موضوع: لا پروائی
(نئی رائٹرز کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ دو مضمون 40ویں تحریری مقابلے سے منتخب کر کے ضروری ترمیم و اضافے کے بعد پیش کیے جا رہے ہیں۔)
لا پروائی کا مطلب ہے:کسی اہم کام،ذمہ داری یا فرض کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنا یا اس میں سستی کرنا۔دین ِاسلام میں غفلت کو سخت مذمت کا نشانہ بنایا گیا ہے،کیونکہ یہ انسان کو نیکیوں سے دور اور گناہوں کے قریب کرتی ہے۔جو دنیا میں لا پروائی کرتی ہے،وہ آخرت میں شرمندگی کا شکار ہو گی۔ قرآنِ کریم میں بھی لا پروائی کی مذمت فرمائی گئی ہے۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ (پ15،الکہف: 28)
ترجمہ:اور اس کی بات نہ مان جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا۔
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
ایک مقام پر ہے:
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ(۱) (پ17،الانبیاء:1)
ترجمہ:لوگوں کا حساب قریب آ گیا اور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی لا پروائی کی مذمت بیان کی گئی ہے،جیسا کہ ایک روایت میں ہے:صحت اور فارغ وقت دو ایسی نعمتیں ہیں جن سے اکثر لوگ دھوکے میں رہتے ہیں۔([1])ایک اور روایت میں ہے:عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے اور نا لائق وہ ہے جو اپنی خواہشات کے پیچھے چلے اور اللہ پاک سے صرف امیدیں باندھے رہے۔([2])
لا پروائی کے اسباب:لا پروائی کے چند اسباب یہ ہیں:٭دین سے دوری٭دنیاوی مشاغل اور غفلت بھری صحبت٭سستی اور کاہلی٭علم کی کمی٭ خواہشات کی پیروی۔
لا پروائی سے بچاؤ کے طریقے:ذیل میں بیان کردہ تدابیر پر عمل کر کے لا پروائی کی آفت سے بچا جا سکتا ہے:
نماز کی پابندی:نماز دین کا ستون ہے اور دل کو بیدار کرتی ہے۔ جو باقاعدگی سے نماز پڑھتی ہے وہ غفلت سے دور رہتی ہے۔
قرآنِ پاک کی تلاوت اور سمجھ:قرآن دل کو جگاتا اور انسان کو اللہ پاک کی یاد دلاتا ہے۔روزانہ کچھ نہ کچھ قرآنِ پاک پڑھنا اور سمجھنا غفلت کو ختم کر دیتا ہے۔
موت کی یاد:موت کی یاد دل نرم کرتی اور دل کو بیدار رکھتی ہے۔
نیک صحبت اختیار کرنا:نیک لوگوں کی صحبت انسان کو اللہ پاک کی یاد دلاتی،دل میں نرمی اور سنجیدگی پیدا کرتی اور غفلت کو دور کرتی ہے۔
ان کے علاوہ علم حاصل کرنا،دنیا کی حقیقت کو سمجھنا کہ دنیا عارضی ہے اور خود احتسابی یعنی روزانہ اپنے اعمال کا جائزہ لینا بھی لا پروائی کے خاتمے میں کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔
لا پروائی کا مطلب بے احتیاطی،بے فکری یا کسی بات کی طرف عدمِ توجہی ہے ۔یہ ایک ایسی صورتِ حال ہے جس میں انسان کسی بات یا کام کی طرف سنجیدہ نہیں ہوتا۔ لاپروا انسان بغیر سوچے سمجھے بولتا ہے اور اکثر بغیر سوچے سمجھے بولنے والے نقصان اٹھاتے ہیں۔لاپروا انسان زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ جب کسی کام کی پروا نہیں ہوگی تو اس کے لئے صحیح سے کوشش بھی نہیں کر پائے گا۔
دینی معاملات میں لا پروائی
لا پروائی چاہے دنیوی معاملات میں ہو یا دینی،ہر صورت میں بری چیز ہے،مگر بالخصوص دینی معاملات میں لا پروائی کرنا بہت زیادہ برا اور قابلِ گرفت ہے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:بندہ کبھی ایسی بات کہہ جاتا ہے کہ اس کے سبب جہنم میں مشرق و مغرب کے درمیان فاصلے سے بھی زیادہ دور جا پڑتا ہے۔([3])
اگر ہم غور کریں تو ہمارے معاشرے میں لا پروائی کے سبب کئی کفریات بک دیئے جاتے ہیں اور کسی کو احساس تک نہیں ہوتا جیسے بعض عورتیں میت پر واویلا کرتے ہوئے بعض اوقات اللہ پاک پر ایسے اعتراضات کرتی ہیں جو اگرچہ ہماری نظر میں کچھ اہمیت نہیں رکھتے مگر وہ دین سے خارج کر دیتے ہیں۔صحابہ کرام علیہم الرضوان فرمایا کرتے تھے کہ تم لوگ بعض ایسے کام کرتے ہو کہ وہ تمہاری نگاہوں میں بال سے بھی زیادہ باریک ہیں جبکہ ہم حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مبارک دور میں انہیں کبیرہ گناہ میں شمار کرتے تھے۔([4])ایک روایت میں ہے کہ ہم انہیں ہلاکت میں مبتلا کرنے والے اعمال شمار کرتے تھے۔([5])
وجوہات اور ان کا خاتمہ
لا پروائی ایک ایسی بیماری ہے جس کا خاتمہ نہایت ضروری ہے اور کسی بھی چیز کے خاتمے کے لئے اس کی وجوہات کا جاننا بہت ضروری ہے۔یوں تو لا پروائی کی بہت سی وجوہات ہیں تاہم چند وجوہات اور ان کے علاج ذکر کئے جاتے ہیں:
1۔ دین سے دوری:
دین سے دوری لا پروائی کی ایک بڑی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ دین اور دینی معاملات کو خاص اہمیت نہیں دیتے جو کہ دینی معاملات میں لا پروائی کا ایک بڑا سبب بنتا ہے۔لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم دین کو اہمیت دیں۔
لا شعوری/بے علمی:
لا پروائی کی ایک وجہ لاعلمی بھی ہے، کیونکہ لا علمی ہی کی وجہ سے لا پروائی کی جاتی ہے۔ہمیں پتا ہی نہیں ہوتا کہ وہ چیزیں کس قدر نقصان دہ ہیں جو ہم اپنی لا پروائی کے بدلے کہہ یا کر رہی ہوتی ہیں۔
اس کا علاج یہ ہے کہ ہم علم حاصل کریں۔ خصوصاً کفریہ کلمات کا جاننا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ لا پروائی بہت سے کفریات کا باعث بنتی ہے۔
بری صحبت:
صحبت انسان پر گہرا اثر رکھتی ہے، انسان کو بگاڑنے اور سدھارنے میں سب سے بڑا ہاتھ صحبت کا ہوتا ہے۔لاپروا اور غیر ذمہ دار کی صحبت انسان کو لاپروا بنا دیتی ہے۔لہٰذا ضروری ہے کہ ہم دین دار وں کی صحبت اختیار کریں۔
بغیر سوچے سمجھے بولنا:
بغیر سوچے بولنا لا پروائی کی ایک بڑی وجہ ہے۔اس کے علاوہ زیادہ بولنا بھی لا پروائی کا ایک بڑا سبب بنتا ہے۔کیونکہ بغیر سوچے اور زیادہ بولنے والا اکثر ایسی بات کر جاتا جو بسا اوقات موقع پر ذلّت کی وجہ بن جاتی ہے یا آخرت میں رسوائی کا سبب بن سکتی ہے۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ بغیر سوچے سمجھے نہ بولیں اور فضول گوئی سے بچیں۔
[1] بخاری،4/222،حدیث:6412
[2] ترمذی،4/208،حدیث:2467
[3] مسلم، ص 1219،حدیث: 7481
[4] مسند امام احمد، 17/26، حدیث:10995
[5] بخاری، 4/244، حدیث:6492
Comments