فضول خرچی سے بچو!
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ: تفسیرِ قرآنِ کریم

موضوع: فضول خرچی سے بچو!

*محترمہ اُمِّ حبیبہ عطاریہ مدنیہ

فرمانِ الٰہی  ہے:

وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱)

(پ8، الانعام:141)

ترجمہ:اور فضول خرچی نہ کرو بیشک وہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

تفسیر

مفسرین نے اِسراف یعنی فضول خرچی کے مختلف معانی  بیان فرمائے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:*اگر(دنیا کا سب سے پہلا پہاڑ)اَبِیْ قُبَیْس سونے کا ہو اور کوئی اسے اللہ  پاک کی اطاعت میں خرچ کر دے تو وہ اِسراف یعنی فضول خرچی کرنے والا نہ ہوگااور ایک درہم بھی اللہ پاک کی نا فرمانی میں خرچ کرے تو فضول خرچی کرنے والا ہوگا۔([1])*اگر  کل مال خرچ کر دیا اور اپنے گھر والوں کے لئے کچھ نہ دیا اور خود فقیر بن بیٹھا تو یہ خرچِ بے جا ہے اور اگر صدقہ دینے ہی سے ہاتھ روک لیا تو یہ بھی بے جا اور اسراف یعنی فضول خرچی ہے۔ *اللہ پاک کی فرمانبرداری کے علاوہ اور کسی کام میں جو مال خرچ کیا جائے وہ تھوڑا بھی ہو تو اسراف ہے۔ *اللہ پاک کے حق میں کوتاہی کرنا اسراف ہے۔([2]) * شرعی حاجت سے زیادہ خرچ کرنا اور *ذلیل غرض میں کثیر مال خرچ کرنا بھی اس میں شامل  ہے۔([3])*نا جائز جگہ خرچ کرنا بے جا خرچ ہے اور سارا مال خیرات کر کے بال بچوں کو فقیر بنا دینا بھی بےجا خرچ ہے، اس لئے اعضائے وضو چار بار دھونا اسراف مانا گیا ہے۔([4])

  حضرت علامہ مولانا مفتی وقار الدین قادری رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اِسراف کے معنیٰ یہ ہیں کہ نا جائز کام میں رقم خرچ کی جائے یا ایسے کام میں رقم خرچ کی جائے جس کا مقصد صحیح نہ ہو، مثلاً:شراب، سینما، گانا وغیرہ نا جائز کاموں میں خرچ کرنا یا اپنے روپے کو دریا میں پھینک دینا یا نوٹوں کو جلا دینا وغیرہ یہ صورتیں اسراف کی ہیں۔اس کا اصول یہ ہے:لَا خَیْرَ فِی الْاِسْرَاف، وَ لَا اِسْرَافَ فِی الْخَیْر یعنی اسراف میں نیکی نہیں ہے اور نیکی میں خرچ کرنا اسراف نہیں ہے۔اگر اسراف کے یہی معنیٰ ہیں کہ مطلقاً ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے تو یہ مکان بنانا سب اسراف ہو گا اس لیے کہ جُھگّی(جھونپڑی)میں بھی رہا جا سکتا ہے، اچھے اور قیمتی کپڑے بنوانا بھی اسراف ہوتا اس لیے کہ ٹاٹ، کھدَّر وغیرہ سے بھی ستْر پوشی ہوسکتی ہے، اچھے کھانوں پر خرچ کرنا بھی اسراف ہو گا،موٹے آٹے کی روٹی کو چٹنی یا سرکہ کے ساتھ کھانے سے بھی پیٹ بھر سکتا ہے، ان سب باتوں میں جب روپیہ صرف کرنا اس لئے اسراف نہیں کہ مقصد صحیح کے لیے صرف کیا جا رہا ہے اگر چِہ ضرورت سے زیادہ ہے۔اسی طرح میلاد کے موقع پر صرف کرنا اسراف نہیں ہے کہ عظمتِ مصطفےٰ کا اظہار کرنا مقصود ہے۔([5])

معلوم ہوا!جائز اور ثواب کے کام میں جس قدر خرچ کیا جائے وہ فضول خرچی نہیں، بلکہ اللہ پاک کی نافرمانی اور فساد پھیلانے کے لئے خرچ کرنا فضول خرچی ہے۔

سخی  مال وہاں خرچ  کرتا ہے جہاں فائدہ اور مصلحت کا تقاضا ہو۔نیز وہ واجبات ادا کرنے کا خیال رکھتا ہے جبکہ فضول  خرچ  بغیر مصلحت کے جائز و ناجائز میں مال اڑاتا ہے۔وہ ایسی چیز خریدتا ہے جس کی اسے ضرورت نہیں۔ وہ کھاتا ہے جس کا فائدہ نہیں اور وہ پہنتا ہے جس کے قابل نہیں۔([6])

حقیقت میں فضول خرچی اللہ پاک کی نا شکری اور نعمت کی نا قدری ہے کیونکہ انسان اپنے مال و اسباب کو ادھر ادھر بے دردی سے اڑا کر نفسِ امارہ کا غلام بن جاتا ہے۔ایک غیر محتاط انسان مختلف طریقوں اور مختلف مواقع پر اس بری عادت کو دہراتا رہتا ہے خاص طور پر کھانے پینے، پہننے اور خوشی منانے کی تقریبات و رسم و  رواج اس میں شامل ہیں۔کھانے پینے میں فضول خرچی سماجی فیشن بن گیا ہے۔اسراف اور فضول خرچی خلافِ شرع ہو تو حرام اور خلافِ مُروّت ہوتو مکروہ ِتنزیہی ہے۔([7])لیکن افسوس!آج کل پانچ افراد کے لئے 25 کا کھانا خریدا جاتا ہے اور بچا ہوا کھانا پھینک دیا جاتا ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا منگنی کی ان میں کثیر پیسہ بہایا جاتا ہے یہاں تک کہ مالی اعتبار سے کمزور لوگ بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہتے اور قرض لے کر یہ رسومات فخریہ ادا کرتے ہیں۔ ہماری شریعت نے تو شادی اور نکاح کے عمل کو بہت آسان بنایا ہے مگر معاشرے میں ان رسومات کو چھوڑنا گویا ایک جرم ہے۔فضول رسومات  کو بڑھاوا دینے میں عورتیں زیادہ پیش پیش ہوتی ہیں اور رسم چاہے کتنی ہی فضول کیوں نہ ہو یہ چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتیں۔ حالانکہ *فضول خرچی جس گھر میں ہو اس گھر سے برکت اٹھالی جاتی ہے۔([8]) *فضول خرچی  دوسروں کا محتاج بناتی اور حرام کاموں پر اکساتی ہے۔چنانچہ مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں:رہی فضول خرچی کی رسمیں ان کو یاتو بند ہی کر دو اگر بند نہ کر سکو تو ان کے لئے ایسی حد مقرر کر دو جس سے فضول خرچی نہ رہے اور گھر کی بربادی نہ ہو۔جنہیں امیر و غریب سب بے تکلف پورا کرسکیں۔([9])

لباس کا اصل مقصد پردے کے مقام کو چھپانا ہے۔اللہ پاک نے انسانوں کو کھانے پینے کے ساتھ ساتھ انہیں پہننے کا سامان بھی عطا فرمایا۔اسلام تو کفایت شعاری کا درس دیتا ہے لیکن اگر ہم اپنے حالات پر غور کریں تو ہماری الماریاں کثیر جوڑوں سے بھری پڑی ہوں گی۔اس کے بر عکس کچھ لوگ وہ بھی ہیں کہ جن کو پہننے کے لئے ڈھنگ کے کپڑے بھی میسر نہیں ہوتے لیکن وہ بھی رہائشی مکان کی تعمیراور نت نئے ڈیزائن پر بے جا پیسہ اڑاتے ہیں۔عموماً پانی مفت میں دستیاب ہوتا ہےاور یہ اللہ پاک کی عظیم نعمت ہے۔لیکن پانی کے بے جا  استعمال کو لوگ فضول نہیں سمجھتے ۔ پانی کے بے جا  استعمال کے سبب جگہ جگہ پانی کے مسائل ہیں، ندیاں اور کنوئیں سوکھ گئے ہیں لیکن ہم محتاط نہیں ہوتیں۔یوں ہی دولت کو بھی فضول اڑایا جا رہا ہے۔ہمارے دین نے ہمیشہ مالداروں کو غریبوں پر خرچ کرنے کی ترغیب دے کر ایثار  و قربانی کے جذبے کو فروغ دیا ہے۔ لہٰذا ہر انسان کو چاہیے کہ وہ غور کرے کہ کہیں وہ اس فضول خرچی کی عادت میں مبتلا تو نہیں!کیونکہ قیامت والے دن سوال ہوگا کہ  مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟([10])

امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: مجھے اسراف سے بچنے کا ایسا جذبہ ہے کہ میں نے اپنی زندگی کا جو سب سے پہلا مذہبی بیان کیا اس کا موضوع ہی اسراف اور فضول خرچی تھا۔ اگرچہ اس وقت دعوتِ اسلامی نہیں بنی تھی، میرا بھی لڑکپن ہی تھا، پھر بھی میں نے اپنے بیان کا یہی موضوع لیا تھا۔ اللہ کریم ہمیں اسراف اور فضول خرچی سے بچائے۔اگر ہم کفایت شعاری سیکھ لیں تو اس کی برکت سے ہمارے کافی مسائل حل ہو جائیں، نہ پانی کی تنگی ہو، نہ اناج کی کمی، نہ مہنگائی ہو، نہ معاشی پریشانیاں اس کے علاوہ بھی کئی چیزوں سے بچت ہو جائے۔ ([11])اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں فضول خرچی سے بچنے اور اپنی راہ میں جائز طریقے سے مال خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر طرح کے اسراف سے بچا کر اپنی پیاری بندیوں میں شامل فرمائے۔

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز فیضانِ اُمِّ عطار گلبہار سیالکوٹ



[1] تفسیر کبیر، 5/165

[2] تفسیر خزائن العرفان، ص 8 27  ملخصاً

[3] تفسیر صراط الجنان، 5/447

[4] تفسیر نور العرفان، ص232

[5] وقارالفتاوی، 1/155

[6] حلیۃ الاولیاء، 4/50، رقم:4709

[7] حدیقہ ندیہ، 2/29، 28

[8] حلیۃ الاولیاء، 3/81، رقم:3252 ملخصاً

[9] اسلامی زندگی، ص52

[10] ترمذی، 4/188، حدیث:2425

[11] سنسنی خیز مَناظر دیکھ کر کیا تصور کرنا چاہیے؟، ص13


Share