موضوع: جھگڑا کروانا
(نئی رائٹرز کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ دو مضمون 42ویں تحریری مقابلے سے منتخب کر کے ضروری ترمیم و اضافے کے بعد پیش کیے جا رہے ہیں۔)
(فرسٹ پوزیشن)محترمہ بنتِ یعفور رضا عطاریہ
(درجہ خامسہ: جامعۃ المدینہ E1 جوہر ٹاؤن لاہور)
جھگڑا کروانا،لوگوں کو لڑوانا،فساد ڈالنا وغیرہ نہایت ہی برے اور شیطانی کام ہیں۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ
(پ 7، المائدۃ: 91)
ترجمہ:شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض و کینہ ڈال دے۔جھگڑا کروانا اور یہ پسند کرنا کہ فلاں کا فلاں سے جھگڑا ہو جائے،ان میں دشمنی ہوجائے شیطان کا کام اور اس کو خوش کرنا ہے نیز جھگڑا کروانے سے مسلمانوں میں دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں اور انہیں نقصان پہنچتا ہے،جبکہ حدیثِ پاک میں ہے:مسلمان وہ ہے جس کی زبان و ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔([1])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
جھگڑا کروانے کے اثرات:
جھگڑا کروانے کے کئی برے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، مثلاً جھگڑا قوموں کو تباہ کر دیتا ہے،دو بھائیوں میں رنجشیں ڈال دیتا ہے یہاں تک کہ وہ سالوں ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے،میاں بیوی کے جھگڑے سے بچوں پر منفی اثر پڑتا ہے بسا اوقات طلاق تک بات پہنچ جاتی ہے اور ایک آباد گھر اجڑ جاتا ہے،دوستی دشمنی میں تبدیل ہوجاتی ہے،جھگڑے کے معاشرے پر بھی بہت برے اثرات پڑتے ہیں،اس سے نا اِتِّفاقیاں،دشمنیاں اور دوریاں پیدا ہوتی اور رشتہ داریاں ٹوٹتی ہیں۔
جھگڑا کروانے کی وجوہات:
جھگڑا کروانے کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں جیسا کہ حسد،چغل خوری کی عادت کہ چغل خور اکثر لوگوں کی ایسی باتیں دوسروں کو بتاتا ہے جس سے فساد اور لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں،اس کے علاوہ بغض و کینہ،بد گمانی، غیبت،الزامات لگانا اور خود غرضی وغیرہ بھی جھگڑا کروانے کے اسباب بنتے ہیں۔
جھگڑا کروانے سے کیسے بچیں؟
اس کے اسباب و وجوہات پر غور کیجئے اور ان سے بچیے،دوسروں کے معاملات سے دور رہیے، قرآن و حدیث میں ذکر کیے گئے جھگڑے اور چغلی و بہتان وغیرہ کے ہولناک عذابات کا مطالعہ کیجئے،حقوق العباد کے معاملے میں اللہ پاک سے ڈریے اور خوفِ خدا پیدا کیجئے،اپنے دل کو مسلمانوں کے لیے صاف رکھیے،بغض و کینہ،دشمنی وغیرہ کو ختم کر دیجئے،لڑائی جھگڑوں کے نقصانات پر غور کیجئے کہ اس سے گھر تک اجڑ سکتے ہیں،بہن بھائیوں کے درمیان ناراضی ہو سکتی ہے،صلح کے فضائل اور انعامات کو پیشِ نظر رکھیے،ذکر اللہ میں مشغول رہیے کہ جب اللہ پاک کی یاد میں مشغول رہیں گی تو کسی کو نقصان پہنچانے سے پہلے اللہ پاک کی پکڑ یاد آئے گی۔اللہ پاک ہمیں مسلمانو ں کو تکلیف پہنچانے سے محفوظ رکھے اور حقوق العباد کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
محترمہ بنتِ محمد آصف اقبال
(درجہ ثانیہ: جامعۃ المدینہ بہارِ شریعت نواب شاہ سندھ)
اسلامی معاشرہ محبت، اخوت اور رواداری پر قائم رہتا ہے اور انہی خوبیوں سے امن و اتحاد پروان چڑھتا ہے۔ جب یہ اوصاف ختم ہو جائیں تو معاشرہ خرابی اور بے سکونی کا شکار ہو جاتا ہے۔ان تباہ کن عادات میں سب سے خطرناک عمل جھگڑا کروانا ہے،جو افراد،خاندانوں اور معاشروں کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام صلح صفائی اور میل جول کی تعلیم دیتا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقے سے بھی افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ نے عرض کی:جی ہاں،ضرور بتائیے!فرمایا:آپس میں روٹھنے والوں کے درمیان صلح کروانا،کیونکہ آپس کا فساد نیکیوں کو جڑ سے کاٹ دیتا ہے۔ ([2])
جھگڑا کروانا ایک نہایت خطرناک اور نقصان دہ عمل ہے، جو دنیا و آخرت دونوں میں بربادی کا سبب بنتا ہے۔عقل مند لوگ اس سے ہمیشہ دور رہتے ہیں۔نیز جھگڑا ایک ایسی بری عادت ہے جس کی نحوست سے خیر و برکت اور رحمت رخصت ہو جاتی ہے۔یہاں تک کہ دو مسلمانوں کے جھگڑے کے باعث شبِ قدر جیسی با برکت رات کا تعین بھی اُمت سے چھپا لیا گیا۔جیسا کہ حضرت عبادہ بن صامت بیان کرتے ہیں کہ حضور شبِ قدر کی رات بتانے تشریف لائے تھے، مگر دو افراد کے جھگڑے کی وجہ سے فرمایا: میں تمہیں شبِ قدر بتانے آیا تھا، مگر فلاں فلاں کے جھگڑنے کی وجہ سے اس کا علم اٹھا لیا گیا۔ پھر ارشاد فرمایا:اب تم اسے رمضان کے آخری عشرے کی نویں، ساتویں اور پانچویں راتوں میں تلاش کرو۔ ([3]) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:معلوم ہوا کہ دنیاوی جھگڑے منحوس ہیں ان کا وبال بہت ہی زیادہ ہے ان کی وجہ سے اللہ کی آتی ہوئی رحمتیں رک جاتی ہیں۔([4])
دینی نقصانات:
اسلام نے ہمیشہ محبت،صلح اور بھائی چارے کی تعلیم دی ہے،جبکہ جھگڑا کروانا ان تعلیمات کے الٹ ہے۔یہ عمل اللہ پاک کی ناراضی کا باعث بنتا ہے،کیونکہ جھگڑا فساد پھیلانے کی طرح ہے۔اس سے حسد،نفرت اور دشمنی کے دروازے کھلتے ہیں،ایمان کی مٹھاس ختم ہو جاتی ہے، دل سخت ہو جاتا ہے اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے والے روزِ قیامت سخت عذاب کے حق دار ہوں گے۔
دنیاوی نقصانات:
جھگڑے کروانے سے خاندان اور رشتے تباہ ہو جاتے ہیں،ماں بیٹی،بہن بھائی اور دوست ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔جھگڑا کروانے والے معاشرے میں بد نام اور نا قابلِ اعتماد ہو جاتے ہیں،جھگڑے اور اختلافات ذہنی دباؤ، بے چینی اور معاشرتی خرابی کو جنم دیتے ہیں،جس سے معاشرے کا امن اور ترقی دونوں برباد ہو جاتے ہیں۔در حقیقت جھگڑا دونوں فریقوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ جھگڑے میں انسان عقل کھو بیٹھتا ہے، عزت بھول جاتا ہے اور نوبت گالی گلوچ، بہتان،مار پیٹ بلکہ طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔یہ عمل نہ صرف دنیاوی نقصان بلکہ روحانی تباہی کا بھی سبب ہے۔
جھگڑے کروانے کے کئی اسباب ہوتے ہیں،جن میں نمایاں یہ ہیں:حسد:دوسروں کی خوشحالی اور کامیابی برداشت نہ کرنا۔ بغض و کینہ: دل میں نفرت اور بدخواہی رکھنا۔فراغت:فارغ اور بے مقصد لوگ اکثر افواہیں پھیلا کر جھگڑے پیدا کرتے ہیں۔ لغوی مشغولیت:فضول باتوں میں وقت ضائع کرنا اور دوسروں کے معاملات میں مداخلت کرنا۔ذاتی مفاد:کسی دشمنی یا ذاتی فائدے کے لیے اختلافات کو ہوا دینا۔یہ تمام چیزیں معاشرتی بگاڑ، ناراضیوں اور تعلقات کے ٹوٹنے کا سبب بنتی ہیں۔
جھگڑے سے بچنے کے فائدے:
جھگڑوں سے بچنے کے بے شمار فائدے ہیں۔جو انسان صلح پسند اور امن قائم رکھنے والا ہو،وہ اللہ پاک کی رضا اور محبت حاصل کرتا ہے۔ایسا انسان ہمیشہ دل کے سکون اور اطمینان سے رہتا ہے، معاشرے میں عزت و اعتماد کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور آخرت میں بڑے اجر و انعامات کا حق دار بنتا ہے۔
الغرض جھگڑا کروانا ایک ایسی بدترین برائی ہے جس سے ہر صورت بچنا چاہیے۔ایک کامل مومن کو جھگڑے کے بجائے لوگوں کے درمیان صلح کروانا چاہیے۔ ایک پرامن، خوشحال اور مضبوط معاشرے کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ ہم جھگڑا کروانے جیسی برائی سے بچیں اور لوگوں کے درمیان محبت اور اتحاد کی فضا قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
[1] بخاری،1/15،حدیث:10
[2] ابو داود، 4/365، حدیث: 4919
[3] بخاری،1/663، حدیث:2023
[4] مراۃ المناجیح،3/210
Comments