بنائیں تاکہ ایک بہترین معاشرہ قائم ہو سکے۔اللہ کریم ہمیں تمام ظاہری اور باطنی گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بنتِ محمد اشرف عطاریہ
(درجہ:خامسہ، 137 روڈ سمندری فیصل آباد)
خود غرضی ایک ایسی اخلاقی بیماری ہے جو انسانی معاشرے کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ خود غرض انسان صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچتا ہے اور دوسروں کے حقوق کی پروا نہیں کرتا۔اسلام نے خود غرضی کو ایک ناپسندیدہ صفت قرار دیا ہے اور اس کے برعکس ایثار،سخاوت اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے کی تلقین کی ہے۔قرآن و حدیث میں خود غرضی کی شدید مذمت کی گئی ہے اور اس کے برے اثرات سے خبردار کیا گیا ہے۔
خود غرضی کی تعریف:
خود غرضی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات اور مفادات کو دوسروں پر ترجیح دے اور دوسروں کے حقوق کو نظر انداز کرے۔خود غرضی ایک منفی صفت ہے جو معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔
قرآن میں خود غرضی کی مذمت:
اللہ پاک نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر خود غرضی کی مذمت فرمائی ہے اور اسے نا پسندیدہ فعل قرار دیا ہے اور جو خود غرضی نہیں کرتے ان کی تعریف کی گئی جیسا کہ ارشادِ باری ہے:
وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ
(پ 28،الحشر: 9)
ترجمہ:اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو۔
اس آیت میں انصاری صحابہ کی انتہائی مدح کی گئی اور خود غرض لوگوں کے برعکس انہیں کامیاب قرار دیا ہے۔ اسی طرح
اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ(۱) حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ(۲)
(پ 30، التکاثر: 1، 2)
ترجمہ:زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نے تمہیں غافل کر دیا یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا۔
یہاں دنیاوی مفادات کی لالچ اور خود غرضی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جو انسان کو آخرت سے غافل کر دیتی ہے۔
حدیث میں خود غرضی کی مذمت:
اس کے علاوہ حضور نے بھی خود غرضی کو سخت نا پسند فرمایا اور اس سے بچنے کی تلقین فرمائی۔چنانچہ ارشاد فرمایا:مسلمان وہ ہے جو اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔([3]) اس حدیث میں ایثار اور دوسروں کے ساتھ بھلائی کی تعلیم دی گئی ہے جو خود غرضی کی ضد ہے۔
بخل اور خود غرضی ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور حضور نے ایسے لوگوں کی مذمت فرمائی ہے۔چنانچہ نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بدترین ہے وہ بندہ جو بخل اور تکبر کرے۔([4])
خود غرضی کے نقصانات
خود غرضی کے کئی سماجی، اخلاقی اور روحانی نقصانات ہیں:
1-سماجی بگاڑ:
خود غرضی سے معاشرتی توازن بگڑ جاتا ہے، جس سے عدم مساوات اور ناانصافی جنم لیتی ہے۔
2- روحانی نقصان:
خود غرضی انسان کو اللہ پاک کی رحمت سے دور کر دیتی ہے، کیونکہ یہ تقویٰ اور پرہیزگاری کے منافی ہے۔
3-اخلاقی کمزوری:
خود غرض انسان میں احساس ذمہ داری کم ہو جاتا ہے اور وہ دوسروں کے مسائل سے لاتعلق ہو جاتا ہے۔
خود غرضی سے بچنے کے طریقے
1-ایثار اور سخاوت کو اپنانا:
دوسروں کی مدد کرنا اور ان کے حقوق کا احترام کرنا خود غرضی سے بچنے کا بہترین طریقہ ہے۔
2-آخرت کی یاد:
اگر انسان یہ سوچے کہ اسے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے تو وہ خود غرضی سے بچے گا۔
3-سیرتِ مصطفےٰ پر عمل:
حضور کی زندگی ایثار اور قربانی کی بہترین مثال ہے، ہمیں ان کے طریقے پر عمل کرنا چاہیے۔
الغرض خود غرضی ایک مذموم صفت ہے جسے اسلام نے سختی سے ناپسند کیا ہے۔قرآن و حدیث میں اس کی مذمت اور اس کے نقصانات واضح بیان ہوئے ہیں۔ایک حقیقی مسلمان وہی ہے جو ایثار اور سخاوت کو اپناتا ہے اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم خود غرضی سے بچیں اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں تاکہ ایک بہتر اور پرامن معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
[1] بخاری،4/103،حدیث:6013
[2] بخاری، 1/16، حدیث: 13
[3] بخاری، 1/16، حدیث: 13
[4] ترمذی، 4/203، حدیث: 2456

Comments