موضوع: قصیدۂ معراجیہ (قسط 3)
9
دلھن کی خوشبو سے مست کپڑے نسیم گستاخ آنچلوں سے
غلافِ مشکیں جو اڑ رہا تھا غزال نافے بسا رہے تھے
مشکل الفاظ کے معانی: نسیم:صبح کی ٹھنڈی ہوا۔آنچل:دامن۔ مشکیں:مشک کی خوشبو سے مہکتا ہوا۔غزال:ہرن۔نافے: ہرن کی تھیلی جس میں کستوری جمع ہوتی ہے۔
مفہومِ شعر:دلہن کے کپڑے(یعنی خانہ کعبہ کا غلاف)جو کہ خوشبو سے بسا ہوا تھا اور صبح کی ہوا بڑی چالاکی سے اس کے آنچل سے کھیل کر اس کی خوشبو چرا رہی تھی اور خانہ کعبہ کا غلاف جب خوشبو میں بس کر اڑ رہا تھا تو ہرن اپنی ناف میں اس کی خوشبو جمع کر رہے تھے۔
شرح:اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے چونکہ پورے کلام میں خانہ کعبہ کو دلہن قرار دیا ہے تو یہاں کعبہ کے غلاف کو دلہن کے کپڑوں سے تشبیہ دی ہے یعنی وقتِ معراج کعبہ کا غلاف جو کہ دلہن کے خوبصورت لباس کی طرح مشک وعنبر کی خوشبو میں بسا ہوا تھا اور صبح کی ہوا اس کو چھو کر اس کی خوشبو چُرا رہی تھی اور پورے ماحول کو مشکبار و خوشگوار بنا رہی تھی،گویا کہ ہرن کے ناف میں کستوری کی جو خوشبو ہے وہ اسے کعبہ کے اس خوش بودار لباس سے ہی حاصل ہوئی ۔
یاد رہے! ہرن کی ناف میں ایک خاص قسم کی خوشبو ہوتی ہے جسے کستوری یا مشک بھی کہا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کی قیمت سونے سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔مشک ایک انڈے کی شکل کی جھلی دار تھیلی میں ہوتا ہے جو ناف کی جلد کے نیچے اور اعضائے تناسل کے درمیان ہوتی ہے۔چونکہ یہ ناف کے قریب ہوتی ہے اس لئے اسے نافہ کہتے ہیں۔اس تھیلی کے اندر بہت سے خانے ہوتے ہیں جن میں مشک کے دانے جمع رہتے ہیں۔نافہ صرف نر اور جوان ہرن میں پایا جاتا ہے۔ مادہ میں نافہ نہیں ہوتا۔جوں جوں نر بڑا ہوتا جاتا ہے نافہ بھی بڑا ہوتا جاتا ہے۔اس کا رنگ سرخی مائل سیاہ ہوتا ہے،کیونکہ وہ حقیقت میں جما ہوا خون ہوتا ہے۔نیز اس کا ذائقہ کڑوا اور خوشبو نہایت ہی اعلیٰ ہوتی ہے۔
10
پہاڑیوں کا وہ حُسنِ تزئیں وہ اونچی چوٹی وہ ناز و تمکیں!
صبا سے سبزہ میں لہریں آتیں دوپٹے دھانی چنے ہوئے تھے
مشکل الفاظ کے معنی: ناز و تمکین: ناز و انداز/شان و شوکت۔ دھانی: ہلکا سبز رنگ۔
مفہومِ شعر:معراج شریف کی رات پہاڑوں کا زینت بخشتا ہوا حسن اور ان کی اونچی چوٹیاں جو کہ اپنی ادائیں اور ناز و انداز دکھا رہی تھیں اور جب ہوا سے سبزے میں لہریں پیدا ہوتیں تو ایسے لگتا کہ جیسے سبزہ نے زردی مائل ہلکے سبز(دھانی) رنگ کے چنے ہوئے دوپٹے اوڑھ رکھے ہیں۔
شرح:اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے معراج کی رات کے منظر کو جس انداز میں بیان فرمایا ہے اس کی تعریف میں الفاظ نہیں ملتے،معراج شریف کی خوشی میں فرش سے لے کر عرش تک زمین و آسمان کی ہر چیز سجی سنوری اور نکھری ہوئی تھی، چنانچہ اعلیٰ حضرت نے سب سے پہلے خانہ کعبہ اور حرم کی کیفیات کا ذکر فرمایا اور اب حیوانات و جمادات اور نباتات پر طاری ہونے والی خوشی کی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس رات پہاڑوں کی زیب و زینت اور فلک کو چھوتی بلندیاں بھی عجب شان و شوکت اور خوشی کا مظاہرہ کررہی تھیں، نباتات بھی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے ایسے جھوم رہے تھے جیسے دھانی رنگ کے چنے ہوئے دوپٹے ہوں۔ دھان چاول کی فصل کو کہتے ہیں اور دھانی یہاں ہلکے سبز رنگ کے لئے استعمال کیا گیا۔ عورتوں کے دوپٹوں کو چُن کر ان میں ایک خاص قسم کی لہر سی بنا دی جاتی ہے جو بہت خوبصورت نظر آتی ہے جب ہوا سبزے کو چھوتی اور سبزہ لہراتا تو یوں لگتا جیسے دھانی رنگ کے چُنٹوں والے دوپٹے ہوا میں لہرا رہے ہوں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
طُور چوٹی کو اپنی جھکانے لگا چاندنی چاند ہر سُو دکھانے لگا
عرش سے فرش تک جگمگانے لگا رشکِ صبحِ صفا آج کی رات ہے
11
نہا کے نہروں نے وہ چمکتا لباس آبِ رَواں کا پہنا
کہ موجیں چھڑیاں تھیں دھار لچکا حبابِ تاباں کے تھل ٹکے تھے
مشکل الفاظ کے معانی:آبِ رواں:جاری پانی۔موجیں: لہریں۔ چھڑیاں:گوٹا جو خوبصورتی کے لئے لباس پہ لگایا جاتا ہے۔لچکا: دھاری دار باریک گوٹا نما کام۔حباب: بلبلہ۔تاباں: چمک دار۔ تھل ٹکے تھے: پھول بکھرے تھے۔
مفہومِ شعر:معراج کی رات نہروں نے نہا کر جاری پانی کا لباس پہن لیا، ان کی موجیں گوٹا کناری، دھار خوبصورت کڑھائی کی طرح تھیں اور موتیوں کی طرح چمکدار بلبلے بکھرے ہوئے پھولوں کا منظر پیش کر رہے تھے۔
شرح:ویسے تو پانی سے نہایا جاتا ہے لیکن خیالِ رضا پہ قربان! کیسے کیسے موتی پرو دیئے ہیں!فرماتے ہیں کہ معراج کا خوبصورت انتظام دیکھئے!جن نہروں سے نہایا جاتا ہے خود ان نہروں نے نہا کر جاری پانی کا شوخ اور چمک دار خوبصورت لباس پہن لیا اور ان نہروں کے پانی پر جو بلبلے اٹھتے اور لہریں پیدا ہوتیں وہ اس قدر خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے جیسا کہ خوبصورت شفاف لباس کے اوپر گوٹا کناری کا اور دھاری دار کام ہو اور ہر طرف کڑھائی اور سجاوٹ کے پھول بکھرے پڑے ہوں۔
سننے میں آیا ہے کہ اعلیٰ حضرت نے اس قصیدے کو نظم کرنے سے پہلے گھر کی خواتین سے وہ ملبوسات جس میں گوٹے اور لچکے ٹکے ہوتے ہیں اور چھڑیاں پڑی ہوتی ہیں لے کر خالی ایک نظر دیکھاتھا۔([1])
12
پرانا پر داغ ملگجا تھا اٹھا دیا فرش چاندنی کا
ہجومِ تارِ نگہ سے کوسوں قدم قدم فرش بادلے تھے
مشکل الفاظ کے معانی:ملگجا:نہ میلا نہ ستھرا دھندلا سا۔ہجومِ تار:تاروں کا ہجوم۔نگہ:نظر۔کوسوں:میلوں دور۔بادلے: سنہری کپڑا جو ریشم اور چاندی کی تاروں سے بنا جاتا ہے۔
مفہومِ شعر: چاند جو کہ پرانا اور دھندلا تھا جس کے اوپر داغ بھی ہے اس کی چاندنی کو اٹھا دیا گیا تھا اور اس کی جگہ جہاں جہاں تک نگاہ جاتی وہاں وہاں تک ہر ہر قدم پر زری و زَربفْت کا فرش بچھا دیا گیا تھا۔
شرح:معراج 27 رجب کو ہوئی جب عموماً چاند نظر نہیں آتا اسی چیز کو اعلیٰ حضرت نے بیان فرمایا ہے کہ چاند چونکہ پرانا اور دھندلا ہو چکا تھا۔لہٰذا جس طرح کسی معزز مہمان کی آمد پر پرانے قالین اٹھاکر نئے بچھا دیئے جاتے ہیں اسی طرح پرانے چاند کی چاندنی کا فرش اٹھا کر جہاں تک نگاہ جاتی بلکہ اس سے بھی آگے میلوں دور تک ہر طرف ریشم اور کم خواب کی طرح نوری مخلوق کی نگاہوں کے زری و زربفْت کے فرش بچھا دیئے گئے تھے،تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس رات ساری روشنی چاند کی تھی بلکہ یہ روشنی تو مقرب فرشتوں کی نگاہوں کی تھی جو جگہ جگہ حضور کے استقبال کے لئے کھڑے تھے۔
جذبِ حسنِ طلب ہر قدم ساتھ ہے دائیں بائیں فرشتوں کی بارات ہے
سر پہ نورانی سہرے کی کیا بات ہے شاہ دولہا بنا آج کی رات ہے
Comments