موضوع:شرح قصیدۂ معراجیہ (قسط 6)
22
عجب نہ تھا رخش کا چمکنا غزال دَم خوردَہ سا بھڑکنا
شعاعیں بکے اُڑا رہی تھیں تڑپتے آنکھوں پہ صاعقے تھے
مشکل الفاظ کے معانی: عجب: عجیب۔ رخش: چہرہ۔ غزال: ہرن۔ دم خوردہ:جس نے شراب پی رکھی ہو۔بُکے اڑانا:دھواں کی طرح روشنی کا اکٹھے نکلنا۔ صاعقے: بجلی کا کوندنا اور چمکنا۔
مفہومِ شعر:نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جب براق پر سوار ہوئے تو اس کے چہرے کا چمکنا اور شراب میں مست ہرن کی طرح پھڑکنا کوئی عجیب نہیں تھا کہ اس وقت ہر طرف نور ہی نور تھا، ہر طرف روشنی تھی جیسے بجلی چمک رہی ہو۔
شرح: معراج کی رات جب حضور براق پر سوار ہوئے تو اس کا چہرہ چمک رہا تھا اور وہ ایسے شوخیاں دکھا رہا تھا کہ جیسے شراب میں مست ہرن ہو اور یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ وہ وقت ہی ایسا تھا کہ ہر طرف سے تیز روشنی کی شعاعیں بُکے اڑا رہی تھیں اور آنکھوں میں بجلیاں چمک رہی تھیں،جب جانور کی آنکھوں میں تیز روشنی پڑتی ہے تو وہ خوب اچھلتا کودتا ہے اور یہاں تو سورج کو بھی شرما دینے والا سِراجِ مُنیر خود بجلی(بُراق) کے اوپر سوار تھا،لہٰذا بُراق کے شایانِ شان تھا کہ وہ شوخیاں دکھاتا اور ہرن کی طرح اچھلتا کودتا، کیونکہ یہ سب حضور کے وجودِ مسعود کے قرب کی وجہ سے تھا۔جیسا کہ حضور نے فرمایا: میرے پاس ایک سفید رنگ کا جانور لایا گیا جو گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا،جسے براق کہا جاتا ہے،وہ اپنی انتہائی نظر پر اپنا ایک قدم رکھتا ہے، میں اس پر سوار کیا گیا۔([1])مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:چونکہ اُس کی رفتار بجلی کی طرح تیز ہے اور وہ چمک دار سفید رنگ کا ہے اس لئے براق کہتے ہیں، اس پر حضور معراج میں بھی سوار ہوئے اور قیامت میں بھی سوار ہوں گے۔ خیال رہے کہ ہر نبی کا جنت میں ایک براق ہوگا سواری کے لئے مگر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا براق سب سے اعلیٰ ہوگا وہ یہی براق ہے۔ مزید فرماتے ہیں:(حضور نے فرمایا:) میں خود سوار نہ ہوا بلکہ سوار کیا گیا،جبریلِ امین علیہ السلام نے حضور کو سوار کیا،رِکاب جنابِ جبریل نے تھامی اور لگام میکائیل نے پکڑی،اس شان سے دولہا کی سواری چلی۔ خیال رہے کہ حضور کا براق پر سوار ہونا اظہارِ شان کے لئے تھا جیسے دولہا گھوڑے پر ہوتے ہیں براتی پیدل اور گھوڑا خِراماں خِراماں (آہستہ آہستہ) چلتا ہے،براق کی یہ رفتار بھی خِراماں تھی۔ ([2])
23
ہجومِ اُمید ہے گھٹاؤ مُرادیں دے کر انھیں ہٹاؤ
اَدَب کی باگیں لئے بڑھاؤ ملائکہ میں یہ غُلْغُلے تھے
مشکل الفاظ کے معانی: ہجومِ امید: امیدوں کا جمگھٹا۔ باگیں: لگامیں۔ ملائکہ: فرشتے۔ غلغلے: شور۔
مفہومِ شعر:ملائکہ یہ صدائیں دے رہے تھے کہ مانگنے والوں کو ان کی مرادیں دے کر ان کی امیدوں کے ہجوم کو کم کرو اور ادب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سواری کو چلنے دو۔
شرح:نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جب براق پر سوار ہونے لگے تو آس پاس مرادیں مانگنے والے اکٹھا ہوگئے تو فرشتے یہ صدائیں دینے لگے کہ خبردار! امیدواروں کو ان کی طلب کے مطابق مرادیں دے کر جلد از جلد فارغ کیا جائے اور حضور کے ادب کا لحاظ رکھتے ہوئے سواری کو آگے بڑھایا جائے کہ کہیں آپ کی شان میں بے ادبی نہ ہوجائے۔
یاد رکھئے!حضور کو اللہ پاک نے مالک و مختار بنایا ہے اور تمام خزانوں کی کنجیاں آپ کو عطا فرمائی ہیں([3]) کہ آپ جس کو جو چاہیں عطا فرما دیں یعنی آپ کو یہ اختیار عطا فرمایا کہ جسے چاہیں دنیا کی دولت دے کر غنی کر دیں اور جسے چاہیں آخرت کی نعمت دے کر اللہ پاک کا دوست بنا دیں۔
24
اُٹھی جو گردِ رہِ مُنوَّر وہ نور برسا کہ راستے بھر
گھرے تھے بادل بھرے تھے جل تھل اُمَنڈ کے جنگل اُبل رہے تھے
مشکل الفاظ کے معانی: گردِ رہِ منور: نورانی راستہ کی گرد وغبار۔ گھرے تھے:چھائے تھے۔جل تھل:بحر و بر،خشکی و تری۔ امنڈنا: ابھرنا، جوش میں آنا۔
مفہومِ شعر: حضور جب سفرِ معراج کو روانہ ہوئے تو اس نورانی راستے سے جو گرد اڑ رہی تھی وہ بھی اتنی نورانی تھی کہ اس سے سب سماں نور بار ہوگیا اور جنگل بھی نور سے بھر گئے۔
شرح: حضور بلاشبہ اللہ کا نور ہیں اور جس چیز کو آپ سے نسبت ہو جاتی ہے وہ بھی نور والی ہو جاتی ہے، اسی لئے جن مبارک راستوں سے آپ کا گزر ہوا ان کی گرد بھی نورٌ علیٰ نور ہوگئی اور ان سے ایسی نورانی گرد اڑی کہ ہر طرف نور ہی نور چھاگیا۔
الغرض یہ قدم قدم پر نور کی برسات،خشکی و تری اور جنگلات وغیرہ کے نور سے بھرجانے کا ذکر صرف ایک خیال، مبالغہ کرنے یا کلام کی خوبصورتی کو چار چاند لگانے کے لئے نہیں بلکہ حقیقت میں یہ رات اتنی ہی پُرکیف اور نورانی تھی جیسا کہ معارج النبوت میں ہے:اس رات 80 ہزار فرشتے آپ کے سیدھی اور اتنے ہی الٹی جانب تھے اور ہر ایک کے ہاتھ میں نورِ عرش سے جلائی ہوئی شمعیں تھیں،جن کی چمک سے بطحا کا دالان روشن تھا، جب نورِ مصطفیٰ کے 70 ہزار پردوں میں سے ایک پردہ ہٹایا گیا تو ایسا نور ظاہر ہوا جو ان ایک لاکھ ساٹھ ہزار نورِ عرش سے روشن کی ہوئی مشعلوں پر غالب آگیا۔ ([4])
بجھ گئیں جس کے آگے سبھی مشعلیں
شمع وہ لے کر آیا ہمارا نبی
25
سِتَم کیا کیسی مَت کٹی تھی قمر! وہ خاک اُن کے رَہ گزر کی
اُٹھا نہ لایا کہ ملتے ملتے یہ داغ سب دیکھتا مٹے تھے
مشکل الفاظ کے معانی:ستم:ظلم۔مت کٹی تھی:مت/عقل ماری گئی تھی۔ قمر: چاند۔
مفہومِ شعر:اے چاند!یہ تو نے کیسا ظلم کیا!کیسی بےوقوفی کی! تیری عقل پہ پردہ پڑا ہوا تھا! تُو چاہتا تو حضور کی راہ گزر کی خاک کو اٹھا لاتا اور اسے اپنے چہرے پر ملتا تو تیرے چہرے پر جو داغ دھبے ہیں سب مٹ جاتے۔
شرح:کتنا پیارا تخیل ہے اعلیٰ حضرت کا! چا ند جو خود اپنی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہے اور کسی بھی خوبصورت چہرے کو چاند سے تشبیہ دی جاتی ہے۔لیکن آپ چاند کو گویا مخاطب کر کے فرما رہے ہیں کہ اے چاند! تو نے کتنا سنہری موقع ہاتھ سے جانے دیا،معراج کی رات حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک راہ گزر کی خاک کو اٹھا کر اپنے چہرے پہ مل لیتا تو تیرے سب داغ دور ہو جاتے۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
خورشید تھا کس زور پر کیا بڑھ کے چمکا تھا قمر
بےپردہ جب وہ رخ ہوا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
یعنی چاند اپنی آب و تاب سے چمک رہا تھا اور سورج بھی خوب اپنی کرنیں لٹا رہا تھا، مگر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے رخِ انور سے پردہ اٹھایا گیا تو یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں یعنی نہ چاند کی چاندنی باقی رہی اور نہ ہی سورج کی تابانی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ڈبل ایم اے (اردو، مطالعہ پاکستان)
گوجرہ منڈی بہاؤ الدین
[1] مسلم، ص 87، حدیث: 411
[2] مراۃ المناجیح، 8/138 ملخصاً
[3] مسند امام احمد، 2/156، حدیث: 763
[4] معارج النبوۃ، 3/103
Comments