سلسلہ: حصولِ علمِ دین کی رکاوٹیں
موضوع: بری عادتیں (قسط 11)
*محترمہ ام ہالہ (بنتِ افضل) عطاریہ مدنیہ
دینی تعلیم کو ادھورا چھوڑ جانے کی وجوہات ذکر کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے، ذیل میں بیان کردہ بُری عادت بھی ایسی ہی ہے جو عِلمِ دین کی برکتوں کے حصول میں رکاوٹ کا باعث ہے۔
سبق یاد نہ کرنا
حصولِ علم میں اپنے اسباق کو اچھے طریقے سے تیار کرنا بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔کیونکہ سبق یاد کرنے کا مقصد صرف امتحانات پاس کرنا ہی نہیں ہوتا بلکہ آئندہ زندگی میں کامیابی کے لئے بھی بہت ضروری ہے۔یاد داشت ایک ایسی صلاحیت ہے جو زیادہ استعمال سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔لہٰذا اپنی یادداشت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اپنے اسباق کو انتہائی توجہ سے یاد کرنے کی کوشش کیجئے اور درج ذیل باتیں بھی ہمیشہ یاد رکھئے:
* اللہ پاک کی رضامندی اور گناہوں کی معافی:
دینی اسباق کو یاد کرنا اللہ پاک کی رضا کا سبب اور صغیرہ گناہ مٹنے کا ذریعہ ہے۔ایک روایت کے مطابق جس نے علم کی تلاش کی تو یہ تلاش اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوگئی۔ ([1])
اس حدیثِ پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:طالبِ علم سے صغیرہ(چھوٹے)گناہ معاف ہو جاتے ہیں،جیسے وضو، نماز،وغیرہ عبادات سے۔لہٰذا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ طالب علم جو گناہ چاہے کرے، یا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک نیتِ خیر سے علم طلب کرنے والوں کو گناہوں سے بچنے اور گزشتہ(پچھلے)گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی توفیق دیتا ہے۔([2])
* سبق یاد کرنے سے علم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
* دماغی ورزش:
دماغ کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لئے اسے مسلسل مفید کاموں میں مشغول رکھنا بہت ضروری ہے۔ سبق یاد کرنے سے دماغ کی ورزش ہوتی ہے جس کی وجہ سے دماغ کے کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
* اعتماد میں اضافہ:
سبق اچھی طرح یاد ہو تو خود اعتمادی بڑھتی ہے،اس موضوع پر عمدہ گفتگو کی جا سکتی ہے اور سوالات کے جوابات دینے کی اہلیت بڑھ جاتی ہے۔
* اچھے نمبرز حاصل کرنے میں مدد:
پڑھنے کے دوران اگر اسباق اچھے طریقے سے یاد کئے جائیں تو امتحانات میں نمایاں نمبرز حاصل کرنے میں مشکل پیش نہیں آتی۔لیکن کچھ اسٹوڈنٹس کو سبق یاد کرنے میں کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کے سبق یاد کرنے کا انداز درست نہیں ہوتا، مثلاً:بعض اسٹوڈنٹس اندھیرے میں یا بہت تیز روشنی یا تیز دھوپ میں،یا سخت بیماری یا ٹینشن کی حالت میں سبق یاد کر رہے ہوتے ہیں۔اسی طرح بعض اسٹوڈنٹس موبائل چلاتے ہوئے یا کھاتے پیتے سبق یاد کرتے ہیں یا پھر سبق کو سمجھے بغیر لگاتار رٹا لگاتے رہتے ہیں اور کچھ کے سامنے بظاہر تو کتاب کھلی ہوتی ہے مگر دل و دماغ کہیں اور ہی ہوتے ہیں۔چنانچہ ایسے اسٹوڈنٹس جلد بیزار ہو جاتے ہیں اور آخر کار اکتاہٹ کا شکار ہو کر ادارے کو ہی چھوڑ دیتے ہیں کہ جب سبق ہی یاد نہیں ہوتا تو پھر پڑھنے کا کیا فائدہ!
جن اسٹوڈنٹس کو یہ شکایت ہے کہ سبق جلدی یاد نہیں ہوتا یا یاد تو ہو جاتا ہے مگر جلد ہی بھول جاتا ہے تو ان کو سبق یاد کرنے کے درج ذیل طریقوں پر غور کر لینا چاہیے:
* سبق عموماً دو طرح کا ہوتا ہے: یاد کرنے اور لکھنے والا۔ لکھنے والے سبق کے لئے زیادہ محنت کی حاجت نہیں ہوتی،لہٰذا جب تھکن کی حالت ہو تو لکھنے کا کام کر لیجئے اور جب آپ تازہ دم اور پرسکون ہوں تو یاد کرنے والا کام کر لیجئے۔ اگر آسانی ہو تو اسباق تیار کرنے کے لئے صبح کے اوقات کا انتخاب کیجئے کہ اس وقت عموماً طبیعت ہشاش بشاش ہوتی ہے اور صبح کے اوقات میں برکت بھی ہوتی ہے۔جیسا کہ حضور نے اپنی اُمّت کے صبح کے کاموں میں برکت کی دعا فرمائی ہے۔ ([3])
* سبق یاد کرنے کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیجئے جہاں روشنی کا مناسب انتظام ہو اور شور بھی نہ ہو،تا کہ توجہ برقرار رہے اور بے توجہی سے بچ سکیں۔
* سبق یاد کرنے کے لئے با وضو قبلہ رخ بیٹھئے کہ اس کی بے شمار برکتیں ہیں۔جیسا کہ امام بُرہان الدین زرنوجی رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:دو طلبہ علمِ دین حاصل کرنے پردیس گئے،دو سال تک دونوں ہم سبق رہے،جب وطن واپس لوٹے تو ایک زبردست عالم بن چکے تھے جبکہ دوسرا علم و کمال سے خالی ہی رہا ۔اس شہر کے علما نے اس پر خوب غور و خوض کیا، دونوں کے حصولِ علم کے طریقہ کار،انداز و تکرار اور بیٹھنے کے طریقوں وغیرہ پر تحقیق کی تو جو بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ جو عالم بن کر پلٹے ان کا معمول یہ تھا کہ وہ سبق یاد کرتے وقت قبلہ رخ بیٹھا کرتے تھے اور دوسرا جو کہ کورے کا کورا ہی پلٹا تھا اس کی عادت تھی کہ وہ قبلے کو پیٹھ کر کے بیٹھا کرتا تھا۔چنانچہ تمام علما نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ خوش نصیب استقبالِ قبلہ کے اہتمام کی برکت سے عالم بنے۔کیونکہ بیٹھتے وقت کعبۃ اللہ شریف کی سمت منہ رکھنا سنت ہے۔([4])لہٰذا سبق یاد کرنے کے لئے کعبۃ اللہ شریف کی طرف رخ کر کے بیٹھئے اور بسم اللہ شریف بھی پڑھ لیجئے کہ نیک کام سے پہلے بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے اور حدیثِ پاک میں ارشاد ہے: جو بھی اہم کام بسمِ اللہ سے شروع نہیں کیا جاتا وہ نا مکمل رہ جاتا ہے۔([5])
* پھر اللہ پاک کی حمد کرتے ہوئے درودشریف پڑھ کر سبق کو توجہ کے ساتھ مکمل پڑھ کر مفہوم سمجھ لیجئے۔اگر عربی کتاب ہے تو عبارت و ترجمہ بھی سمجھ لیجئے۔اگر سبق لمبا ہو تو اسے کچھ حصوں میں تقسیم کر لیجئے۔پھر درمیانی آواز کے ساتھ تین چار بار پڑھیئے۔اس کے بعد اتنے حصے کو زبانی پڑھئے۔اگر یاد ہو چکا ہے تو ٹھیک ورنہ جہاں سے بھولا ہو وہاں سے کتاب کھول کر دیکھ لیجئے۔جب پہلا حصہ مکمل طور پر روانی کے ساتھ زبانی پڑھ لیں تب اگلے حصے کو شروع کیجئے۔جب وہ یاد ہو جائے تو پہلے حصے کو بھی ساتھ ملا کر پڑھئے۔اسی طرح جب سبق کے سارے حصے یاد ہو جائیں تو اب زبانی مکمل سبق پڑھئے۔
* اسباق یاد کرنے میں حافظہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے، لہٰذا مضبوط حافظے کے لئے اللہ کریم سے دعا کیجئے، گناہوں سے بچئے کہ گناہ حافظے کی کمزوری کا سبب ہیں۔ نیز جسمانی صحت پر بھی توجہ دیجئے کہ صحت مند جسم ہی صحت مند دماغ رکھتا ہے۔ حافظہ مضبوط کرنے والی غذائیں کھائیے،مثلاً:کشمش اور بادام وغیرہ۔اسی طرح حافظہ کمزور کرنے والی غذائیں،مثلاً:کھٹی چیزیں کھانے سے پرہیز کیجئے۔
* ٹیچرز اور پیر و مرشد کی اطاعت کیجئے، ان کا ادب و احترام بجا لائیے، ان شاء اللہ اس کی برکت سے بھی تمام رکاوٹیں دور ہوں گی اور آسانیاں آپ کا مقدر بنیں گی کہ پیرِ کامل کی نگاہِ فیض سے مشکلات دور ہوتی ہیں۔ اس معاملے میں شجرۂ شریف کے اوراد و وظائف اور دعائیہ اشعار بالخصوص یہ شعر پڑھنا انتہائی مفید ہے:
مشکلیں حل کر شہِ مشکل کشا کے واسطے
کر بلائیں رد شہیدِ کربلا کے واسطے
اللہ کریم تمام اسٹوڈنٹس کو روشن حافظہ اور اعلیٰ بصیرت عطا فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز ٹیل والا
[1] ترمذی، 4/295، حدیث:2657
[2] مراۃ المناجیح، 1/203
[3] ابو داود، 3 / 51، حدیث:2606
[4] تعلیم المتعلم، ص114
[5] جامع صغیر، ص391، حدیث:6284
Comments