میت کی رسومات (قسط:02)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

موضوع: میت کی رسومات(قسط2)

میت کی رسومات کا بیان جاری ہے،میت کے موقع پر کی جانے والی مزید کچھ رسومات یہ ہیں:

میت کی روح جس جگہ نکلی وہاں کی دیواریں دھونا:

یہ سوچ بھی عوام میں بہت زیادہ رائج ہے کہ میت کی جس کمرے میں روح نکلے،اس کی دیواروں کو دھونے سے میت کی ہڈیاں ٹھنڈی ہوتی ہیں اور اس جگہ کو لازمی دھونا چاہئے۔اس کی کچھ حقیقت نہیں اور اس بات کا دینِ اسلام میں کہیں ثبوت نہیں، دینی احکام سے ناواقفیت اور جہالت کی بِنا پر اس طرح کی بےثبوت باتیں عوام میں گردش کرتی ہیں،ایسی باتوں کی طرف ہرگز دھیان نہ دیا جائے،اس طرح کا غلط مسئلہ بتانا گناہ بھی ہے،ایسے شخص پر توبہ بھی واجب ہے اور جتنوں کو غلط مسئلہ بتایا ہے حتی الامکان انہیں درست بات پہنچانا اور غلطی کا ازالہ کرنا بھی ضَروری ہے۔ ([1])

میت کے تخت یا چارپائی کو استعمال میں لانا:

بعض علاقوں میں یہ رواج بھی ہے کہ گھر میں کسی کے انتقال کے بعد میت کو جس تخت یا چارپائی پر رکھا گیا ہو اسے گھر میں نہیں رکھتے یا استعمال میں نہیں لاتے بلکہ اس کو کھڑا کر دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ میت کی روح اس پر آ کر سوتی ہے،شرعاً اس کی کوئی اصل نہیں جس چارپائی،پلنگ، تخت وغیرہ پر میت  رکھی جائے یا  جس چارپائی،پلنگ یا بستر پر میت کا انتقال ہوا ہو،وہ چارپائی وغیرہ گھر میں رکھی جا سکتی ہے  اور اسے استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔اس کو اس نیت سے گھر سے نکالنا یا کھڑا رکھنا کہ میت کی روح آکر اس پر سوتی ہے، بےاصل ہے۔([2])

میت کو سرد خانے میں رکھنا:

عموماً دیکھا گیا ہے کہ دور دراز سے آنے والے قریبی عزیز و اقارب کو میت کا چہرہ دکھانے کے لئے گھنٹوں بلکہ بسااوقات ایک یا اس سے زائد دن تک سردخانے میں رکھتے ہیں۔ایسا نہیں کرنا چاہیے،کیونکہ جس چیز سے زندہ کو تکلیف ہوتی ہے اس سے مردہ کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ تو کیا کوئی شخص اپنے کسی عزیز کو اس کی زندگی میں ایسی ٹھنڈی جگہ پر رکھنا گوارا کرے گا کہ جس سے اس کو ایذا پہنچے؟تو آخر بعدِ وفات جب میت رحم کی زیادہ محتاج ہوجاتی ہے تو اس پر توجہ کیوں نہیں کی جاتی!

یاد رہے!دینِ اسلام میں جس طرح زندہ کو بلاوجہ شرعی تکلیف دینا جائز نہیں ہے اسی طرح مردہ کو بھی بلاوجہ شرعی تکلیف دینا جائز نہیں اور سرد خانے میں اگر زندہ کو تھوڑی دیر کے لئے رکھا جائے تو اسے بھی سخت تکلیف ہوتی ہے کہ وہاں ٹمپریچر مائنس میں ہوتا ہے،لہٰذا اس سے میت کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور کسی قریبی کو میت کا چہرہ دکھانا وغیرہ ایسے اعذار نہیں کہ جن کے لئے میت کو تکلیف دینا جائز ہو سکے۔نیز اس میں میت کی تجہیز و تدفین میں بلاوجہ کی تاخیر بھی ہے جو کہ ممنوع ہے۔ ([3])

میت کے چہرے و قدموں کو چومنا:

کسی کے والدین،عزیز یا نومولود بچے کا انتقال ہو جائے تو جوشِ محبت اور دوبارہ کبھی نہ ملنے کے غم میں حسرت سے اس کے  چہرے، ہاتھوں اور پاؤں کو چومنا ایک فطری و جذباتی عمل ہے،اس میں کوئی برائی نہیں،بلکہ خود نبی کریم  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم سے میت کوبوسہ دینا ثابت ہے۔ چنانچہ

 حضرت عائشہ  رضی  اللہ  عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول  اللہ  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم کو حضرت عثمان بن مظعون  رضی  اللہ  عنہ  کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا جبکہ ان کا انتقال ہوچکا تھا۔ ([4])

غسلِ میت سے پہلے فاتحہ پڑھنا یا دعا کرنا:

جب تک غسل نہیں ہوتا تب تک میت پر فاتحہ پڑھنا کچھ لوگ برا جانتے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں،غسل یا نمازِ جنازہ سے پہلے بھی فاتحہ پڑھی جا سکتی ہے،کیونکہ کتبِ احادیث میں واضح طور پر نمازِ جنازہ سے پہلے دعا کا ذکر ہے۔جیسا کہ حضرت ابنِ عباس  رضی  اللہ  عنہما  فرماتے ہیں کہ حضرت عمر  رضی  اللہ  عنہ کو(غسل کے لئے) چارپائی پر رکھا گیا تو لوگوں نے ان کو گھیر لیا اور وہ ان کو اٹھائے جانے سے پہلے ان کے لئے دعاکرنے لگے اورمیں بھی ان میں تھا۔مزید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی بن ابی طالب  رضی  اللہ  عنہ کو بھی دیکھا کہ انہوں نے حضرت عمر کے لئے رحمت کی دعا کی۔([5])البتہ!میت کے پاس قرآنِ پاک پڑھنے کے حوالے سے یہ احتیاط ہے کہ غسل سے پہلے اس کو کپڑے میں ڈھانپ دیا گیا ہو ورنہ یہ مکروہ ہے۔

میت کی تصویر بنانا:

آج کل یہ بات عام ہے کہ فوتگی کے موقع پر اگرچہ گھر والوں پر غم کا پہاڑ ٹوٹا ہو پھر بھی لوگ موبائل نکال کر تصویر لینا نہیں بھولتے،موت کی اطلاع کے لئے بطورِ یادگار اپنے پاس محفوظ رکھنے یا دور رہنے والے رشتے داروں کو دکھانے کے لئے میت کی تصویر لی جاتی ہے۔اس حوالے سے یاد رکھئے کہ موبائل  یا کیمرے سے  میت کی ڈیجیٹل تصویر بنانا،جبکہ پرنٹ  آؤٹ کرنے کے لئے نہ ہو اور عورت کی ہو تو محارم وغیرہ کی شرعی قیودات  کا لحاظ رکھا جائے(یعنی نامحرموں کو بھیجیں نہ ان کو دکھائیں ) تو اس میں مطلقاً حرج نہیں اور اگر میت کی تصویر پرنٹ آؤٹ کروانی ہو تو اس کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ تصویر دیکھنے سے  میت اور بےجان کی  معلوم ہو اور ممانعت کی کوئی اور وجہ موجود نہ ہو تو جائز ہے  کیونکہ شریعت میں ذی روح کی تصویر کی حرمت بیان کی گئی ہے، جبکہ میت  جو کہ دیکھنے سے بے جان معلوم ہو، وہ ذی روح نہیں۔ ([6])

میت کے انتقال کے بعد اس کے پاس اناج رکھنا:

بعض علاقوں میں یہ رواج بھی ہے کہ جب کسی کا انتقال ہو جاتا ہے تو چاول، دال، گیہوں، آلو اور پیاز وغیرہ میت کے پاس رکھ دیتے ہیں ، بعض صرف چاول اناج رکھتے ہیں،اس سے گویا ان کا یہ گمان ہوتا ہے کہ اس کا دانا پانی اب یہاں سے ختم ہو چکا۔ اس طرح کے کاموں سے بچنا چاہیے کہ ایسےکاموں کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ ان چیزوں کو اگر اس انداز سے رکھا کہ بعد میں کسی کے استعمال میں نہ آئیں، بلکہ ضائع ہو جائیں تو اب یہ کام شرعاً سخت ناجائز و گناہ قرار پائے گا، کیونکہ شریعت نے مال ضائع کرنے کو سخت ناپسند فرمایا ہے۔

ایک مخصوص خطے میں یہ صورت بھی پائی جاتی ہے کہ میت کے روح نکلتے ہی اس کی چارپائی کے سرہانے کچھ اناج کسی برتن میں رکھ دیا جاتا ہے جو بعد میں پکا کر یا یونہی کسی کو بطور خیرات دیا جاتا ہے۔ چونکہ اب یہ اناج رکھنا اس لئے ہے کہ بعد میں اسے صدقہ کر دیں گے تو اس میں حرج نہیں، البتہ! یہ میت کے پاس رکھنا ضروری نہیں۔نیز اس بات کا خیال رکھنا لازمی ہے کہ اگر یہ میت کی وراثت کے مال سے ہے تو ضروری ہے کہ یہ عاقل بالغ ورثا کے حصے میں سے ہی ہو اور ان کی طرف سے اجازت کے بعد ہو۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* معلمہ فیضانِ شریعت کورس جامعۃ المدینہ گرلز جوہر ٹاؤن لاہور



[1] ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی 2018،ص59

[2] فتاوی اہلسنت غیرمطبوعہ، فتویٰ نمبر: Web-1680

[3] ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر 2018، ص 12 ملتقطاً

[4] ابو داود، 3/269، حدیث:3163

[5] بخاری، 2/527، حدیث:   3685

[6] فتاویٰ اہلسنت غیرمطبوعہ، فتویٰ نمبر: WAT-2248


Share