موضوع:یتیموں سے بدسلوکی
(نئی رائٹرز کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ دو مضمون 39ویں تحریری مقابلے سے منتخب کر کے ضروری ترمیم و اضافے کے بعد پیش کیے جا رہے ہیں۔)
اُختِ ثناء اللہ (اول پوزیشن)
(درجہ: ثانیہ،فیضانِ اُمِّ عطار گلبہار سیالکوٹ)
ہمارے معاشرے میں جہاں بہت سی اخلاقی خرابیاں اور غیرشرعی امور پائے جارہے ہیں انہی میں سے ایک یتیموں کے ساتھ بد سلوکی بھی ہے۔زمانہ جاہلیت میں یتیموں کے ساتھ بد سلوکی کی جاتی تھی ان کا حق ضائع کیا جاتا تھا،ان کو دھکے دیئے جاتے تھے،یہ طریقہ کفار کا ہے نہ کہ مسلمانوں کا۔ قرآنِ کریم میں کفار کے اس طریقے کی نشان دہی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:
فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَۙ(۲) (پ30،الماعون:2)
ترجمہ:پھر وہ ایسا ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔
اس آیت میں دین کو جھٹلانے والے کا طرزِ عمل ذکر کیا گیا ہے،جبکہ اسلامی تعلیمات اس کے بالکل الٹ ہے،شریعت ہمیں بیواؤں،رشتے داروں اور بالخصوص یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیتی ہے اور اس پر بشارتیں بھی سناتی ہے، جیسا کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے: پھر اپنی شہادت والی اور درمیان والی انگلی سے اشارہ فرمایا اور انہیں کچھ کشادہ کیا۔([1])
سبحان اللہ !یتیموں کے ساتھ اچھے سلوک کی کیا ہی بہاریں ہیں۔اے عاشقاتِ رسول!ذرا حدیثِ پاک میں بیان کردہ ان الفاط پر غور فرمائیے!یہ کتنے خوبصورت الفاظ ہیں کہ حضور نے یتیموں کی کفالت کرنے والوں کو جنت میں اپنے قریب ہونے کی خوش خبری سے نوازا جا رہا ہے۔
معاشرتی سلوک:
ہمارے معاشرے میں یتیم کے ساتھ بہت ہی برا سلوک کیا جاتا ہے،خصوصاً ان کی جائیداد کے حوالے سے ان کے ساتھ بڑی ناانصافی کی جاتی ہے، عموماً یتیم بچوں کی ان کے چچا یا تایا وغیرہ کفالت کرتے ہیں،ان میں سے اکثر کی نظر ان کے مال کی طرف ہوتی ہے وہ یتیم بچوں کو اسی لئے رکھتے ہیں کہ کل کو ان کی جائیداد پر قبضہ کر سکیں،ایسے لوگوں کو اللہ پاک سے ڈرنا چاہیے،کیونکہ یتیم کے مال کو قرآنِ کریم میں آگ سے تشبیہ دی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًاؕ-وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4، النسآء:10)
ترجمہ:بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آگ بھرتے ہیں اورعنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آ گ میں جائیں گے۔
نقصانات:
یتیموں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کا دنیا و آخرت میں بہت برا انجام ہوگا،دنیا میں تو سزا یہ ہے کہ ظلم کرنے کی وجہ سے ان کا دل سخت ہو جائے گا اور وہ اس کے سبب ہدایت سے محروم رہ جائیں گے اور آخرت میں انجام کے متعلق روایت میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں نے معراج کی رات ایسی قوم دیکھی جن کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں کی طرح تھے اور ان پر ایسے لوگ مقرر تھے جو ان کے ہونٹوں کو پکڑتے،پھر ان کے مونہوں میں پتھر ڈالتے جو ان کے پیچھے سے نکل جاتے،میرے پوچھنے پر جبرائیل نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے تھے۔([2]) یاد رہے! یتیم کا مال ناجائز طریقے سے کھانا، استعمال کرنا اور اس میں کمی کرنا حرام ہے۔اللہ کریم ہمیں یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
اُختِ فیصل خان
(درجہ: ثانیہ،جامعۃ المدینہ فیضانِ اُمِّ عطار گلبہار سیالکوٹ)
یتیم کون؟ ہر وہ نابالغ بچہ یا بچی جس کا باپ فوت ہو جائے وہ یتیم ہے۔جہاں ہمارے معاشرے میں اور کئی برائیاں بڑی بہادری کے ساتھ کی جارہی ہیں وہیں یتیموں کے سا تھ برا سلوک بھی عام بات سمجھی جارہی ہے، بہت کم گھر ایسے ہیں جہاں یتیموں کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہو، ورنہ تقریباً اکثر گھروں میں یتیموں کے ساتھ برا سلوک کیا جا رہا ہے،ان پر ظلم،تشدد،کام کی زیادتی، یتیم کے سامنے اپنے بچوں سے محبت کر کے انہیں احساسِ کمتری دلانا، اپنے بچوں کی ہر خواہش کو پورا کر نا اور ان کی ضروریاتِ زندگی کی چیزیں بھی انہیں فراہم نہ کرنا اور انہیں طعنے دینا، ان پر احسان جتلانا یہ سب عام ہے۔
یتیم کے مال کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھا جاتا ہے۔بعض لوگ تو اپنے کسی یتیم رشتے دار کو رکھتے ہی اس لئے ہیں کہ اس کی جائیداد پر قبضہ کیا جاسکے۔بالغ ہو کر اگر وہ اپنا حق یعنی مال، جائیداد وغیرہ کا مطالبہ کرتا ہے، تو نہیں دیا جاتا،ایسے لوگوں کے متعلق قرآنِ مجید میں ہے:
وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ ۪-وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْؕاِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِیْرًا(۲)(پ4، النسآء: 2)
ترجمہ:اور یتیموں کو ان کے مال دیدو اور پاکیزہ مال کے بدلے گندا مال نہ لو اور ان کے مالوں کو اپنے مالوں میں ملا کر نہ کھا جاؤ بیشک یہ بڑاگناہ ہے۔
یاد رکھیے!یتیم کا مال کھانا یا اس میں کمی کرنا گناہ و حرام ہے جو ہمارے معاشرے میں عام ہوتا جارہا ہے۔نیز آج کل جہاں یتیم کے مال پر قبضہ کر نا عام ہے وہیں ان پر ان کی طاقت و قوت سے زائد بوجھ ڈالنا بھی عام ہے،ان کی پڑھنے لکھنے کی چھوٹی عمر میں ان سے گھر کے کاموں کے ساتھ باہر کے کاموں کا بھی بوجھ ڈالا جا رہا ہوتا ہے۔قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:
فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ(۹) (پ 30،ا لضحی:9)
ترجمہ:تو کسی بھی صورت یتیم پر سختی نہ کرو۔
اس آیت سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو یتیموں پر ناحق بوجھ ڈالتے ہیں۔
بہترین و بد ترین گھر:
فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم: مسلمانوں کے گھروں میں سے سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے سا تھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں سب سے بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے سا تھ بدسلوکی کی جاتی ہو۔([3])
ہر ایک کو اس حدیثِ پاک کو مدِّنظر رکھتے ہوئے غور کرنا چاہیے کہ کس کا گھر بدترین اور کس کا بہترین ہے۔اسی طرح کئی روایات میں ہمیں یتیم کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اچھا سلوک کرنے والوں کو خوشخبری سے نوازا گیا ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے:جو یتیم کے سر پر اللہ پاک کی رضا کے لئے ہاتھ پھیرے تو جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ گزرا ہر بال کے بدلے اس کے لئے نیکی ہے اور جو یتیم لڑکی یا یتیم لڑکے کے ساتھ بھلائی کرے (دو انگلیوں کو ملا کر فرمایا) میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے۔([4])
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ ثواب تو خالی ہاتھ پھیرنے کا ہے جو اس پر مال خرچ کرے ، اس کی خدمت کرے،اسے تعلیم و تربیت دے سوچ لو کہ اس کا ثواب کتنا ہو گا۔([5])اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں یتیموں کے سا تھ اچھا سلوک کرنے اور ان پر شفقت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
[1] بخاری،3/497،حدیث:5304
[2] تفسیر قرطبی، 3/39
[3] ابنِ ماجہ، 4/193، حدیث:3679
[4] مسند امام احمد، 36/474، حدیث:22153
[5] مراۃ المناجیح، 6/562

Comments