سلسلہ: نئی لکھاری
اہم نوٹ:ان صفحات میں ماہنامہ خواتین کے 37ویں تحریری مقابلے میں موصول ہونے والے175مضامین کی تفصیل یہ ہے:
|
عنوان |
تعداد |
عنوان |
تعداد |
عنوان |
تعداد |
|
حضورکی حضرت عائشہ سے محبت |
100 |
خود غرضی |
46 |
طلاق کے خاندان پر اثرات |
29 |
مضمون بھیجنے والیوں کے نام
حضور کی حضرت عائشہ سے محبت:
اٹک حضرو:بنت محمد ایوب۔حیدر آباد:لطیف آباد:بنت عبد الوحید خان۔سیالکوٹ:تلواڑہ مغلاں:بنت اعجاز احمد، بنت بشارت علی، بنت جاوید سرور، بنت رزاق احمد، بنت عارف حسین، بنت محمد لطیف، بنت محمد نعیم، بنت نصیر احمد، ہمشیرہ غلام عباس۔شفیع کا بھٹہ:بنت اشرف، بنت اشفاق احمد، بنت افضال، بنت اورنگزیب، بنت تنویر، بنت جہانگیر، بنت خوشی محمد، بنت راشد محمود، بنت راشد، بنت رضاء الحق باجوہ، بنت سرمد، بنت سید عاشق حسین شاہ، بنت شمس پرویز، بنت طاہر، بنت عثمان علی، بنت محمد اشرف، بنت محمد امجد، بنت محمد بوٹا، بنت محمد جمیل، بنت محمد حبیب، بنت محمد رمضان، بنت محمد سجاد احمد، بنت محمد سرور، بنت محمد سلیم، بنت محمد شاہد، بنت محمد طاہر، بنت محمد وسیم، بنت محمد یوسف، بنت ناصر، بنت ندیم جاوید، بنت کاشف شیراز،بنت اورنگزیب،بنت محمد یوسف، بنت جعفر حسین، ہمشیرہ حافظ اسامہ بن امین، ہمشیرہ حامد، ہمشیرہ محمد آصف، ہمشیرہ محمد فیصل، ہمشیرہ محمد منیب، ہمشیرہ میر حمزہ۔مظفرپورہ:بنت ارشد علی خاور، بنت ارشد علی، بنت اظہر، بنت اعجاز، بنت جاوید حسین، بنت خلیل احمد، بنت غلام میراں، بنت محمد الیاس، بنت محمد شبیر، بنت محمد شہباز، بنت محمد طارق، بنت محمد عمران، بنت محمد نعیم طارق، بنت محمد نواز۔معراج کے:بنت رضا حسین، بنت فرید، بنت لیاقت علی، بنت محمد افضل بھٹی، بنت محمد شفیق، بنت منور حسین۔نند پور:ام ہانی، بنت عبد الستار مدنیہ، بنت محمد الیاس، بنت محمد انور، بنت محمد صدیق۔پاکپورہ:بنت سید ابرار حسین، بنت شاہد، بنت فضل الحق۔گلبہار:اخت فیصل خان، ام ہلال، بنت ایاز خان، بنت خالد حسین، بنت صدیق، بنت محمد شہباز۔شیخو پورہ:فاروق آباد:بنت قربان۔فیصل آباد:جھمرہ سٹی:بنت محمد انور۔چباں:بنت ارشد محمود۔ملتان: قادر پوراں:بنت محمد اسحاق۔نیل کوٹ:بنت غلام حسین۔کراچی:بنت فیض فرید، بنت عنایت علی، بنت شاکر، بنت محمد ندیم صدیقی۔لیاقت آباد ٹاؤن: بنت عبد الجبار بلوچ۔گلشن معمار:بنت محمد اکرم۔نارتھ کراچی:بنت عبد الرشید مدنیہ، بنت محمد فہیم کھتری۔عرب:بحرین شریف:بنت مقصود۔ ویسٹ بنگال:بنت شہاب۔
خود غرضی:
بہاولپور:یزمان:بنت محمد یونس۔حیدر آباد:بنت عابد راجپوت۔خوشاب:جوہر آباد:بنت اشرف۔راولپنڈی:صدر:بنت محمد وسیم ظفر۔ سیالکوٹ:تلواڑہ مغلاں:بنت محمد جمیل، خوشبوئے مدینہ۔شفیع کا بھٹہ:بنت شمس، بنت آصف علی، بنت اشرف، بنت اشفاق احمد، بنت اعجاز احمد، بنت افتخار احمد، بنت خلیل احمد، بنت ذو الفقار انور، بنت سلیم، بنت شبیر احمد، بنت طارق محمود، بنت عارف محمود، بنت عارف، بنت عرفان، بنت فضل الٰہی، بنت محمد احسن، بنت محمد اشفاق بھٹی، بنت محمد اصغر مغل، بنت محمد امین، بنت ناصر محمود، بنت کرامت، ہمشیرہ حنظلہ صابر، ہمشیرہ شہراز حسن۔مظفر پورہ:بنت یاسر عشرت علی، بنت اعظم، بنت حافظ محمد شبیر، بنت محمد طارق، بنت محمد نواز،ہمشیرہ قاسم علی۔معراج کے:بنت سلیم، بنت محمد عارف۔ نندپور:ام ہانی، بنت عبد الستار مدنیہ، بنت محمد صدیق۔گلبہار:اخت فیصل خان، بنت رضوان احمد۔فیصل آباد:سمندری 137 روڈ:بنت محمد اشرف۔واہ کینٹ:گلشن کالونی:بنت مقبول احمد۔کراچی:دھوراجی:بنت شہزاد احمد۔نارتھ کراچی:بنت طفیل الرحمان ہاشمی۔
طلاق کے خاندان پر اثرات:
حیدر آباد:آفندی ٹاؤن:بنت محمد عمران مدنیہ۔راولپنڈی:صدر:بنت محمد وسیم ظفر۔سیالکوٹ:شفیع کا بھٹہ:بنت عبد المجید، بنت امجد پرویز، بنت انتظار حسین، بنت خالد پرویز، بنت رزاق بٹ، بنت سعید، بنت شبیر حسین، بنت شمس پرویز، بنت عبد الغفور، بنت غلام حیدر، بنت محمد شفیق، بنت محمد ندیم میاں، بنت گلزار، بنت ہمایوں، ہمشیرہ بلال حبیب، ہمشیرہ محمد حسین۔مظفر پورہ:بنت عمران، بنت محمد طارق، بنت گلزار خان۔معراج کے:بنت نور حسین۔نندپور:ام ہانی، بنت عبد الستار مدنیہ، بنت محمد صدیق۔گلبہار:اخت فیصل خان۔کراچی:بنت اسماعیل، بنت سید ساجد علی۔دھوراجی:بنت محمد عدنان۔
طلاق کے خاندان پر اثرات
بنتِ سید ساجد علی(اول پوزیشن)
(معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز فیضان رضا سرجانی ٹاؤن کراچی)
نکاح سے عورت شوہر کی پابند ہو جاتی ہے۔اس پابندی کے اٹھا دینے کو طلاق کہتے ہیں۔([1])
اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ (پ28،الطلاق:1)
ترجمہ:اے نبی! ( امت سے فرما دیں کہ) جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے وقت پر انہیں طلاق دو۔
حضرت ابنِ عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تمام حلال چیزوں میں اللہ پاک کے نزدیک زیادہ نا پسندیدہ طلاق ہے۔([2])
طلاق کبھی کبھار نا مناسب حالات میں حل بن جاتی ہے لیکن اس کے خاندان پر درج ذیل گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں:
بچوں پر اثرات:
طلاق سے سب سے زیادہ برا اثر بچوں کی زندگی پر پڑتا ہے۔والدین کی علیحدگی کے سبب بچے اندرونی طور پر الجھن اور عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں۔خود اعتمادی کو کھو کر احساسِ کمتری و احساسِ محرومی میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی تعلیمی اور اخلاقی صلاحیتوں میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔بعض بچے چڑچڑے،غصیلے اور ضدی بن جاتے بلکہ بعض اوقات معاشرتی برائیوں میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں۔
مرد و عورت پر نفسیاتی دباؤ:
طلاق کے بعد میاں بیوی تنہائی اور احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔عورتوں کو سماجی دباؤ اور مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؛ساتھ ساتھ بچوں کی پرورش کرنے میں بے حد مسائل ہوتےہیں۔مرد حضرات بھی تنہائی اور قانونی معاملات سے دوچار ہوتے ہیں۔معاشرتی اور خاندانی رابطے متاثر ہوتے ہیں۔طلاق صرف دو افراد کے درمیان جدائی نہیں ہوتی بلکہ اس کے سبب دو خاندان جدا ہو جاتے ہیں۔میل جول اور خوشی غمی کے مواقع پر فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو نہ ختم ہونے والی لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے بالآخر خاندانی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔
معاشرے پر اثرات:
فرد سے معاشرہ بنتا ہے۔جب افراد میں جھگڑا ہوتا ہے تو معاشرے میں بھی بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور آنے والی نئی نسل بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہے کیونکہ معاشرے کی بنیاد خاندان پر ہوتی ہے اور طلاق خاندان کی بنیادوں کو ہلا دیتی ہے۔
اسلام طلاق کو مکمل طور پر روکتا نہیں ہے لیکن اس سے پہلے صلح کی کوشش کا حکم دیتا ہے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَ حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهَاۚ-اِنْ یُّرِیْدَاۤ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَیْنَهُمَاؕ-
(پ5،النسآء:35)
ترجمہ:اگر تم کو میاں بیوی کے جھگڑے کا خوف ہو تو ایک مُنْصِف مرد کے گھر والوں کی طرف سے بھیجو اور ایک مُنْصِف عورت کے گھر والوں کی طرف سے (بھیجو)یہ دونوں اگر صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان اتفاق پیدا کر دے گا۔
الغرض اسلام پہلے اصلاح و درگزر کا درس دیتا ہے، لیکن جب کوئی چارہ باقی نہ رہے تو پھر طلاق کی اجازت دیتا ہے تاکہ ظلم اور نا انصافی سے بچا جا سکے، لہٰذا میاں بیوی کو چاہیے کہ ہمیشہ اپنے معاملات کو سمجھ داری سے حل کرنے کی کوشش کریں۔
طلاق کے خاندان پر اثرات
بنتِ محمد عمران مدنیہ
(جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ گرلز آفندی ٹاؤن حیدر آباد)
ایک اچھا اور پُرسکون ماحول خاندان پر اچھا اثر چھوڑتا ہے۔جبکہ طلاق کی وجہ سے خاندان پر اچھے اثرات نہیں پڑتے۔ طلاق اگرچہ ایک معقول وجہ پر واقع ہو مگر اس کے برے اثرات سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ہمارے معاشرے میں طلاق ایک سنگین مسئلہ ہے اور وقت کے ساتھ شرح طلاق میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔معاشرے میں جہاں طلاق کو برا سمجھا جاتا ہے وہیں طلاق یافتہ خواتین کو الگ طبقہ شمار کیا جا تا ہے۔
طلاق کے اثرات میاں بیوی کے ساتھ ساتھ خاندان پر بھی پڑتے ہیں۔مگر اولاد پر اس کے منفی اثرات زیادہ ہوتے ہیں۔بچے والدین کی جدائی کو برداشت نہیں کر پاتے اور ان کے جذبات کو سخت تکلیف پہنچتی ہے۔بچے والدین کی مکمل توجہ مانگتے اور ماں اور باپ سے پیار و محبت چاہتے ہیں۔والدین کے زیر سایہ اور شفقت میں ہی اولاد ذہنی اور اخلاقی خوبیوں اور صلاحیتوں کے ساتھ پروان چڑھتی ہے۔نیز اولاد میں اتنی سمجھ اور قابلیت نہیں ہوتی کہ وہ والدین میں ہونے والی طلاق کے اسباب کو سمجھ سکیں۔لہٰذا طلاق کی صورت میں اولاد کا والدین سے تعلق کمزور ہو جاتا ہے۔ماں باپ اور اولاد میں جو تعلق ہونا چاہیے وہ قائم نہیں رہتا۔بچوں کو اس بات کا بھی ڈر ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے جس سے ان کے مستقبل میں تعلقات کی نوعیت پر سوالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ طلاق کے بعد بچوں کی تعلیمی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اسکول اور دوستوں میں بچے خود کو کمتر محسوس کرتے اور عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں۔مزید یہ کہ بچے ذہنی بیماریوں کا شکار ہوکر نفسیاتی مسائل کا سامناکرتے ہیں اور ان کے ذہنوں میں یہ سب ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتا ہے۔مرد اور عورت پر اس کے اثرات کچھ اس طرح ظاہر ہوتے ہیں کہ انہیں معاشی، جذباتی اور ذہنی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔طلاق کے منفی اثرات اس وقت مزید بڑھ جاتے ہیں جب اردگرد کے لوگ خاموش رہیں،انہیں سمجھانے اور سنبھالنے کے بجائے الٹے سیدھے سوالات کریں اور انہیں سہارا دینے کے بجائے ان پر الزامات لگاتے ہیں۔
اس کے علاوہ طلاق کے بعد مرد و عورت کو معاشرتی سطح پر تنقید اور اعتراضات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے سبب ان کے معاشرتی تعلقات میں خلل پیدا ہوتا ہے؛ان میں خود اعتمادی کی کمی پیدا ہو جاتی ہے،یہ اپنی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے انجام نہیں دے پاتے،یوں ان کے معمولاتِ زندگی بہت خراب ہو جاتے ہیں،ان حالات کی وجہ سے یہ افراد ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں،ان میں غصہ اور چڑچڑاپن جیسے جذبات جنم لیتے ہیں، ان کے اس رویے سے خاندان کے دیگر افراد بھی متاثر اور پریشان ہو جاتے ہیں، خاندان کے افراد کو خاندان میں پیدا ہونے والی کشمکش اور جذباتی اتار چڑھاؤ کا سامنا ہوتا ہے۔
خاندان کے فلاح و بہبود پر بھی اثرات پڑتے ہیں اور خاندانی توازن قائم نہی رہتا۔الغرض طلاق ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور طلاق کے اثرات سے نمٹنے کے لئے معاشرتی،قانونی اور نفسیاتی امداد کی ضروت ہوتی ہے تاکہ طلاق کے اثرات خاندان پر کم سے کم پڑیں۔


Comments