حقوق کی ادائیگی
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن


موضوع: حقوق کی ادائیگی

 اللہ  پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا،تمام جہان انسان کے لئے اور انسان کو اپنی بندگی اور عبادت کے لئے پیدا فرمایا،پھر جس کا رتبہ جتنا بڑا،اس کی ذمہ داریاں بھی اتنی زیادہ۔ اختیارات جتنے وسیع ہوتے ہیں ان کی پوچھ گچھ بھی اتنی ہی سخت ہوتی ہے۔ انسان کو کائنات کی سب سے اعلیٰ مخلوق بنایا گیا تو اس کو دو طرح کے حقوق کی ادائیگی کا پابند بھی بنایا گیا۔ یعنی حقوق  اللہ  اور حقوق العباد۔حقوق العباد کا معاملہ سخت تر ہے۔ روایت میں ہے کہ  اللہ  پاک کے نزدیک دفتر تین ہیں: ایک دفتر کی  اللہ  پاک کو کچھ پروا نہیں،ایک دفتر کو  اللہ  پاک کچھ نہ چھوڑے گا اور ایک دفتر کو  اللہ  پاک کچھ نہ بخشے گا۔ وہ دفتر جس کو  اللہ  پاک کچھ نہ بخشے گا وہ شرک ہے۔وہ دفتر جس کی  اللہ  پاک کو کچھ پروا نہیں وہ بندے کا اپنے اور اپنے رب کے معاملے میں خود پر ظلم کرنا ہے جیسے کسی دن کا روزہ چھوڑا یا کوئی نماز چھوڑی تو  اللہ  پاک چاہے تو اسے معاف کر دے اور  چاہے تو درگزر فرمائے۔ وہ دفتر جس میں  اللہ  پاک کچھ نہ چھوڑے گا وہ بندوں کا آپس میں ایک دوسرے پر ظلم ہے کہ اس میں ضرور بدلہ ہونا ہے۔([1]) کسی کو اس کے حق سے محروم کرنا،حق دار کو اس کا حق نہ دینا ظلم ہے۔

حقوق کی وضاحت: اسلام کی روشن تعلیمات میں ہر ایک کے حقوق واضح بیان کیا گیا ہے،البتہ!ان حقوق کے درجے مختلف ہیں،مثلاً:والدین کے حقوق،خونی و دیگر رشتے داروں کے حقوق، پڑوسی،محلے دار اور عام مسلمانوں کے حقوق،اسی طرح غیر مسلم یہاں تک کہ جو تھوڑی دیر کے لئے ہمارے ساتھ بیٹھی ہو اس کے بھی حقوق اسلام نے بیان کیے ہیں۔

حقوق کی ادائیگی میں کچھ تفصیل ہے کہ سب سے پہلا حق کس کا ہے،پھر اس کے بعد کس کا؟صحابہ کرام اس معاملے میں بہت زیادہ حساس تھے اور پیارے آقا  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم سے سوالات کیا کرتے تھے،جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے حضور  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم  سے عرض کی:یا رسول  اللہ ! میرے اچھے برتاؤ کا زیادہ حق دار کون ہے؟ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔اس نے تین بار یہی عرض کی تو ہر بار حضور نے یہی فرمایا:تمہاری ماں۔پھر چوتھی بار یہی پوچھنے پر ارشاد فرمایا: تمہارا باپ۔([2])

معلوم ہوا کہ ایک عام مسلمان پر  اللہ  و رسول کے بعد سب سے زیادہ حق اس کے ماں باپ کا ہے،لیکن یاد رہے! عورت پر مرد کا حق خاص امورِ متعلقۂ زوجیت میں  اللہ  و رسول کے بعد تمام حقوق حتّٰی کہ ماں باپ کے حق سے زائد ہے۔([3]) والدین کے بعد بالترتیب نسبی رشتہ دار،پھر دیگر رشتہ دار،پھر پڑوسی و محلہ دار اور دیگر عام مسلمانوں کے حقوق لاگو ہوتے ہیں۔نبی پاک  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم  نے ارشاد فرمایا:ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں: سلام کا جواب دینا،چھینک کا جواب دینا،دعوت قبول کرنا،بیمار کی عیادت کرنا اور جنازوں کے پیچھے چلنا۔([4])

سلام اور چھینک کا جواب دینا لازم ہے مگر اس کی درست معلومات نہ ہونے کی وجہ سے سلام کا جواب درست طریقہ سے نہیں دیا جاتا اور چھینک کا جواب تو اکثر کو معلوم ہی نہیں ہوتا یوں ان حقوق کی ادائیگی سے محرومی ہو جاتی ہے۔

یہ مقامِ غور ہے کہ کیا ہم اپنی ذات سے وابستہ تمام حقوق ادا کرتی ہیں؟اپنے والدین،شوہر اور اولاد وغیرہ کے حقوق کی ادائیگی میں ہم سے کوئی کمی تو نہیں رہتی؟اگر ایسا ہے تو یاد رکھیے! حقوق العباد کا معاملہ نہایت سخت ہے۔حقوق کی ادائیگی میں کمی کل بروزِ قیامت سخت نقصان کا باعث ہوسکتی ہے۔ کہ یہ کمی بروزِ قیامت نیکیوں سے پوری کی جائے گی،اگر اس سے بھی کمی پوری نہ ہوئی تو حق والوں کے گناہ لاد کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔([5])

ہمارے بزرگ حقوق کی ادائیگی کا بہت خیال رکھتے تھے اور اس معاملے میں بہت فکرمند رہتے تھے، مگر افسوس!آج ہمارا معاملہ ہی الٹ ہے!اپنا حق لینے کی فکر ہوتی ہے مگر دوسروں کا  حق ادا کرنے کی نہیں،یہی وجہ ہے کہ کثرت سے گھر ٹوٹ رہے ہیں،طلاقیں ہو رہی ہیں،میاں بیوی کے درمیان جدائیاں ہو رہی ہیں،شکوہ یہی ہوتا ہے کہ مجھے میرے حقوق نہیں ملتے، نان نفقہ میں کمی ہو جائے تو خاندان بھر میں شور ہو جاتا ہے، پہلے کی خواتین حقوق نہ ملنے پر صبر کرتی تھیں اور ثواب کمانے کے ساتھ ساتھ گھر بھی چلاتی تھیں،بالآخر چند دن کی مشکل کے بعد آسانی آہی جاتی تھی،مگر اب تو معاشرے میں ایک عجیب افراتفری پھیلی ہوئی ہے،بس مجھے میرے حقوق چاہئیں!حالانکہ اپنے حقوق لینے سے زیادہ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے فکرمند ہونا  چاہیے کہ اگر میرا حق مجھے نہ ملا   تب بھی آخرت میں میرا اس سے کچھ نقصان نہیں لیکن اگر میں نے اپنے حقوق کی ادائیگی نہیں کی اور بروزِ قیامت اس معاملے میں میری پکڑ ہوگئی تو کیا ہوگا!اتنی نیکیاں تو پلے ہیں نہیں جن سے لوگوں کے حقوق پورے ہوسکیں اور اس دن کسی کے گناہ اپنے سر لینا کتنا بڑا وبال ہوگا!

حقوق کی ادائیگی کے فوائد:حقوق  اللہ  کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کے بےشمار فائدے ہیں،ان میں سے چند پیشِ خدمت ہیں:چاہے سسرال ہو یا میکا، شوہر ہو یا باپ بھائی آپ کی اس عادت سے ان کے دلوں میں آپ کا مقام پیدا ہوگا،ان کی نگاہ میں آپ کی عزت و اہمیت بڑھے گی،آپ کو خود اپنا حق مانگنے کی حاجت ہی نہیں پڑے گی دوسرے خود ہی آپ کے حقوق کا خیال کریں گے،دشمن دوست ہو جائیں گے،آپ سب کا خیال رکھیں گی تو سب آپ کا خیال رکھیں گے۔

گھروں کے سکون اور معاشرے کی خوبصورتی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ ہر کوئی اپنے حقوق کی ادائیگی میں سنجیدہ ہو جائے، یہ نہ سوچے کہ مجھے میرا حق ملتا ہے یا نہیں۔اگر ہم میں سے ہر کوئی اپنے حقوق کی ادائیگی کو اپنے اوپر لازم کر لے تو یقین کیجئے گھروں کا ماحول بہت بہترین ہو جائے گا،معاشرے میں سدھار پیدا ہو جائے گا،ساس بہو کے جھگڑے ختم ہو جائیں گے، نند بھاوج کی ٹھنی ہوئی بن جائے گی، میاں بیوی کی لڑائیاں ختم ہو جائیں گی،والدین خوش ہو جائیں گے،ساس سسر دعائیں دیتے نظر آئیں گے، بچے والدین کے فرمانبردار ہو جائیں گے، پڑوسی اپنے پڑوسی سے رشتہ دار سے زیادہ محبت کرنے لگیں گے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے فوائد ہیں بس تجربہ شرط ہے۔

ذہن کیسے بنے؟ کوئی بھی کام کرنے کے لئے اس کا علم ہونا ضروری ہے، لہٰذا سب سے پہلے یہ علم ہونا چاہیے کہ کس کے کیا حقوق ہیں!اس کے لئے دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہونا بہت مفید ہے،سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کیجئے،مدنی مذاکرہ غور سے دیکھیے اور سنیے، ان شاء  اللہ   اس کے ذریعے آپ کو حقوق کی ادائیگی کے آسان طریقے ملیں گے اور دل میں تبدیلی محسوس ہوگی۔مکتبۃ المدینہ سے شائع کردہ 63 نیک اعمال کے رسالے میں نیک بننے کے کئی سوالات ایسے ہیں جو آپ کو حقوق کی ادائیگی کی طرف مائل کریں گے،چاہے وہ حقوق  اللہ  ہو ں یا حقوق العباد۔  ان شاء  اللہ   اس نیک اعمال کے رسالے کو روزانہ پُر کرنے کی برکت سے دنیا اور آخرت میں بیڑا پار ہوگا۔  

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* رکن انٹرنیشنل افئیرز ڈیپارٹمنٹ



[1] مسند امام احمد،43/156،155،حدیث:26031

[2] بخاری، 4/93، حدیث: 5971

[3] فتاویٰ رضویہ،24/380

[4] مسلم، ص 918، حدیث: 5650

[5] مسلم، ص 1069، حدیث: 6579 ملخصاً


Share