بُری عادتیں (قسط:12)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

موضوع: بری عادتیں (قسط 12)

دینی تعلیم کو ادھورا چھوڑ جانے کی وجوہات ذکر کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے،یہاں بیان کردہ بُری عادت بھی ایسی ہی ہے جو عِلمِ دین کی برکتوں کے حصول میں رکاوٹ کا باعث ہے۔

خود داری سے محرومی

خود داری ایک ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے اصولوں، عزتِ نفس اور وقار پر قائم رہتا ہے۔یہ صفت انسان کو خود پر قابو رکھنے،صبر کرنے اور کسی غیر مناسب یا کمزور عمل سے بچنے میں مدد دیتی ہے۔اس لئے انسان کو اپنی خود داری پہ سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے۔خود داری انسان کو بلندی اور عظمت دلاتی اور لوگوں کے دلوں میں محبت بڑھاتی ہے۔ خود داری کی دولت خریدی نہیں جا سکتی بلکہ یہ  اللہ  کریم پر کامل بھروسے سے حاصل ہوتی ہے۔جب انسان کو یہ دولت مل جاتی ہے تو پھر  اللہ  پاک کے سوا کسی کے آگے اس کا ہاتھ اٹھتا ہے نہ ایسا انسان احساسِ کمتری کا شکار ہوتا ہے۔

ہمارا دین ہمیں اپنی ضروریات خود پوری کرنے کی ترغیب دیتا اور دوسروں پہ بوجھ بننے کو ناپسند کرتا  اور سوال کرنے اور دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی مذمت کرتا ہے۔بلکہ اسلام میں کثرتِ سوال یعنی مانگنے سے بچنے پر جنت کی ضمانت دی گئی ہے۔جیسا کہ حضرت ثوبان  رضی  اللہ  عن سے روایت ہےکہ نبی کریم   صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم  نے ارشاد فرمایا: جو مجھے ایک بات کی ضمانت دے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:میں نے عرض کی:میں ضمانت دیتا ہوں۔تو حضور  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:لوگوں سے کچھ بھی نہ مانگنا۔اس کے بعد آپ کسی سے کچھ نہ مانگا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ گھوڑے پر سوار ہوتے اور کَوڑا(یعنی چابک)نیچے گر جاتا تو کسی سے اٹھانے کے لئے نہ کہتے بلکہ گھوڑے سے نیچے اتر کر خود ہی اٹھا لیتے۔([1])

افسوس!کچھ اسٹوڈنٹس اپنی عزتِ نفس اور وقار کو وقتی فائدے کی خاطر داؤ پہ لگا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی اہمیت کم ہو جاتی ہے اور ان کی خود اعتمادی، تعمیری اور قائدانہ صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہیں، جس سے ان کی شخصیت میں منفی پہلو جنم لیتے ہیں جو موجودہ تعلیمی معاملات اور آئندہ زندگی پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ اسٹوڈنٹس کا اپنی ضروریات کے لئے دوسروں پر انحصار کرنا اور خواہی نخواہی کلاس فیلوز سے چیزیں مانگنے کی عادت ہونا بھی ہے،مثلاً وہ استطاعت کے باوجود اپنی کتابیں خود نہیں خریدتے بلکہ دوسروں سے لے کر گزارا کر لیتے ہیں۔ کلاس فیلوز سے بار بار کچھ نہ کچھ مانگتے رہتے ہیں، مثلاً کبھی قلم کا سوال تو کبھی کسی سے نوٹ بک کا تقاضا تو کبھی کھانے پینے کی چیزوں کا مطالبہ کرنا اور بعض کا بلاوجہ دوسروں سے قرض مانگنا وغیرہ۔

یاد رکھئے!یہ ایسی بری عادتیں ہیں جن کی وجہ سے ٹیچرز بھی پریشان رہتے ہیں اور اسٹوڈنٹس بھی آزمائش کا شکار رہتے ہیں۔بلکہ بسا اوقات آپس میں نفرتیں اور رنجشیں پیدا ہونے کی وجہ سے کلاس کا ماحول خراب ہو جاتا ہے،نیز ان اسٹوڈنٹس کی بری عادتوں کی وجہ سے بعض اوقات انتظامیہ ان کے خلاف تادیبی کاروائی کرتی ہے جس سے ان کے تعلیمی معاملات بہت زیادہ متاثر ہو جاتے ہیں۔لہٰذا دینی طلبہ و طالبات کو چاہیے کہ وہ  خود داری اپنائیں اور اپنے وقار پر کسی صورت سمجھوتہ نہ کریں۔ اپنی ضرورت کی چیزوں کا خود اہتمام کریں، دوسروں کی چیزوں سے بے نیاز ہو جائیں، ان شاء  اللہ  ان کی عزت و خود اعتمادی بڑھے گی،دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچ جائیں گے۔نیز یہ عمدہ عادات حصولِ علمِ دین میں بھی مدد گار ہوں گی۔ ہمارے بزرگانِ دین کس قدر خود دار ہوا کرتے تھے، کروڑوں حنفیوں کے امام،امامِ اعظم ابو حنیفہ  رحمۃ  اللہ  علیہ   کی سیرتِ مبارکہ سے ملاحظہ کیجئے:

امامِ اعظم ابو حنیفہ نے  مالداروں اور حکمرانوں کے نذرانوں اور تحائف کو کبھی قبول نہ کیا۔آپ کی خود داری اور عزتِ نفس کو گوارا نہ تھا کہ وہ وظیفے وصول کر کے مالداروں اور حکمرانوں کے احسان مند بنیں اور ان کے خلاف حق گوئی کا موقع آ جائے تو احسان کے بوجھ سے سر جھکا لیں۔ یہی وجہ ہے کہ امامِ اعظم کا بیدار ضمیر ہمیشہ آزاد رہا اور ہر محاذ پر انہوں نے پوری جرأتِ ایمانی کے ساتھ حق گوئی و حق شعاری کا مظاہرہ کیا جو علمائے حق اور وارثینِ انبیا کی شان ہے۔چنانچہ بنو اُمیہ کے دورِ حکومت میں ابنِ ہبیرہ کوفہ کا گورنر تھا،اس نے ایک بار اپنے اور خوارج کے درمیان ایک دستاویز لکھنے کے لئے ابنِ شبرمہ اور ابنِ ابی لیلیٰ سے کہا،دونوں نے ایک ماہ کا وقت لے کر مضمون لکھا،لیکن اسے پسند نہ آیا۔ان کے بتانے پر ابنِ ہبیرہ نے امامِ اعظم ابو حنیفہ  رحمۃ  اللہ  علیہ   کو بلوایا اور یہ مسئلہ پیش کیا، امامِ اعظم ابو حنیفہ  رحمۃ  اللہ  علیہ   نے اسی وقت مضمون لکھوا دیا  جو گورنر اور علما کو بہت پسند آیا۔تب گورنر نے درخواست کی کہ  حضور!کبھی کبھی ہمارے ہاں تشریف لے آیا کریں تو ہمیں فائدہ ہو گا۔ آپ نے بے باکی سے فرمایا:تم سے مل کر کیا کروں گا؟تم مہربانی سے پیش آؤ گے تو تمہارے دام میں آ جاؤں گا اور اگر ناراض ہوئے اور مجھے قرب کے بعد دور کر دیا تو اس میں میری ذلت ہے۔نیز جو مال تمہارے پاس ہے اس کی مجھے حاجت نہیں کہ جو دولت(علم) میرے پاس ہے اسے کوئی چھین نہیں سکتا۔ابنِ ہبیرہ یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا۔([2])

دیکھو!کبھی خودی کا سودا نہ ہونے پائے

باطل سے تم ہرگز نہ رسم و رواج رکھنا

قائد ہو قوم کے تم، چلنا سنبھل سنبھل کر

اسلاف کی روش پر،ہر کام و کاج رکھنا

امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری  دامت برکاتہم العالیہ دین و دنیاکے بے شمار کاموں میں اصلاح فرماتے ہی رہتے ہیں،چنانچہ خود داری کی عادت اپنانے کے حوالے سے طلبہ کو عطا کردہ  92 نیک اعمال کے رسالے میں نیک عمل نمبر 34 کے تحت فرماتے ہیں: آج آپ نے  دوسروں سے مانگ کر کوئی چیز(مثلاًچادر، فون،گاڑی وغیرہ) استعمال تو نہیں کی؟ (دوسروں سے سوال کی عادت نکال دیجئے، ضرورت کی چیز نشانی لگا کر اپنے پاس بحفاظت رکھئے۔)

اسی طرح طالبات کو عطا کردہ 83 نیک اعمال کے رسالے میں سے نیک عمل نمبر 33 کے تحت فرماتے ہیں:آج آپ نے گھر کے افراد کے علاوہ کہیں دوسروں سے مانگ کر چیزیں (کپڑے، فون، زیورات وغیرہ)چیزیں تو استعمال نہیں کیں؟ (صرف اپنی ہی چیزیں استعمال کیجئے اور ضرورت کی چیز نشانی لگا کر اپنے پاس بحفاظت رکھئے)لہٰذا دینی طلبہ و طالبات کو چاہیے کہ وہ اپنی عزتِ نفس کی حفاظت کریں،دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے اور ان کا احسان لینے سے بچیں کہ یہ بری عادات حق گوئی میں رکاوٹ بننے کے ساتھ خود اعتمادی اور عزتِ نفس کو مجروح کرتی ہیں۔ لہٰذا اسٹوڈنٹس کو با وقار و خود دار ہونا چاہیے تاکہ حصولِ علمِ دین میں نہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے اور نہ دوسروں کا احسان مند بننا پڑے۔ اللہ  پاک ہمیں ہر معاملے میں صرف اپنا ہی محتاج رکھے اور غیروں کی محتاجی سے بچائے۔

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم  

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز ٹیل والا



[1] ابن ماجہ،2/401،حدیث:1837

[2] مناقب ابی حنیفہ،1/273ماخوذاً-سرمایہ آخرت،ص52


Share