موضوع:حرص و لالچ
وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ28،الحشر:9)
ترجمہ:اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچالیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
تفسیر
معلوم ہوا!جن حضرات کے نفس کو لالچ سے پاک کر دیا گیا وہ حقیقی طور پر کامیاب ہیں اوریہ بھی معلوم ہوا کہ نفس کے لالچ جیسی بری عادت سے بچنا بہت مشکل ہے اور جس پر اللہ پاک کی خاص رحمت ہو تو وہی اس عادت سے بچ سکتا ہے۔([1])
لالچ کسے کہتے ہیں؟کسی چیز میں حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔([2])
لالچ انتہائی نقصان دہ ہے،جیسا کہ ایک روایت میں ہے: نفس کے لالچ سے بچو کیونکہ نفس کے لالچ نے تم سے پہلی امتوں کو ہلاک کر دیا کہ اسی نے انہیں ناحق قتل اور حرام کاموں کو حلال کرنے پر ابھارا۔([3])اور ایک روایت میں ہے: اگر ابن ِآدم کے پاس سونے کی ایک وادی بھی ہو تب بھی وہ ایک اور وادی کی خواہش کرے گا اور ابنِ آدم کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔([4])
ایک روایت میں ہے: اللہ پاک کی راہ کا غبار اور جہنم کا دھواں کسی کے پیٹ میں جمع ہو ہی نہیں سکتے۔اسی طرح لالچ اور ایمان بھی کبھی کسی کے دل میں جمع نہیں ہو سکتے، ([5]) یعنی راہِ خدا کی گَرد جس پر پڑی وہ جہنم سے آزاد ہو گیا اور جس کے دل میں کنجوسی نے گھر کر لیا اس کے دل میں ایمان کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ حضرت عبدُ اللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے عرض کی:مجھے اپنی ہلاکت کا ڈر ہے۔آپ نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے یہ آیت پڑھی: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ28،الحشر:9) اور میں تو بہت لالچی آدمی ہوں،کیونکہ میرے ہاتھوں سے کوئی چیز نہیں نکلتی۔ آپ نے فرمایا:یہ وہ لالچ نہیں جس کا ذکر اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں فرمایا ہے، بلکہ لالچ یہ ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی کا مال ظلم سے کھا جاؤ۔البتہ!یہ بخل یعنی کنجوسی ہے اور کنجوسی بھی بہت بری ہے۔([6])حضرت ابو الہیاج اسدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں نے بیتُ اللہ کا طواف کرتے ہوئے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ صرف انہی الفاظ کے ساتھ دعا کئے جا رہا ہے:اَللّٰهُمَّ قِنِي شُحَّ نَفْسِی الٰہی!مجھے میرے نفس کے لالچ سے بچا۔میں نے اس سے پوچھا:تم صرف یہی دعا کیوں مانگ رہے ہو؟اس نے کہا:جب مجھے نفس کے لالچ سے بچا لیا گیا تو نہ میں چوری کروں گا، نہ بدکاری کروں گا اور نہ کوئی برا کام۔ اب جو میں نے دیکھا تو وہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے۔([7])
عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ حرص کا تعلق صرف مال و دولت کے ساتھ ہوتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ حرص تو کسی چیز کی مزید خواہش کرنے کا نام ہے اور وہ چیز کچھ بھی ہو سکتی ہے، چاہے مال ہو یا کچھ اور!چنانچہ مزید مال کی خواہش رکھنے والی کو مال کی حریص کہا جائے گا تو مزید کھانے کی خواہش رکھنے والی کو کھانے کی حریص کہا جائے گا۔نیکیوں میں اضافے کی تمنائی کو نیکیوں کی حریص جبکہ گناہوں کا بوجھ بڑھانے والی کو گناہوں کی حریص کہا جائے گا۔چنانچہ
حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:لالچ اور حرص کا جذبہ خوراک،لباس،مکان،سامان،دولت، عزت، شہرت غرض ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے۔([8])
یاد رکھئے!لالچ بری بلا ہے، لالچ انسان کو اندھا کر دیتا ہے، لالچ عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے، لالچ کی نحوست کے سبب دل سے خوفِ خدا نکل جاتا ہے،لالچ کی وجہ سے انسان اپنوں کا دُشمن بن جاتا ہے،لالچ کے سبب بندہ لوگوں کے احسانات کو بھلا دیتا ہے،لالچ غیبت و چغلی کرنے،دل دکھانے اور بلا وجہ الزام لگانے پر ابھارتا ہے،لالچ فتنوں کو جگاتا ہے،لالچ اچھے بُرے کی تمیز بھلا دیتا ہے،لالچ انسان کو ظلم پر ابھارتا ہے، لالچ بڑوں کے ادب سے محروم کروا دیتا ہے،لالچ بھلائی اور خیر خواہی کا جذبہ ختم کر دیتا ہے،لالچ انسان کو مطلب پرستی سکھاتا ہے، لالچ انسان کے دل سے ہمدردی کا جذبہ نکال دیتا ہے، لالچ دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا سبب بنتا ہے، لالچ بے سکونی میں مبتلا کر دیتا ہے، لالچ اکیلا کر دیتا ہے، لالچ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا اور لالچ کا انجام انتہائی بھیانک ہوتا ہے۔لالچ ایک ایسا مرض ہے کہ اس کی وجہ سے روحانیت ختم ہو جاتی ہے۔لالچ اخلاقی زوال کا سبب ہے۔لالچی انسان ہر پل دکھ و بے چینی میں ڈوبا ہوا رہتا ہے۔لالچ اللہ پاک سے دوری کا سبب ہے۔چنانچہ اپنا جائزہ لیں کہ کہیں ہم بھی تو اس مرض میں مبتلا نہیں! حرص و لالچ وہ چیز ہے کہ مرد ہو یا عورت بوڑھا ہو یا جوان غریب ہو یا امیر عالم ہو یا جاہل الغرض کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکتا۔ چنانچہ
تفسیرِ خازن میں سورۂ حشر کی مذکورہ آیت کے تحت ہے: لالچ دل کا لازمی حصہ ہے کیونکہ یہ اسی طرح بنایا گیا ہے([9]) یعنی لالچ دل سے جڑا ہوا ہے،یہ ایک الگ بات کہ کسی کو ثوابِ آخرت اور نیکیوں کا لالچ ہوتا ہے،تو کسی کو مال و دولت اور عزت و شہرت کا۔
حرص کا حکم:حرص کا تعلق جن کاموں سے ہوتا ہے ان میں سے کچھ کام باعثِ ثواب ہوتے ہیں اور کچھ باعثِ عذاب جبکہ کچھ کام صرف جائز ہوتے ہیں یعنی ایسے کاموں کے کرنے پر کوئی ثواب ملتا ہے اور نہ ہی چھوڑنے پر کوئی عتاب ہوتا ہے لیکن یہی جائز کام اگر کوئی اچھی نیت سے کرے تو وہ ثواب کی حق دار اور اگر بُرے ارادے سے کرے تو عذابِ نار کی حق دار ہو جاتی ہے،یوں بنیادی طور پر حرص کی تین قسمیں بنتی ہیں: حرصِ محمود (اچھی حرص)،حرصِ مذموم(بُری حرص)اور حرصِ مباح(جائز حرص)، لیکن اگر اس حرص میں اچھی نیت ہو گی تو یہ حرصِ محمود بن جائے گی اور اگر بری نیت ہو گی تو بری ہو جائے گی۔([10])
ہمارے بزرگانِ دین نیکیوں کے حریص ہوتے اور نیکی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ لہٰذا اپنا جائزہ لیجئے اور اگر لالچ دل میں آ جائے تو اسے نکال دیجئے اور دل کو نیکیوں کا حریص بنائیے۔ لالچ ہر صورت میں برا نہیں ہے بلکہ نیکیوں میں لالچ کرنا بلندیِ درجات کا ذریعہ ہے۔لالچ نے ہر ایک کو اپنا شیدائی بنا رکھا ہے۔ لوگ پیسے دے کر بازاری چیزوں اور کھانوں کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی بیماریاں بھی خریدنے میں مصروف ہیں، ہر طرف کھانے پینے کی چیزوں کی خریداری کی دھوم دھام ہے، فوڈ کلچر کا دور دورہ ہے، ایک ایک محلے میں کئی کئی ہوٹلز، ریسٹورنٹس اور فاسٹ فوڈز کی شاپس موجود ہیں، کوئی کباب سموسے اور رول کی حریص ہے تو کوئی حلوہ پوری، فش فرائی، چپس،دہی بھلے اور آلو چھولے کی، کوئی بریانی، پلاؤ،نہاری، پائے،سجی کی شیدائی ہے تو کوئی برگر،پزے وپراٹھے،بروسٹ،چکن تکوں اور باربی کیو کی دلدادہ ہے۔ لوگ صرف نفس کی لذت کی خاطر کھانے پینے کی حرص میں ان کھانوں پر مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہے ہوتے ہیں، جو ہاتھ میں آیا پھانک رہے ہیں، جو ملا ہڑپ کر رہے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں بری حرص و لالچ سے بچاکر نیکیوں کی حریص بنا دے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز فیضانِ اُمِّ عطار
گلبہار سیالکوٹ
[1] تفسیر صراط الجنان، 10/75
[2] باطنی بیماریوں کی معلومات، ص190
[3] مسلم، ص1069، حدیث:6576
[4] مسلم، ص404، حدیث:2417
[5] نسائی، ص505، حدیث:3107
[6] تفسیر خازن، 4/249
[7] تفسیر طبری، 12/42، رقم:33882
[8] جنتی زیور، ص111
[9] تفسیر خازن، 1/437
[10] حرص، ص13

Comments