موضوع: بدکاری سے بچو!
اللہ پاک کا فرمان ہے:
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲)
(پ15،بنی اسرآءیل:32)
ترجمہ:اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
تفسیر
اللہ پاک کے اس فرمان: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى کے دو معنی مراد ہو سکتے ہیں:(1)بدکاری نہ کرو کیونکہ وہ بے حیائی ہے۔ (2)ان اسباب کے قریب نہ جاؤ جو بدکاری تک لے جائیں۔ ([1]) یعنی بدکاری کی طرف لے جانے والے اُمور مثلاً چھونے،بوسہ لینے اور ان جیسے دیگر کاموں سے بچو۔([2]) تفسیر روح البیان میں عشقیہ اشارے کرنے اور شہوت سے دیکھنے کو بھی ان کاموں میں شمار کیا گیا ہے۔([3])
حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بد نظری،غیر عورت سے خلوت(تنہائی)،عورت کی بے پردگی وغیرہ سب ہی حرام ہیں۔بخار روکنے کے لئے نزلہ روكو۔ طاعون سے بچنے کے لئے چوہوں کو ہلاک کرو،پردہ کی فرضیت، گانے بجانے کی حرمت،نگاه نیچی رکھنے کا حکم یہ سب زنا (بدکاری)سے روکنے کے لئے ہے۔([4])اسی طرح برے لوگوں کی صحبت، علمِ دین سے دوری،نفسانی خواہشات کی حرص،بے حیائی اور بے پردگی کی نحوست کی وجہ سے بھی ایسے کام ہوتے ہیں۔اس آیت میں زنا(بدکاری) کے گناہ کی حُرمت و خباثت کو بیان کیا گیا ہے۔اسلام بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں زنا(بدکاری) کو بد ترین گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے۔یہ پرلے درجے کی بے حیائی اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے۔([5]) بدکاری کو برا راستہ اس لئے بھی کہا گیا ہے کہ بدکاری کسی دوسرے کی عورت،بہن،بیٹی پر بغیر سبب اختیار کئے ناحق قبضہ کرنا ہے۔سبب سے مراد نکاح ہے جسے اللہ پاک نے شرعاً جائز قرار دیا ہے۔([6])
احادیث کی روشنی میں بدکاری کی مذمت
کئی احادیث میں بدکاری کی مذمت منقول ہے۔چند روایات پیشِ خدمت ہیں:
(1)بدکاری کرنے والا جتنی دیر تک بدکاری کرتا ہے اس وقت تک وہ مومن نہیں رہتا۔([7]) یعنی بد کاری کرتے وقت ایمان کا نور اس سے جدا ہو جاتا ہے۔پھر اگر وہ اس کے بعد توبہ کر لیتا ہے تو اس کا نورِ ایمان پھر اس کو مل جاتا ہے۔ورنہ نہیں۔
(2) جس قوم میں بدکاری عام ہو گی وہ قحط میں گرفتار ہوگی ۔([8])
(3) جس بستی میں بدکاری اور سود ظاہر ہو جائے تو انہوں نے اپنے لئے اللہ پاک کے عذاب کو حلال کر لیا ہے۔([9])
(4) اللہ پاک قیامت کے دن تین شخصوں سے کلام فرمائے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ان کی طرف نظرِ رحمت فرمائے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہو گا۔ان میں سے ایک بدکاری کرنے والا بوڑھا شخص بھی ہے۔([10])
(5) میری اُمّت اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں بدکاری سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو جائیں گے اور جب ان میں بدکاری سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللہ پاک انہیں عذاب میں مبتلا فرما دے گا۔([11])
بدکاری کی شرعی سزا:زنا(بدکاری)قتل سے بدتر جرم ہے کیونکہ قتل کی سزا قتل ہے مگر زنا(بدکاری)کی سزا سنگسار کرنا ہے کیونکہ زنا(بدکاری) گناہ بھی ہے اور بےحیائی بھی اور نسلِ انسانی کا خراب کرنا بھی۔([12])دنیا میں بدکار کی سزا یہ ہے کہ بدکار مرد و عورت اگر کنوارے ہوں تو بادشاہِ اسلام ان کو مجمعِ عام میں ایک سو کوڑے لگوائے اور اگر وه شادی شده ہوں تو انہیں مجمعِ عام کے سامنے سنگسار کرادے گا یعنی ان پر پتھر برسا کر ان کو جان سے مار ڈالے گا۔([13]) جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حکم سے رجم کیا گیا۔([14])
بدکاری کے درجات:بدکاری کے کئی درجات ہیں:(1)بغیر شوہر والی اجنبیہ عورت سے بدکاری کرنا بڑا گناہ ہے۔(2)اس سے بھی بڑا گناہ شوہر والی اجنبیہ عورت سے بدکاری کرنا ہے۔ (3)اس سے بھی بڑھ کر گناہ محرم عورت سے بدکاری کرنا ہے۔ (4)شادی شدہ عورت سے بدکاری کرنا کنواری سے بدکاری کرنے سے زیادہ بڑا گناہ ہے،اس کی دلیل یہ ہے کہ ان دونوں بدکاریوں کی شرعی سزا مختلف ہے۔(5)بوڑھے کا بدکاری کرنا، اس کی عقل کے کامل ہونے کی وجہ سے جوان کے بدکاری کرنے سے زیادہ برا ہے۔(6)آزاد اور عالم کا بدکاری کرنا ان کے کامل ہونے کی وجہ سے جاہل اور غلام کے بدکاری کرنے سے زیادہ برا ہے۔([15])
بدکاری کاحکم:بدکاری حرام اور دوزخ میں لے جانے والا کام ہے ۔
بدکاری کی تباہ کاریاں:ایک روایت کے مطابق بدکاری میں 6 نقصان ہیں،تین دنیا میں اور تین آخرت میں۔دنیا کے نقصان یہ ہیں: چہرے کا بے رونق ہو جانا ، ہمیشہ محتاج رہنا اور عمر کا گھٹ جانا۔آخرت کے نقصان یہ ہیں: اللہ پاک کی ناراضی،حساب کی سختی اور جہنم میں ہمیشہ رہنا۔([16])
بدکاری سے بچنے کے طریقے: بد کاری سے محفوظ رہنے کے لئے نیک خواتین کی صحبت اختیار کی جائےعلمِ دین حاصل کیا جائےروزے رکھے جائیں کہ روزہ شہوت کو روکتا ہے بری صحبت سے بچا جائے کیونکہ بروں کی صحبت نیکوں بھی برا بنا دیتی ہے۔اپنے اندر خوفِ خدا پیدا کیجئےبے پردگی کا خاتمہ کیجئےحیا اپنا لیجئےجہاں حیا نہ ہو وہاں فحاشی ڈیرے ڈال لیتی ہےشرم گاہ کی حفاظت کیجئے یعنی اپنے بدن کے فطری تقاضے کو پورا کرنے کے لئے صرف جائز طریقہ ہی اپنائیے نیز اپنے اعضا کو بھی بدکاری سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کیجئے۔چنانچہ حضرت عبدُ اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں نے کوئی چیز صغیرہ گناہوں سے مشابہ اس حدیث کے مقابلہ میں نہیں دیکھی جسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ پاک نے انسان پر بدکاری میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے جس سے وہ ضرور دوچار ہو گا۔پس آنکھ کی بدکاری دیکھنا ہے، زبان کی بدکاری بولنا ہے، دل کی بدکاری یہ ہے کہ وہ خواہش اور آرزو کرتا ہے،پھر شرم گاہ اس خواہش کو سچا کرتی یا جھٹلا دیتی ہے۔([17])
بدکاری کو روکنے میں خواتین کا کردار:قرآنِ کریم میں الزانيةُ کا لفظ پہلے آیا ہے،مطلب یہ ہے کہ عورتیں اس چیز کی اصل ہیں۔اگر عورتیں اس برے کام کو ختم کرنا چاہیں تو اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتی ہیں۔عورتیں گھر سے نکلیں تو ایسے خوبصورت لباس و برقعے پہن کر نہ نکلیں یا ایسی خوشبو نہ لگائیں کہ جو غیر مردوں کو مائل کرے،لہٰذا گھر سے پردے کی رعایت کے ساتھ مدنی برقع پہن کر نکلیں اور بازاروں میں بے پردہ نہ پھریں تاکہ کسی قسم کے فتنے فساد کا خطرہ نہ رہے۔اسی طرح مرد بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں تو معاشرے میں اس بے حیائی والے کام پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ اللہ پاک تمام مسلمانوں کو اس بے حیائی والے کام بدکاری سے بچنے کی توفیق دے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
[1] تفسیر ما تریدی،7/39
[2] تفسیر نسفی،ص622
[3] تفسیر روح البیان،5/154
[4] تفسیر نور العرفان،ص454
[5] تفسیر صراط الجنان،5/454 ملتقطاً
[6] تفسیر خازن،3/173
[7] بخاری،4/338۔حدیث:6810
[8] مشکاة المصابیح،1/656۔حدیث:3582
[9] مستدرک،2/339،حديث:2308
[10] مسلم،ص 66،حدیث:296
[11] مسند امام احمد،44/413،حدیث:26830
[12] نور العرفان،ص454
[13] جہنم کے خطرات،ص33
[14] بخاری،4/342 ۔حدیث:6824ملخصاً
[15] زواجر،2/275
[16] شعب الایمان،4/379،حدیث:5475
[17] بخاری،4/169،حديث:6243
Comments