63 نیک اعمال(نیک عمل نمبر 35)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن


63 نیک اعمال

(نیک عمل نمبر 35)

زبان کی آفات بہت زیادہ ہیں اور اپنے آپ کو اس سے محفوظ رکھنا بہت دشوار ہے۔زبان کی ایک آفت جھوٹ بولنا بھی ہے۔ہمیں جھوٹ کے گناہ سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کہ جھوٹ بولنا حرام ہے۔جیسا کہ حضرت اوسط بن اسماعیل  رحمۃ  اللہ  علیہ  بیان کرتے ہیں کہ میں نے امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق  رضی  اللہ  عنہ  کو نبی پاک  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم  کے وصالِ ظاہری کے بعد خطبہ دیتے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ پچھلے سال رسولِ پاک  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم  اسی جگہ قیام فرما تھے جس جگہ میں کھڑا ہوں؛اتنا کہہ کر آپ رونے لگے،پھر ارشاد فرمایا:جھوٹ سے بچو!کیونکہ جھوٹ گناہ کے ساتھ ہے اور یہ دونوں جہنم میں لے جاتے ہیں۔([1])

جھوٹ تمام مذاہب میں حرام ہے۔یہ دل میں اثر کرتا، دل کی شکل کو ٹیڑھا کر دیتا اور اسے سیاہ بنا دیتا ہے۔حضرت ابو سعید خدری  رضی  اللہ  عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسولِ پاک  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم  ان کلمات کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے:اے  اللہ ! میرا دل نفاق سے،میری شرم گاہ بدکاری سے اور میری زبان جھوٹ سے پاک رکھ۔([2]) امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ نے 63 نیک اعمال کے رسالے میں اخلاق کو سنوارنے کے لئے جو سوالات عطا فرمائے ہیں ان میں سے ایک سوال جھوٹ اور غیبت و چغلی سے متعلق بھی ہے۔چنانچہ

سوال نمبر 35 میں ہے:کیا آج آپ جھوٹ بولنے، غیبت و چغلی کرنے/سننے سے بچیں ؟

امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ  کے عطا کردہ اس سوال میں ہماری دنیاوی و اخروی زندگی کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے کیونکہ اس میں بیان کردہ تینوں گناہ ایسے ہیں جن سے بچنا عام طور پر بہت مشکل ہے۔چنانچہ ان گناہوں سے بچنے کے اسباب اور علاج وغیرہ کے متعلق  مختصر تفصیل پیشِ خدمت ہے:

جھوٹ

جھوٹ کے معنی ہیں:سچ کا الٹ۔([3]) کوئی چیز خریدتے وقت اس طرح کہنا کہ یہی چیز مجھے فلاں سے اس سے کم قیمت میں مل رہی ہے حالانکہ واقع میں ایسا نہیں ہوتا۔اسی طرح جعلی، ناقص یا جن دواؤں سے شفا کا گمان غالب نہیں، ان کے متعلق اس طرح کہنا کہ سو  فیصد شرطیہ علاج  ہے، تو یہ جھوٹ ہے۔ارشادِ الٰہی ہے:

وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(۱۰)(پ1، البقرۃ:10)

ترجمہ:اور ان کے لئے ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے درد ناک عذاب ہے۔اس آیت سےثابت ہوا کہ جھوٹ حرام ہے اس پر عذابِ الیم(درد ناک عذاب)مُرَتَّب ہوتا ہے۔([4])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

فرمانِ مصطفےٰ  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم :جھوٹ سے بچو!کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوششیں کرتا ہے یہاں تک کہ  اللہ  پاک کے نزدیک کذَّاب یعنی بڑا جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔([5])

البتہ!تین صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے یعنی اس میں گناہ نہیں:1جنگ کی صورت میں کہ یہاں اپنے مقابل کو دھوکا دینا جائز ہے،اسی طرح جب ظالم ظلم کرنا چاہتا ہو اس کے ظلم سے بچنے کے لئے بھی جائز ہے۔2 دو مسلمانوں میں اختلاف ہے اور یہ ان میں صلح کروانا چاہتی ہے،مثلاً:ایک کے سامنے یہ کہہ دے کہ وہ تمہیں اچھا جانتی ہے،تمہاری تعریف کرتی تھی یا اس نے تمہیں سلام کہلا بھیجا ہے اور دوسری کے پاس بھی اسی قسم کی باتیں کرے تا کہ دونوں میں عداوت کم ہو جائے اور صلح ہو جائے۔ ([6])

غیبت

اسلام ایک ایسا دین ہے جس کی نظر میں انسان کی عزت و حُرمت کی قدر بہت زیادہ ہے۔اگر مسلمان ہو تو اس کی قدر اور بڑھ جاتی ہے۔اسی لئے اسلام نے ان تمام کاموں سے بچنے کا حکم دیا ہے جن سے کسی انسان کی عزت پامال ہوتی ہو ان کاموں میں سے ایک کام غیبت کرنا بھی ہے یعنی کسی کے بارے میں اس کی غیر موجودگی میں ایسی بات کہنا کہ اگر وہ سن لے یا اس کو پہنچ جائے تو اسے ناگوار معلوم ہو۔([7])

غیبت گناہِ کبیرہ،حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے اور  غیبت کو حلال جاننے والی دائرۂ اسلام سے باہر ہے۔

افسوس!مسلمانوں کی بھاری اکثریت اس وقت غیبت کی خوفناک آفت کی لپیٹ میں ہے۔آج کل کوئی بیٹھک عموماً غیبت سے خالی نہیں ہوتی حالانکہ غیبت کرنے والی پرہیزگار نہیں بلکہ فاسقہ و گنہگار اور عذابِ نار  کی حق دار ہے۔

غیبت کی تباہ کاریاں:غیبت برے خاتمے کا سبب ہے*غیبت سے نماز، روزوں کی نورانیت چلی جاتی ہے*غیبت کو اگر سمندر میں ڈال دیا جائے تو سارا سمندر بدبو دار ہو جائے گا* غیبت کرنے والی قیامت کے دن کتے کی شکل میں اٹھے گی۔

الغرض غیبت بہت بڑا گناہ ہے۔لہٰذا ہمیں اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔

چغلی

لوگوں میں فساد کروانے کے لئے ان کی باتیں ایک دوسرے تک پہنچانا چغلی ہے۔([8]) اس سے بھی بچنا لازم ہے کیونکہ چغلی حرام([9])اور کبیرہ گناہ ہے ([10])جس کے پاس کسی کی چغلی کی گئی اس پر لازم ہے کہ چغل خور کی تصدیق نہ کرے اور(اگر قدرت رکھتی ہے تو)اسے چغلی کرنے سے روک دے، نیز جس کی چغلی کی گئی اس کے بارے میں بد گمانی میں نہ پڑے۔ ([11])

فرمانِ مصطفےٰ  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم :طعنہ دینے، غیبت و چغل خوری کرنے اور بے گناہ لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو  اللہ  پاک قیامت کے دن کتوں کی شکلوں میں اٹھائے گا۔([12]) بلکہ ایک روایت کے مطابق چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔([13])مامون الرشید کا کہنا ہے:چغل خوری دوستی کے قریب جائے تو اسے ختم کر دیتی ہے،دشمنی کے پاس جائے تو اسے نیا کر دیتی ہے،جماعت کے قریب جائے تو اسے منتشر کر دیتی ہے۔جو چغل خوری کے حوالے سے مشہور ہو اس سے بچنا، دور رہنا اور اس پر بھروسا نہ کرنا ضروری ہے۔ ([14])

جھوٹ،غیبت،چغلی یہ سب گناہ تباہی کی طرف لے جانے والے ہیں۔لہٰذا ہمیں ان گناہوں سے بچ کر فکر ِآخرت کرنی چاہئے اور ان سے بچنے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہو جائیے اور نیک اعمال کے رسالے پر عمل کیجئے ان شاء  اللہ  دونوں جہاں کی بھلائیاں حاصل ہوں گی اور اچھے ماحول سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ ظاہر و باطن کی اصلاح بھی ہوتی رہے گی۔علامہ جلال الدین رومی  رحمۃ  اللہ  علیہ  فرماتے ہیں:

صحبتِ صالح تُرا صالح کند         صحبتِ طالح ترا طالح کند

یعنی اچھوں کی صحبت تجھے اچھا اور بروں کی صحبت تجھے برا بنا دے گی۔




[1] ابن ماجہ،4/273،حدیث:3849ملتقطاً

[2] مساوی الاخلاق، ص77، حدیث:134

[3] جھوٹا چور، ص 21

[4] تفسیر خزائن العرفان، ص7

[5] مسلم، ص1078، حديث:6639

[6] بہارِ شریعت، 3/517، حصہ:16

[7] غیبت کی تباہ کاریاں، ص438

[8] شرح نووی، جزء:2، ص112

[9] طریقہ محمدیہ مع حدیقہ ندیہ، 4/64

[10] ظاہری گناہوں کی معلومات، ص53

[11] احیاء العلوم، 3/ 193ملتقطاً

[12] ترغیب و ترہیب، 3/ 325،حدیث:10

[13] بخاری، 4/115، حدیث:6056

[14] مستطرف، 1/ 152


Share