پیغامِ بنتِ عطار
63 نیک اعمال
نیک عمل نمبر 30
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”فرصت کو مصروفیت سے پہلے غنیمت جانو“، کے تحت ہو سکے تو فارغ بیٹھ کر وقت گزارنے کے بجائے ذکر و درود اور نوافل وغیرہ میں گزارئیے کہ پھر مرنے کے بعد یہ حسرت رہے گی کہ کاش!ایک آدھ بار لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللہ، ایک بار سُبْحٰنَ اللہ یا ایک بار اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ہی کہنے کا موقع مل جائے، مگر آہ!اس وقت اجازت نہ ملے گی۔چنانچہ،
اَمِیْرِ اَہْلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ نے خواتین کو 63 نیک اعمال کی صورت میں نیکیاں کرنے کا فارمولہ عطا فرمایا ہے، اس پر ہم سب کو ان کا احسان مند ہونا چاہئے کہ انہوں نے ہمیں پچھتا نے کے اوقات سے پہلے نیک بننے کا عظیمُ الشان تحفہ عنایت فرمایا ہے جو ہماری اصلاح کر کے ہمیں جنت کے اعلیٰ مقام تک پہنچا سکتا ہے۔اگر ہم صحیح معنیٰ میں 63 نیک اعمال کے رسالے کے مطابق عمل کرنے والیاں بن جائیں تو ان شاء اللہ نہ صرف ہماری دنیا و آخرت سنور جائے گی بلکہ ہم تہجد گزار بھی بن جائیں گی۔کیونکہ اس رسالے میں دیگر نیک اعمال کے ساتھ ساتھ نمازِ تہجد اور صلوۃ اللیل جیسی عظیم الشان نفلی نمازوں کی ترغیب بھی دلائی گئی ہے۔چنانچہ
سوال نمبر30 میں ہے:کیا آج آپ نے تہجد کی نماز پڑھی؟یا رات نہ سونے کی صورت میں صلوۃ اللیل ادا کی ؟
نفل کے لغوی معنی زائد ہونا ہے اور اصطلاح میں وہ عبادت ہے جو فرائض و واجبات پر زائد ہو۔اس کے کرنے پر ثواب ملتا ہے اور چھوڑنے پر عذاب نہیں ہوتا۔([1]) اور ايک رات میں بعد نمازِ عشا جو نوافل پڑھے جائیں ان کو صلوۃ اللیل کہتے ہیں۔([2]) ان نوافل کی ترغیب حدیث پاک میں یوں دلائی گئی ہے: رات میں کچھ نماز ضروری ہے اگرچہ اتنی ہی دیر جتنی دیر میں اونٹنی یا بکری کا دودھ دوہ لیتے ہیں اور عشا کے بعد جو نماز پڑھی جائے وہ صلوۃ اللیل ہے۔([3])
تہجد بھی صلوۃ اللیل کی ایک قسم ہے کہ عشا کے بعد رات میں سو کر اُٹھیں اور نوافل پڑھیں،سونے سے قبل جو کچھ پڑھیں وہ تہجد نہیں۔([4]) نمازِ تہجد سیدِ عالَم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر فرض تھی،جمہور کا یہی قول ہے، البتہ! حضور کی اُمّت کے لئے یہ نماز سنت ہے۔([5])نمازِ تہجُّد کے لئے نیند شرط ہے اگرچہ نیند کا ایک جھونکا ہی ہو۔([6])تہجد کی کم از کم دو رکعتیں ہیں اور حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے آٹھ تک ثابت۔([7])
احادیثِ مبارکہ میں تہجد کی نماز کے کئی فضائل موجود ہیں۔مثلاً ایک روایت میں ہے: آدھی رات میں بندے کا دو رکعتیں نماز پڑھنا دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔اگر میری امت پر دشوار نہ ہوتا تو میں یہ دو رکعتیں ان پر فرض کر دیتا۔([8])الحمد للہ نمازِ تہجد کی ادائیگی ایسا پیارا عمل ہے کہ جو مغفرت اور بے حساب داخلِ جنت کا ذریعہ ہے۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہِ علیہ کو کسی نے بعدِ وفات خواب میں دیکھ کر پوچھا: مَافَعَلَ اللّٰہُ بِکَ؟یعنی اللہ پاک نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟فرمانے لگے: میری عبادتیں اور ریاضتیں تو کام نہ آئیں،البتہ رات کو اٹھ کر جو دو رکعت تَہَجُّد پڑ ھ لیا کرتا تھا اُسی کے سبب مغفرت ہو گئی۔([9])
ارشادِ باری ہے:
تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا٘-وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(۱۶)
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۷) (پ21،السجدۃ:17،16)
ترجمہ:ان کی کروٹیں ان کی خوابگاہوں سے جدا رہتی ہیں اور وہ ڈرتے اور امید کرتے اپنے رب کو پکارتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے میں سے خیرات کرتے ہیں تو کسی جان کو معلوم نہیں وہ آنکھوں کی ٹھنڈک جو ان کے لئے ان کے اعمال کے بدلے میں چھپا رکھی ہے۔
یہ آیتِ مبارکہ اگرچہ صحابہ کرام کی شان میں نازل ہوئی مگر حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مقدس بیویاں اور صحابیات طیبات رضی اللہُ عنہ ن نیز اللہ پاک کی مقبول بندیاں بھی نفل نمازوں کا بہت اہتمام کیا کرتی تھیں جیسا کہ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہ ا کے متعلق مروی ہے کہ آپ روزانہ بلا ناغہ نمازِ تہجد پڑھنے کی پابند تھیں۔([10])حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہِ علیہ مدارج النبوت میں حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہُ عنہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ رضی اللہُ عنہ ا کو اس حالت میں بھی دیکھا کہ آپ مسجدِ بیت کے محراب میں ساری رات نماز پڑھتی رہتیں یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی۔([11])
ایک روایت میں ہے کہ سیدہ خاتون جنت رضی اللہُ عنہ ا اور امیر المومنین حضرت علی رضی اللہُ عنہ نے شادی کے پہلے تین دن اور رات اس حالت میں بسر کئے کہ دن کے وقت روزہ رکھتے اور رات عبادت میں گزارتے یہاں تک کہ چوتھے دن حضرت جبرائیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمتِ با برکت میں حاضر ہو کر عرض کی:اللہ پاک آپ کو سلام بھیجتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ علی اور فاطمہ نے تین دن سے نیند اور بستر کو چھوڑ رکھا ہے،عبادت اور روزوں میں مصروف ہیں۔ان سے ارشاد فرمایئے کہ اللہ پاک تمہاری وجہ سے مقرب فرشتوں پر فخر فرما رہا ہے اور یہ کہ تم دونوں بروزِ قیامت گناہ گاروں کی شفاعت کرو گے۔([12])
نمازِ تہجد کے طبی فوائد:
مکتبۃ المدینہ کی کتاب 12 دینی کام صفحہ 476 پر لکھا ہے کہ تہجد کی نماز پڑھنے سے بڑھاپا دیر سے آتا ہے اور چہرہ نورانی ہو جاتا ہے۔([13]) مگر نمازِ تہجد اس نیت سے نہ پڑھی جائے کہ چہرہ نورانی ہو جائے بلکہ اللہ پاک کى رضا پانے اور ثواب کمانے کی نیت سے پڑھى جائے،ضمناً چہرے پر نورانیت بھى ان شاء اللہ آ ہی جائے گى۔([14])
معلوم ہوا کہ صلوۃ اللیل اور تہجد کی نماز افضل عبادت ہے اور اس کے کئی دینی و دنیاوی فضائل و فوائد ہیں۔لہٰذا ہمیں بھی فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ صلوۃ اللیل اور نمازِ تہجد کی عادت اپنانی چاہیے۔امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ خود بھی نوافل کی کثرت فرماتے ہیں اور اپنے متعلقین اور مریدین کو بھی اس کی ترغیب دلاتے ہیں،جیسا کہ نیک عمل نمبر 30 کی ترغیب سے ظاہر ہے۔لہٰذا آپ بھی فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ نوافل و مستحبات کی ادائیگی کا جذبہ پانے کے لئے نیک اعمال کے رسالے کو پر کرنے کی عادت بنا لیجئے اور ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو اپنے علاقے میں ہونے والے اسلامی بہنوں کے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کر کے وہاں ذمہ دار کو جمع کروانے کا معمول بنا لیجئے کیونکہ اس کا ہر ہر سوال گویا موتیوں کی لڑی ہے اور اس کی عاملہ بن کر ان شاء اللہ ہم نہ صرف اللہ و رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قرب کو پانے میں کامیاب ہوں گی بلکہ عشقِ نبی کے جلووں سے بھی ضرور سرفراز ہوں گی۔
[1] تلخیص اصول الشاشی ، ص108،107 ملتقطاً
[2] بہار شریعت،2/ 677،حصہ:4
[3] معجم کبير، 1/271،حدیث:787
[4] رد المحتار،2/566
[5] تفسیر خزائن العرفان، ص 541
[6] جنت میں مردوں کو حوریں ملیں گی تو عورتوں کو کیا ملے گا؟ص29
[7] بہار شریعت،2/678،حصہ:4
[8] کنز العمال،4/323، الجزء السابع ،حدیث:21401
[9] کیمیائے سعادت،2/1008،1007
[10] سیرتِ مصطفی ،ص660
[11] مدارج النبوت،2/461
[12] الروض الفائق،ص278 ملخصاً
[13] 12 دینی کام،ص 476
[14] چہرہ خوبصورت بنانے کا عمل،ص1
Comments