ہمدردی
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ: اخلاقیات

موضوع: ہمدردی

*ام انس عطاریہ

ہمدردی فارسی زبان کے دو الفاظ ہم اور درد سے مرکب ہے۔درد کے معنی دکھ اور تکلیف کے ہیں جبکہ لفظ ہم شریک کے معنی میں ہے۔لہٰذا ہم دردی کا معنی ہوا:آپس میں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا۔

اسلام دوسروں سے ہمدردی کی تعلیم دیتا ہے، دینی فوائد ہوں یا دنیوی منافع، دوسروں کی فکر کرنا اور بھلائی چاہنا اسلام کی روشن تعلیمات کا حصہ ہے۔حضور نبی کریم   صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  صحابہ کے لئے فکرمند رہتے تو ایمان نہ لانے والے کافروں کی ہدایت کے لئے بھی انتہائی غمگین رہا کرتے تھے، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے:

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا(۶)

(پ 15، الکہف: 6)

ترجمہ:اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو ہوسکتا ہے کہ تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کو ختم کر دو۔

حالانکہ مشرکینِ مکّہ آپ کو اور آپ کے غلاموں کو پریشان کرتے اور ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے تھے، اس کے باوجود حضور ان کے ایمان نہ لانے کے باعث انتہائی غمزدہ رہا کرتے۔

خود غرض انسان صرف اپنا بھلا چاہتا ہے، خواہ اس سے دوسروں کو نقصان پہنچتا ہو، جبکہ ہمدرد سب کی بھلائی چاہتا  اور دوسروں کو خود پر ترجیح دیتا ہے اور یہی مومنانہ وصف ہے جسے قرآن نے یوں بیان کیا ہے:

وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ

(پ 28، الحشر: 9)

ترجمہ: اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو۔

مخلوقِ خدا پر ایثار و ہمدردی کرنا بھی عبادت ہی ہے،جیسا کہ امام فخرُ الدین رازی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: جن و انس کی پیدائش جس عبادت کے لیے کی گئی وہ دو طرح کی ہے:پہلی حکمِ الٰہی کی تعظیم اور دوسری مخلوقِ خدا پر شفقت۔ ([1])

اکثر اسلامی احکام میں ہمدردی اور غریب پروری کا تصور واضح نظر آتا ہے،مثلاً زکوٰۃ کہ امیر اپنے مال کا 40 واں حصہ نکال کر غریب و نادار مسلمان کو دے تاکہ اس کی مدد ہو۔ اسی طرح قربانی کہ اس میں بھی بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کر کے ایک حصہ غریبوں کو دیا جائے۔نیز سود حرام ہونے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس سے انسانی طبیعت میں درندوں سے زیادہ بے رحمی پیدا ہو جاتی ہے اور سود خور اپنے مقروض کی تباہی و بربادی کا خواہش مند رہتا ہے([2])اور انسانی ہمدردی اس سے رخصت ہو جاتی ہے۔  

ان احکامات کے علاوہ ہمدردی کی بعض ایسی مثالیں بھی ہیں جو اخلاقِ حسنہ اور حسنِ معاشرت کے طور پر اسلامی اقدار و روایات کا حصہ ہیں،لہٰذا اسلامی تعلیمات کی رُو سے ہمدردی کی چند صورتیں یہ ہیں:

بھوکے کو کھانا کھلانا اور پیاسے کو پانی پلانا:

ایک روایت میں بھوکے کو کھانا کھلانے والے کو قیامت کے دن یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ اللہ پاک اسے اپنے عرش کا سایہ عطا کرے گا۔([3])    جبکہ ایک روایت کے مطابق جو کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلائے اللہ پاک بروزِ قیامت اسے جنت کے پھل کھلائے گا اور جو کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلائے تو اللہ پاک اسے رحیقِ مختوم یعنی جنت کی سربند شراب پلائے گا۔([4])

غریبوں، بے کسوں کے کام آنا:

مکہ مکرمہ سے مسلمان بےسر و سامانی کے عالم میں اپنا گھر بار، کاروبار چھوڑ کر جب مدینے پاک پہنچے تو انصار نے کمال ہمدردی کا مظاہرہ کیا جس کی مثال ملنی مشکل ہے،مگر یہاں تو حال یہ ہے کہ غریب رشتہ داروں سے ہمدردی تو دور کی بات ان کی طرف نظر تک نہیں کی جاتی ۔

مریض کے ساتھ ہمدردی:

مریض کے ساتھ ہمدردی کی ترغیب ایک روایت میں کچھ یوں دلائی گئی ہے کہ مریض کی عیادت کرنے والے کے لئے دو فرشتے مقرر کئے جائیں گے جو قیامت تک اس کی قبر میں اس کی عیادت کریں گے۔([5])

تعزیت کرنا:

کسی کا کوئی قریبی فوت ہو جائے،کاروبار میں نقصان ہو جائے یا چوری ڈکیتی کی واردات ہو جائے یا وہ کسی اور مصیبت کا شکار ہو جائے تو جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے اس کے لئے اس مصیبت زدہ جیسا ثواب ہے۔([6])

نیکی کی دعوت دیجئے:

مسلمانوں کی اخروی بھلائی اور ہمدردی کی ایک صورت نیکی کی دعوت دینا بھی ہے،لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہمدردی کرتے ہوئے مسلمانوں کو نیکی کی دعوت دیں اور سب سے پہلے یہ ہمدردی اپنے گھر سے شروع کریں بچوں کو جس فکر کے ساتھ اسکول کے لیے جگاتی ہیں کہ بچوں کا مستقبل روشن ہو،اسی طرح ان کی آخرت سنوارنے کی بھرپور کوشش کریں، صبح نمازِ فجر کے لیے جگائیں،فرائض کی پابندی کرنا اور سنتیں اپنانا سکھائیں۔ اسی طرح خاندان والوں، پڑوسیوں اور سہیلیوں پر بھی ہمدردی کرتے ہوئے انہیں نیکی کی دعوت دیں۔

ہمارے بزرگوں کا مسلمانوں سے ہمدردی کا جذبہ   کمال کا تھا، اس کی ایک جیتی جاگتی مثال امیرِ اہلِ سنت کی ذاتِ مبارکہ ہے،الحمدُ للہ آپ مجموعی طور پر تمام مسلمانوں سے محبت فرماتے ہیں،تحریرات،مدنی چینل اور ہفتہ وار مدنی مذاکروں میں مسلمانوں کی خیر خواہی پر مبنی باتیں آپ کی مسلمانوں سے محبت اور ہمدردی کی واضح مثالیں ہیں۔

ہمدردی صرف انسانوں کے ساتھ نہیں بلکہ جانوروں اور دیگر مخلوقات کے ساتھ بھی ہونی چاہیے، رب العالمین بےنیاز ہے جس بات پر چاہے پکڑ فرما لے اور جس بات کو چاہے بخش دے۔کئی ایسے واقعات اور مثالیں ملتی ہیں جن میں جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کے ساتھ کی جانے والی ہمدردی کے فوائد کا ذکر ہے، مثلاً

حضرت امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی   رحمۃ اللہ علیہ  کو کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا:اللہ پاک نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ جواب دیا: اللہ پاک نے مجھے اپنی بارگاہ میں کھڑا کیا اور ارشاد فرمایا: تم میری بارگاہ میں کیا لائے ہو؟میں نے مختلف عبادات کا ذکر کیا تو   اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:تم ایک مرتبہ بیٹھے لکھ رہے تھے کہ ایک مکھی تمہارے قلم پر  آگئی تو تم نے اس پر رحم کرتے ہوئے سیاہی چوسنے کے لیے اسے چھوڑ دیا اور کچھ نہ کہا پس اسی کی وجہ سے میں آج تم پر رحم کرتا ہوں۔ جاؤ! میں نے تمہیں بخش دیا۔([7])

ہمدردی کے فوائد:

ہمدردی میں دینی و دنیوی بہت سی بھلائیاں پوشیدہ ہیں،مثلاً ہمدردی کرنے والی کو اپنے سوشل سرکل میں خوب عزت و محبت ملتی ہے۔خاندان میں بھی عزت و اہمیت بڑھتی ہے۔ہمدردی کرنے والی اگر کسی کو نیکی کی دعوت دے تو جلد اثر ہوتا ہے۔ہمدردی کرنے والی کی اولاد پر بھی اس کا عکس پڑتا ہے اور وہ بھی ہمدردی کی صفت سے آراستہ ہوتی ہے۔ نیز ہمدردی  کرنے والی سے بھی ہمدردی کی جاتی ہے۔

ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنے کا طریقہ:

اپنے اندر ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے اچھی صحبت کو اپنے اوپر لازم کر لیجیے۔ بزرگوں کے واقعات پڑھئے  اور سنیئے،بالخصوص سیرتِ مصطفیٰ کا مطالعہ لازمی کر لیجئے۔مکتبۃ المدینہ کی شائع کردہ سیرت کی کتابیں آسان انداز میں لکھی جاتی ہیں،انہیں اپنے گھر کی زینت بنائیے اور ان کی برکتیں حاصل کیجئے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* رکن انٹرنیشنل افئیرز ڈیپارٹمنٹ



[1] تفسیر کبیر،10/193

[2] تفسیر صراط الجنان، 1/412

[3] ترغیب و ترہیب، 2/38، حدیث: 22

[4] ترمذی، 4/204، حدیث: 2457

[5] مسند الفردوس،3/ 193، حدیث:4536

[6] ترمذی، 2/338، حدیث: 1075

[7] فیض القدیر، 1/606، تحت الحدیث: 941


Share