شرح قصیدہ معراجیہ (قسط:04)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

موضوع: قصیدۂ معراجیہ (قسط 4)

13

غبار بن کر نثار جائیں کہاں اب اُس رَہ گزر کو پائیں

ہمارے دل حوریوں کی آنکھیں فرشتوں کے پر جہاں بچھے تھے

مشکل الفاظ کے معانی:غبار:دھول،خاک۔نثار:قربان۔ حوریوں: حوریں۔

مفہومِ شعر: ہم غبار بن کر نثار ہو جائیں پھر بھی ہمارے نصیب میں اب وہ راہ گزر کہاں جس پر ہمارے دل،حوروں کی آنکھیں اور فرشتوں کے پر بچھے ہوئے تھے۔

شرح:اعلیٰ حضرت  رحمۃ  اللہ  علیہ  لکھتے ہیں کہ اب ہمارے نصیب میں اس راستے کا دیدار کہاں جس سے گزر کر میرے آقا صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم معراج کو تشریف لے گئے۔ کاش!ہم اس راہ گزر کو پالیتے اور اس پر خاک بن کر قربان ہو جاتے۔

گزرے جس راہ سے وہ سیدِ والا ہو کر

رہ گئی ساری زمیں عنبرِ سارا ہو کر

حکیمُ الاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان  نعیمی  رحمۃ  اللہ  علیہ  فرماتے ہیں:اگرچہ فرشتوں میں حضور صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم کی آمد کا پہلے سے ہی اعلان ہوچکا تھا اور آسمانوں کو ہر طرح سجایا  آراستہ کیا جاچکا تھا،تشریف آوری کی دھوم مچ چکی تھی،اس رات کروڑوں فرشتے تو حضور انور(صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم)کو لینے مکہ معظمہ آئے تھے اور بہت سے فرشتے استقبال کے لئے اپنی ڈیوٹیوں پر تھے اور آج جبریلِ امین اس دروازے سے حضور کو لے گئے تھے جو آج تک کسی کے لئے نہیں کھولا گیا تھا وہ صرف حضور انور کے لئے ہی تھا۔ ([1])

14

خدا ہی دے صبر جانِ پُرغم دِکھاؤں کیوں کر تجھے وہ عالم

جَب اُن کو جھرمٹ میں لے کے قدسی جناں کا دُولھا بنا رہے تھے

مشکل الفاظ کے معانی:پُرغم:غم سے بھرپور۔کیونکر:کیسے۔ عالم:  منظر۔جھرمٹ: ہجوم۔ قدسی: فرشتے۔ جناں: جنت۔                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                   

مفہومِ شعر:اے فراقِ رسول میں تڑپ تڑپ کر نڈھال ہونے والی غموں سے بھرپور میری جان! اللہ  پاک ہی تجھے صبر دے میں تجھے وہ مناظر کیسے دکھاؤں کہ جب حضور کو فرشتے جھرمٹ میں لے کر جنت کا دولہا بنا رہے تھے۔

شرح:معراج کی شان وشوکت کو سن کر ہر عاشقِ رسول کے دل میں یہ تمنا مچلتی ہے کہ کاش جب حضور صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم کو معراج کا دولہا بنایا جا رہا تھا تو اس وقت مجھے بھی جلوۂ محبوب دیکھنا نصیب ہوتا،میں بھی اس شان وشوکت کے منظر کو دیکھ سکتا!لیکن  اللہ  پاک  ہر دلِ غمگین کو صبر عطا فرمائے کہ وہ مناظر دیکھنا ہماری قسمت میں کہاں لکھے تھے جب حضور کو فرشتے جھرمٹ میں لے کر جنت کا دولہا بنا رہے تھےجنت کو سجایا گیا تھا،فرشتوں کی بارات نےہمارے آقا صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم کو سلامی پیش کی،جنتی سواری براق کو حضور کے لئے بھیجا گیا، فرشتوں کے سردار حضرت جبریلِ امین علیہ السلام نے اس سواری کی نکیل پکڑی اور حضور نورانی بارات کے ساتھ مسجدِ اقصیٰ روانہ ہوئے۔

15

اُتار کر اُن کے رُخ کا صَدقہ یہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا

کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے

مشکل الفاظ کے معانی:رخ: چہرہ۔باڑا:خیرات،صدقہ۔جبیں: پیشانی، ماتھا۔ خیرات: بھیک، صدقہ۔

مفہومِ شعر:حضور صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم کے رخِ روشن کا صدقہ اتار کر نوریوں میں نور کی خیرات تقسیم کی جارہی تھی،یہاں تک کہ دنیا کو چمکانے والے چاند اور سورج بھی مچل مچل کر جبینِ مصطفےٰ کے نور کی خیرات مانگ رہے تھے۔

شرح:معراج کی رات نبی کریم صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم کے نورانی چہرے کا صدقہ اتار کر آپ کے چہرے کا نور بانٹا جا رہا تھا تو چاند اور سورج جو ساری دنیا کو روشن کرتے ہیں، اس رات مچل مچل کر یہ نور کی خیرات وصول کر رہے تھے۔ اعلیٰ حضرت تعریفِ مصطفےٰ میں ایسا کمال کرتے ہیں کہ کمال بھی اپنے آپ پر رشک کرتا ہے!یہ صرف میرے رضا کا خیال اور مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت یہی ہے کہ چاند اور سورج کے پاس جتنا نور ہے وہ حضور صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم کے مبارک نور کا صدقہ ہے۔ابھی کائنات کی کوئی چیز نہ بنی تھی کہ  اللہ  پاک نے سب سے پہلے حضور کے نور کو پیدا فرمایا، جیسا کہ

 حضرت جابر بن عبد  اللہ  رضی  اللہ  عنہما فرماتے ہیں:میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:یا رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتائیے کہ  اللہ  پاک نے سب سے پہلے کسے پیدا کیا؟ارشاد فرمایا:اے جابر! (بے شک  اللہ  پاک نے تمام مخلوق کو پیدا کرنےسے پہلے)تمہارے نبی  کا نور ( اپنے نور سے)پیدا فرمایا۔ اس کے بعد تفصیلی حدیث ہے کہ اس نور کے چار حصے کئے گئے  جن سے لوح،قلم اور عرش و کرسی بنائے اور چوتھے حصے کے پھر چار حصے کئے اور یوں حضور کے نور کی برکت سے ساری کائنات وجود میں آئی۔([2])

16

وُہی تو اب تک چھلک رہا ہے وُہی تو جوبن ٹپک رہا ہے

نہانے میں جو گرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھرلئے تھے

مشکل الفاظ کے معانی:چھلکنا:اچھل کے نکلنا۔جوبن:حسن و جمال کی انتہا۔ کٹورا: پیالہ۔

مفہومِ شعر:حضور نے جو شب معراج غسل فرمایا تھا تو اس سے جو پانی گرا اس سے ستاروں نے اپنے کٹورے بھر لئے، آج جو ان چاند ستاروں میں روشنی نظر آرہی ہے یہ اسی نور کا پانی چھلک رہا ہے اور اسی کا حسن ٹپک رہا ہے۔

شرح:یوں تو کائنات کی ہر چیز حضور کے نور مبارک کا صدقہ ہے مگر خاص کر چاند تاروں کے پاس جتنا نور ہے وہ سب حضور کے نور کا حصہ ہے اور خیالِ عشق میں یہ جو چاند تارے چمک رہے ہیں یہ اسی نور کا فیض ہے جو معراج کی شب عطا ہوا۔

17

بچا جو تلووں کا اُن کے دَھووَن بنا وہ جنت کا رنگ و رَوغن

جنھوں نے دُولھا کی پائی اُترن وہ پھول گلزارِ نور کے تھے

مشکل الفاظ کے معانی:تلوؤں:پاؤں کے نیچے والا حصہ۔ دھوون:  پانی جو وضو یا غسل کے لئے استعمال ہوا ہو۔ گلزارِ نور: نور کے باغ۔ اترن: اتارے ہوئے کپڑے۔

مفہومِ شعر:حضور صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم کے مبارک پاؤں دھونے کے بعد جو پانی بچا اس سے جنت کا رنگ وروغن بنا دیا گیا اور جنت کے پھول حضور کی اُترن پہن کے خوش نما ہو گئے۔

شرح:معراج کی رات جب حضور صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم نے غسل فرمایا تو آپ کے مبارک پاؤں کے مبارک تلووں سے جو پانی بچا اس سے جنت کا رنگ وروغن بنا دیا گیا گویا کہ جنت کا حسن بھی قدمینِ مصطفےٰ کا صدقہ ہے اور حضور کی پاکیزہ اُترن گویا جنت کے پھولوں نے لے لی یوں وہ انتہائی خوشنما اور خوبصورت ہو گئے۔یہاں اترن سے مراد جسم سے نور کا جدا ہونا بھی ہو سکتا ہے چونکہ حضور صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم کا مبارک جسم میل و کچیل سے پاک و صاف ہے لہٰذا اس سے آپ کے جسمِ منور سے نور مبارک کا جدا ہونا بھی مراد ہو سکتا ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ڈبل ایم اے (اردو، مطالعہ پاکستان)

گوجرہ منڈی بہاؤ الدین


[1] مراۃ المناجیح، 8/138

[2] الجزء المفقود من الجزء الاول من مصنف عبدالرزاق، ص 63، حدیث: 18


Share