پیغامِ بنتِ عطار
63 نیک اعمال
(نیک عمل نمبر 32)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:سب سے پہلے قیامت کے دن بندے سے اس کی نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر وہ کامل ہوئی تو کامل لکھ دی جائے گی اور اگر مکمل نہ ہوئی تو اللہ پاک اپنے فرشتوں سے فرمائے گا: کیا تم میرے بندے کے پاس کوئی نفل پاتے ہو؟ تو وہ اس کے فرائض کو اس کے نوافل کے ذریعے پورا کر دیں گے۔ ([1])(ایک قول کے مطابق)یہاں کمی سے ادا میں کمی مراد نہیں بلکہ طریقۂ ادا میں کمی مراد ہے یعنی اگر کسی نے فرائض ناقص طریقہ سے ادا کئے ہوں گےتو وہ کمی نوافل سے پوری کردی جائے گی۔یہ مطلب نہیں کہ وہ بندہ فرض نماز نہ پڑھے، نفل پڑھتا رہے اور وہاں نفل فرض بن جائیں۔([2])
معلوم ہوا!فرض نمازیں ادا کرنا سعادت کی بات ہے تو پنج وقتہ نمازوں کی سنتِ قبلیہ و بعدیہ اور وتر ونوافل ادا کرنا بھی خوش بختی کی علامت ہے، یہی وجہ ہے کہ امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ نے اس پُرفتن دور میں آسانی سے نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کے طریقوں پر مشتمل شریعت وطریقت کے جامع مجموعے ” 63 نیک اعمال“میں یہ ترغیب دلائی ہے کہ ہم فرض رکعتوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ سنتِ مؤکدہ،سنتِ غیر مؤکدہ اور نوافل بھی ادا کریں۔ چنانچہ اس رسالے میں سوال نمبر 32 ہے:
کیا آج آپ نے عصر یا عشا کی سُنتِ قَبْلِیہ پڑھیں (زہے نصیب! عصر اور عشا دونوں کی سُنتِ قَبْلِیہ اور ظہر ومغرب وعشا کے نوافل بھی ادا کئے جائیں۔)
یاد رہے!سنت کی دو قسمیں ہیں:(1)سُنتِ مؤکدہ اور (2) سُنتِ غیر مؤکدہ۔
سُنتِ مؤکدہ:
وہ ہے جس کو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہمیشہ کیا ہو۔البتہ! بیانِ جواز کے لئے کبھی چھوڑ بھی دیا ہو۔اس کو ادا کرنے میں بڑا ثواب،کبھی اتفاقیہ طور پر چھوڑ دینے سے اللہ پاک ورسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا عتاب اور اس کو چھوڑ دینے کی عادت ڈالنے والے پر جہنم کا عذاب ہوگا جیسے نمازِ فجر کی دو رکعت سنت،نمازِ ظہر کی چار رکعت فرض سے پہلے اور دو رکعت فرض کے بعد سنتیں، نمازِ مغرب کی دو رکعت سنت اور نمازِ عشا کی دو رکعت سنت یہ نمازِ پنج گانہ کی 12رکعت سنتیں سب سُنتِ مؤکدہ ہیں۔([3])
سُنتِ غیرمؤکدہ:
وہ ہے جس کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کیا ہو اور بغیر کسی عذر کے کبھی کبھی اس کو چھوڑ بھی دیا ہو اس کو ادا کرنے والا ثواب پائے گا اور اس کو چھوڑ دینے والا عذاب کا حق دار نہیں جیسے عصر کے پہلے کی چار رکعت سنت اور عشا سے پہلے کی چار رکعت سنت کہ یہ سب سنتِ غیر مؤکدہ ہیں، اس کو سنتِ زائدہ بھی کہتے ہیں۔([4])
مذکورہ سوال کا پہلا حصہ سنتِ غیر مؤکدہ یعنی عصر اور عشا کی سنتِ قَبْلِیہ کی ترغیب پر مشتمل ہے۔
عصر کی سُنتِ قبلیہ:
اس سے مراد عصر سے پہلے کی وہ چار رکعت ہیں جنہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پڑھا کرتے تھے۔ ([5]) احادیثِ مبارکہ میں ان کے بہت فضائل مروی ہیں،چند فضائل ملاحظہ فرمائیے:
* حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک اس بندے پر رحم فرمائے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں۔([6])
* حضرت علی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میری اُمّت ہمیشہ عصر سے پہلے ان چار رکعتوں کو ادا کرتی رہے گی یہاں تک کہ زمین پر یقینی طور پر مغفرت یافتہ ہو کر چلے گی۔([7])
* اُمُّ المومنین حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے اللہ پاک اس کے بدن کو آگ پر حرام فرمادے گا۔([8])
عشا کی سنتِ قبلیہ پڑھنا بھی باعثِ اجر وثواب ہے۔لہٰذا ہمیں عصر و عشا کی سُنتِ قبلیہ نہیں چھوڑنی چاہئیں۔
سنتِ مؤکدہ و غیر مؤکدہ پڑھنے کا طریقہ:
جو سنتِ مؤکدہ چار رکعتی ہے اس کے قعدۂ اولیٰ میں صرف التحیات پڑھے۔اگر بھول کر درود شریف پڑھ لیا تو سجدۂ سہو کرے۔ان سنتوں میں جب تیسری رکعت کے ليے کھڑا ہوا تو سُبْحٰنَکَ اور اَعُوْذُ بھی نہ پڑھے۔ان کے علاوہ اور چار رکعت والے نوافل کے قعدۂ اولیٰ میں بھی درود شریف پڑھے اور تیسری رکعت میں سُبْحٰنَکَ اور اَعُوْذُ بھی پڑھے، بشرطیکہ دو رکعت کے بعد قعدہ کیا ہو ورنہ پہلا سُبْحٰنَکَ اور اَعُوْذُ کافی ہے۔([9])
نیک عمل نمبر 32 کا دوسرا حصہ ظہر،مغرب،عشا کے نوافل پڑھنے کی ترغیب پر مشتمل ہے،لہٰذا اس کے متعلق عرض ہے:
نفل عبادت سے مراد:
نفل کا لغوی معنی زائد ہونا ہے اور اصطلاح میں وہ عبادت ہے جو فرائض و واجبات پر زائد ہو اس کے کرنے پر ثواب ملتا ہے اور چھوڑنے پر عذاب نہیں۔([10]) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ عبادت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اصطلاح میں نفلی عبادت کو تَطَوُّع کہا جاتا ہے، یعنی جس عبادت کا شریعت نے مُکَلَّف نہ کیا ہو،بندہ اپنی خوشی سے کرے۔([11])
ظہر کے آخری دو نفل:
ظہر کے آخری دو نفل استقامت کے ساتھ پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیے،کیونکہ ظہر کے بعد چار رکعت پڑھنا مستحب ہے۔جیسا کہ ایک حدیث ِپاک میں ہے: جس نے ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار رکعت پابندی سے ادا کیں تو اللہ پاک اسے آگ پر حرام فرما دے گا۔([12])
علامہ شامی رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:سرے سے آگ میں داخل ہی نہ ہو گا اور اس کے گناہ مٹا دئیے جائیں گے اور اس پر (بندوں کی حق تلفیوں کے)جو مطالبات ہیں اللہ پاک اس کے فریق کو راضی کر دے گا یا یہ مطلب ہے کہ ایسے کاموں کی توفیق دے گا جن پر سزا نہ ہو یا یہ خوشخبری ہے اس چیز کی کہ سعادت پر اس کا خاتمہ ہوگا اور وہ دوزخ میں نہ جائے گا۔([13])
اسی طرح مغرب اور عشا کے نوافل کی بھی بہت اہمیت ہے ہمیں ان فضیلتوں کو پانے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔
سُنتِ قبلیہ و بعدیہ پر استقامت پانے کے لئے 63 نیک اعمال نامی رسالہ اپنے یہاں کے مکتبۃ المدینہ کے بستے سے ہدیۃً حاصل کر کے روزانہ فل کیجئے اور ہر اسلامی ماہ کی پہلی تاریخ کو اپنے یہاں کی ذمہ دار کو جمع کروانے کا معمول بنالیجئے ان شاء اللہ نیک اعمال کرنے کی جستجو پیدا ہوگی اور گناہوں سے چھٹکارا نصیب ہوگا۔
پڑھوں سنتِ قبلیہ وقت ہی پر ہوں سارے نوافل ادا یاالٰہی
[1] ابوداود،1/329،حدیث:8642مراٰۃ المناجیح،2/3073جنتی زیور،ص 2104جنتی زیور،ص2105ترمذی،1/437،حدیث:4296ابو داود،2/ 35،حدیث:12717معجم اوسط،4/38،حدیث:51318معجم کبیر،23/ 281، حدیث:6119بہار شریعت،2/667،حصہ:40تلخیص اصول الشاشی، ص 107 ملتقطاً A مراۃ المناجیح، 2/300 B ترمذی، 1/ 436، حديث:428 C رد المحتار، 2 / 547
[2] مراٰۃ المناجیح ، 2 / 307
[3] جنتی زیور، ص210
[4] جنتی زیور، ص210
[5] ترمذی، 1/437، حدیث:429
[6] ابوداود، 2/35، حدیث:1271
[7] معجم اوسط، 4/38، حدیث:5131
[8] معجم کبیر، 23/281، حدیث:611
[9]بہار شریعت،2/667،حصہ:4
[10] تلخیص اصول الشاشی، ص107ملتقطاً
[11] مراۃ المناجیح، 2/300
[12] ترمذی، 1/ 436، حديث:428
[13] رد المحتار، 2/547
Comments