سلسلہ: بزرگ خواتین کے سبق آموز واقعات
موضوع: یہ کیسا لباس ہے؟
*محترمہ اُمِّ سلمہ عطاریہ مدنیہ
اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہُ عنہا نے اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی موجودگی میں ایک عورت کے بارے میں کہا:یہ لمبے دامن والی ہے۔تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو کچھ تیرے منہ میں ہے نکال پھینک۔ چنانچہ انہوں نے حضور کے حکم پر اپنے منہ میں کچھ محسوس کر کے اسے باہر نکالا تو وہ گوشت کا ایک ٹکڑا تھا۔([1])
معلوم ہوا کہ کسی کی غیر موجودگی میں اس کے لباس کی برائی بیان کرنا بھی غیبت میں داخل ہے، جبکہ اگر اس کے سامنے ایسا کہا جائے تو یہ دل دکھانے کا باعث ہو اور کسی مسلمان کی غیبت کرنے اور اس کا دل دکھانے کی شریعت میں ہرگز اجازت نہیں۔ہاں!اگر کسی کا لباس غیر شرعی ہو تو نرمی سے سمجھانے میں حرج نہیں، نیز اگر معلوم ہو یا ظنِّ غالب ہو کہ سمجھانے سے وہ مان جائے گی تو اصلاح کرنا واجب ہوگا۔
عام طور پر ہم سے ملنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہمارے ظاہری حلیے،لباس اور پہننے اوڑھنے کی بنیاد پر ہی ہمیں جانچ رہی ہوتی ہے۔ایک زمانہ تھا کہ جب خوبصورت لباس پہننا صرف خواتین کے ساتھ مخصوص تھا لیکن اب مرد بھی اس معاملے میں خواتین کی گویا برابری کرتے نظر آتے ہیں اور یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ لباس کی زیب و زینت کا خیال رکھنا عورتوں میں زیادہ ہے یا مَردوں میں!فیشن اور باڈی ٹائپ کے مطابق لباس پہننا اتنا ضروری سمجھ لیا گیا ہے کہ اگر کوئی اس معیار پر پورا نہ اترے تو اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
معاشرتی طور پر بنائے گئے ان فضول اسٹینڈرڈز کے مطابق کپڑے بنوانے میں ایک تو بھاری رقم خرچ ہوتی ہے جو ہر ایک کے بس میں نہیں، دوسرا ہر ایونٹ کے لئے نیا لباس بنوانے کے چکر میں اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے، جبکہ ایسی تقریبات کے لئے بنائے گئے لباس عام روٹین میں پہنے بھی نہیں جاتے بلکہ وارڈروب کی زینت بن کر رہ جاتے ہیں اور اتنی دیر میں فیشن ہی بدل جاتا ہے۔
یاد رکھئے!اعلیٰ و عمدہ لباس سے آپ کا امپریشن تو اچھا ہو گا لیکن جو چیز آپ کو مستقل دلوں پر راج کرنے والا بنائے گی وہ آپ کا اچھا اخلاق ہے۔اگر آپ دوسروں کے ساتھ برے سلوک سے پیش آئیں گی تو آپ کے عمدہ لباس کو وہ بالکل نظر انداز کردیں گی اور آپ کا وہ رویہ یاد رکھیں گے جس نے ان کے دل کو ٹھیس پہنچائی تھی۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ہمیں ایک مُہذَّب اور صاف ستھرے انداز میں رہنا چاہیے اور پردے کی رعایت کے ساتھ خواتین کا زینت اختیار کرنا بھی شرعاً مطلوب ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پہننے اوڑھنے ہی کو مقصدِ زندگی بنا لیا جائے، برینڈڈ ڈریسز کی خریداری کے لئے گھر والوں کو پریشان کیا جائے یا ایک تقریب میں پہنا گیا لباس دوسری تقریب میں پہننا خلافِ شان سمجھا جائے۔ مت بھولئے کہ آخرت میں حساب بھی دینا ہے۔اس لئے کپڑے بنواتے وقت کفایت شعاری اور سمجھ داری سے ایسے لباس بنوائیے جو بعد میں استعمال بھی کئے جا سکیں۔جو کپڑے آپ کے پہننے میں نہیں آ رہے وہ دوسروں کو دے دیجئے۔اپنا اخلاق اور کردار ایسا رکھئے کہ خواتین کی توجہ آپ کے لباس پر نہیں بلکہ آپ کی ذات پر ہو۔اللہ پاک ہمیں لباسِ تقویٰ عطا فرمائے۔
آمین بِجاہِ خاتمِ النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ملیر کراچی

Comments