موضوع: بےمروتی
(نئی رائٹرز کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ دو مضمون 38ویں تحریری مقابلے سے منتخب کر کے ضروری ترمیم و اضافے کے بعد پیش کئے جا رہے ہیں۔)
بے مروتی ایک ایسی اخلاقی خرابی ہے جو معاشرتی تعلقات کو نقصان پہنچاتی،دلوں میں دوریاں پیدا کرتی اور اخلاقی زوال کا سبب بنتی ہے۔مروت یعنی دوسروں کا لحاظ،ان کے جذبات کا خیال رکھنا اور نرمی و شفقت سے پیش آنا،اسلامی تعلیمات کا بنیادی حصہ ہے۔جب انسان مروت کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ بے مروتی جیسے برے رویے کا شکار ہو جاتا ہے جو کہ نہ صرف انسانیت بلکہ اسلامی اصولوں کے بھی برخلاف ہے۔قرآنِ کریم میں کئی بار نرمی کرنے،اچھے اخلاق سے پیش آنے اور دوسروں کا لحاظ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔جیسا کہ ایک مقام پر ہے:
وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا(پ 1، البقرۃ: 83)
ترجمہ:اور لوگوں سے اچھی بات کہو ۔
(اس
آیت کی مزید
وضاحت کے لئے
یہاں کلک
کریں)
یہ آیت واضح طور پر ہمیں اچھے اخلاق اور مروت کی تلقین کرتی ہے۔جو دوسروں سے سختی اور بے مروتی سے پیش آتی ہے وہ اس قرآنی حکم کی خلاف ورزی کرتی ہے۔اسی طرح سورۂ اٰلِ عمرٰن میں ہے:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ-وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۪ (پ4،اٰلِ عمرٰن:159)
ترجمہ:تو اے حبیب! اللہ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں اور اگر آپ تُرش مزاج،سخت دل ہوتے تو یہ لوگ ضرور آپ کے پاس سے بھاگ جاتے۔یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ نرمی، مروت اور اچھا سلوک دلوں کو جوڑتے ہیں،جبکہ بے مروتی انسانوں کو دور کر دیتی ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا کردار بھی نرمی اور مروت جیسی صفات سےآراستہ تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کبھی کسی چیز کو ہاتھ سے نہیں مارا،کسی عورت کو نہ کسی خادم کو، سوائے اس کے کہ اللہ پاک کے راستے میں جہاد ہو اور آپ نے کبھی کسی سے بدلہ بھی نہیں لیا،سوائے اس کے کہ اللہ پاک کی حرمتوں کی پامالی ہو، تو آپ اللہ پاک کے لئے انتقام لیتے تھے۔ ([1])
ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے:مومن اُنس پیدا کرتا ہے اور اس سے اُنس کیا جاتا ہے اور اس میں کوئی بھلائی نہیں جو اُنس پیدا کرے نہ اس سے اُنس کیا جائے۔ ([2])
ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں مروت اور نرمی کی بہت زیادہ اہمیت ہے،جبکہ بے مروتی ایک ناپسندیدہ صفت ہے جو مومن کی شان کے خلاف ہے۔ بے مروتی سے بچنا ایک مومن کی شخصیت کا اہم حصہ ہے۔بے مروتی سے بچنے کے چند طریقے یہ ہیں:
اکثر بے مروتی کی جڑ لالچ ہوتا ہے۔بے مروتی اکثر اس وقت سامنے آتی ہے جب انسان صرف اپنا فائدہ چاہتا ہے اور دوسروں کا احساس کھو دیتا ہے اور جب انسان دنیاوی فائدے کے لئے دوسروں کی عزت کا خیال چھوڑ دیتا ہےتو وہ بد تمیزی، بد زبانی اور سخت رویہ اختیار کرتا ہے۔قرآن میں لالچ کی مذمت بیان فرمائی گئی ہے:
(پ 28، الحشر: 9) ترجمہ:اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔لہٰذا لالچ سے بچئے اور مروت اختیار کیجئے۔لالچ ختم ہو تو انسان دوسروں کا بھی خیال رکھنے لگتا ہے۔
اسلامی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ ہم دوسروں کے جذبات کا خیال رکھیں،ان سے نرمی سے بات کریں اور اپنے مفاد کی خاطر کسی کے ساتھ سختی یا بد سلوکی نہ کریں۔یاد رکھئے! مروت صرف ایک اخلاقی صفت نہیں بلکہ ایک دینی فریضہ ہے۔اگر ہم چاہتی ہیں کہ اللہ پاک ہم سے راضی اور معاشرہ پرامن ہو تو ہمیں مروت کو اپنانا اور بے مروتی سے بچنا ہوگا۔
بےمروتی سے بچنے کے چند طریقے:نیت کی اصلاح،فرامینِ رسول پر عمل،غصے پر کنٹرول،لالچ اور خودغرضی سے بچنا، دوسروں کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا،زبان کی حفاظت، عفو و درگزر اپنانا،بارگاہِ الٰہی میں دعا کرنا وغیرہ۔
اللہ ہمیں قرآن و سنت کے مطابق اچھے اخلاق اختیار کرنے،بے مروتی سے بچنے اور لالچ سے پاک زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
بنتِ نذیر احمد نیازی
(طالبہ: M.Phil Statistics، لاہور)
انسانیت کے درد کا ہے ترجماں بشیر
يہ بے مروتی کا روادار نہیں ہے
کسی کی ناراضی کی پروا نہ کرنا بے مروّتی کہلاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کا شعار یہی ہے کہ انسان اپنے الفاظ کے تیروں سے یا اپنے زہریلے رویوں سے دوسرے کو چھلنی کر دیتا ہے اور اسے احساس تک نہیں ہوتا کہ میرے اس رویے سے دوسرے کی زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے۔یہ رویہ نہ صرف ایک ذات پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ یہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے اور ہماری شریعت بھی اس رویہ سے منع کرتی ہے۔نیز صحابہ کرام کی یہ شان بیان ہوئی ہے کہ یہ وہ حقیقی مومن ہیں جو مسلمانوں کے لئے نرم اور کافروں کے لئے سخت ہیں۔
اگر ہم اس بےمروتی کا دوسرا رخ دیکھیں تو یہ کسی مسلمان کا دل دکھانے کا سبب بھی بنتی ہے اور ہماری شریعت اس کی شدید تردید کرتی ہے۔جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے:
(پ 22، الاحزاب:58) ترجمہ:اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بغیر کچھ کئے ستاتے ہیں تو انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھا لیا ہے۔
اگر ہمیں ایک صحیح اسلامی معاشرہ بنانا ہے تو اس کی پہلی شرط ہے کہ ہم ایک دوسرے کا خیال رکھیں، کوشش کریں کہ ہماری وجہ سے کسی مسلمان کو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ ہمارا اسلام بھی ہمیں یہی محبت، شفقت، ہمدردی اور رحم دلی کا درس دیتا ہے تاکہ معاشرہ پُرسکون رہ سکے۔
حدیثِ پاک میں ہے:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے صحابہ کرام سے سوال کیا:کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟ انہوں نے عرض کی: الله اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم زیادہ جانتے ہیں۔ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے(دوسرے)مسلمان محفوظ رہیں۔ارشاد فرمایا:تم جانتے ہو کہ مومن کون ہے؟صحابہ کرام نے عرض کی: الله اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ارشاد فرمایا:مومن وہ ہے جس سے ایمان والے اپنی جانیں اور اموال محفوظ سمجھیں۔([3])
ایک روایت میں ہے:تم لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھو، یہ ایک صدقہ ہے جو تم اپنے نفس پر کرو گے۔([4])چنانچہ ،
بے مروتی کا سب سے بہترین علاج یہ ہے کہ دوسروں کا دل دکھانے اور انہیں تکلیف دینے سے بچیں۔ الله پاک ہمیں دوسروں کا دل دکھانے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*(دورۃ الحدیث، فیضانِ اُمِّ عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ)
[1] مسلم، ص 978، حدیث: 6050
[2] معجم اوسط، 4/222، حدیث: 5787
[3] مسند امام احمد،11/521،حدیث:6925
[4] بخاری، 2/150، حدیث:2518
Comments