شرح قصیدہ معراجیہ (قسط:07)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن


موضوع: شرح قصیدۂ معراجیہ (قسط 7)

26

براق کے نقشِ سم کے صدقے وہ گل کھلائے کہ سارے رَستے

مہکتے گلبن لہکتے گلشن ہَرے بھرے لہلہا رہے تھے

مشکل الفاظ کے معانی:

نقشِ سم: کُھر کے نشان۔گُل:پھول۔ گلبن: سرخ گلاب۔لہکتے گلشن:سرسبز باغ۔

مفہومِ شعر:

نبی کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی سواری براق کے کھروں کے نشانات پر قربان جائیں کہ جس راہ سے وہ گزرتی وہاں پھول کھلتے جاتے،سرخ گلاب مہک اٹھتے اور گلشن ہرے بھرے ہوجاتے۔

شرح:

نبی کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی سواری کے لیے لائے گئے براق کو بھی آپ کے قرب کی ایسی سعادت نصیب ہوئی اور ایسی برکتیں ملیں کہ براق جدھر سے گزرتا ادھر گویا کہ پھول کھل جاتے،گلشن مہک اٹھتے اور ہر طرف ہریالی ہی ہریالی کا دور دورہ ہوتا،بہار کا سماں پیدا ہو جاتا، ایسی بہار نہ اس سے پہلے دیکھنے میں آئی نہ اس کے بعد۔

البتہ!یاد رہے!معراج کی رات نبی پاک  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے مختلف سواریوں پر سفر فرمایا اور لا مکاں تک جا پہنچے،چنانچہ امام علائی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: معراج کی رات حضور انور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی سواریاں پانچ طرح کی تھیں:(1)(مکے سے) بیت المقدس تک براق پر،(2)بیت المقدس سے آسمانِ دنیا تک سیڑھی پر،(3)آسمانِ اوّل سے ساتویں آسمان تک فرشتوں کے بازوؤں پر،(4)ساتویں آسمان سے سدرۃ المنتہیٰ تک حضرت جبریلِ امین  علیہ السلام  کے بازو پر اور(5)سدرۃ المنتہیٰ سے مقامِ قاب قوسین تک رفرف پر۔ ([1])

27

نمازِ اَقصیٰ میں تھا یہی سِرّ عیاں ہوں مَعنیِ اَوَّل آخر

کہ دَست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے

مشکل الفاظ کے معانی:

سِرّ: راز۔ عیاں: ظاہر ہونا۔ دست بستہ: ہاتھ باندھے۔ آگے: پہلے۔

مفہومِ شعر:

مسجدِ اقصیٰ میں جو سرکار  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے نبیوں کی امامت فرمائی اس کا مقصد یہی تھا کہ اول و آخر کے معنیٰ واضح ہو جائیں کہ جو حضور سے پہلے حکومت کر چکے تھے وہ بھی آپ کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔

شرح:

حضور معراج شریف کی رات جب مسجدِ اقصیٰ پہنچے تو وہاں حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ تک تمام انبیا  پہلے سے موجود تھے،حضور نے ان کی امامت فرمائی اور تمام انبیائے کرام نے آپ کی اقتدا میں نماز ادا کی۔

اعلیٰ حضرت یہاں اس بات کا ذکر فرما رہے ہیں کہ حضور اول بھی ہیں اور آخر بھی، آپ اپنی خلقت و پیدائش کے لحاظ سے سب سے اول ہیں اور بعثت کے لحاظ سے سب سے آخر ہیں، لہٰذا انبیا کی جماعت کا مقصد یہی تھا کہ اول و آخر کا معنی واضح ہو جائے کہ اگرچہ تمام انبیا آپ سے پہلے تشریف لائے مگر حضور کا مرتبہ تمام انبیا سے زیادہ ہے۔ایک روایت میں ہے:ایک مرتبہ فرشتوں کے سردار حضرت جبریلِ امین  علیہ السلام  بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور یوں سلام کیا:اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ظاہِرُ  اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا بَاطِنُ اے نبی ظاہر!آپ پر سلام ہو،اے نبی باطِن! آپ پر سلام ہو۔اس پر پیارے آقا  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اے جبریل!یہ صفات تو اللہ پاک کی ہیں، اسی کو لائق ہیں، میری یہ صفات کیسے ہو سکتی ہیں؟حضرت جبریلِ امین نے عرض کی: اللہ پاک نے  آپ کو ان صفات سے فضیلت دی، آپ کو سارے نبیوں اور رسولوں پر خصوصیت بخشی،اپنے نام اور وصف سے آپ کا نام اور وصف نکالا ہے۔(اے پیارے محبوب!)اللہ پاک نے آپ کا نام اوّل رکھا،کیونکہ آپ پیدائش کے اعتبار سے سب انبیائے کرام سے اوّل یعنی پہلے ہیں(کہ سب سے پہلے آپ کا نور مبارک پیدا کیا گیا) اللہ پاک نے آپ کا نامِ پاک آخر بھی رکھا کیونکہ آپ سب انبیائے کرام کے زمانے سے آخر میں تشریف لانے والے اور آخری امت کے آخری نبی ہیں۔اسی طرح اللہ پاک نے آپ کا نامِ پاک باطِن بھی رکھا،کیونکہ اللہ پاک نے اپنے نام کے ساتھ آپ کا نامِ پاک سرخ نور سے عرش کے پائے پر حضرت آدم  علیہ السلام  کی پیدائش سے 2 ہزارسال پہلے ہمیشہ ہمیشہ کےلئے لکھا۔ اسی طرح اللہ پاک نے آپ کا نامِ پاک ظاہر بھی رکھا کیونکہ اس نے آپ کو تمام دینوں پرغلبہ عطا فرمایا اور آپ کی شریعت و فضیلت کو تمام آسمان و  زمین والوں پر ظاہرفرما دیا۔([2])

28

یہ ان کی آمد کا دبدبہ تھا نکھار ہر شے کا ہو رہا تھا

نجوم و افلاک جام و مینا اجالتے تھے کھنگالتے تھے

مشکل الفاظ کے معانی:

دبدبہ: رعب۔نکھار: بناؤ سنگھار۔نجوم: ستارے۔افلاک:آسمان۔جام:پیالہ۔مینا:صراحی۔اجالنا: صاف کرنا۔ کھنگالنا: پانی سے برتن کو صاف کرنا۔

مفہومِ شعر:

حضور کی آسمان پر آمد کا رعب ودبدبہ ایسا تھا کہ ہر چیز کو سنوارا جا رہا تھا، زیب وزینت دی جارہی تھی،آسمان اور اس کے ستارے گویا کہ صراحیوں اور پیالوں کو دھو دھوکر خوب چمکا رہے تھے، صاف شفاف کررہے تھے۔

شرح:

مسجدِ اقصیٰ میں نبیوں کی امامت فرمانے اور زمین پر حضور کی شان وشوکت کے اظہار کے بعد اب آسمانوں کا سفر شروع ہوا تو عالمِ بالا کی ہر چیز کو سنوارا جانے لگا، آسمان پر ہر ہر چیز کا بناؤ سنگھار ہو رہا تھا اور جس طرح کسی مہمان کی آمد پر گھر والے برتنوں کو دھو کر چمکاتے ہیں، اسی طرح آسمان اور اس کے ستارے ان برتنوں کو چمکانے لگے تاکہ ان میں عشقِ مصطفےٰ کی شرابِ طہور بھر کر آسمان والوں کو پلائی جا سکےیا ان میں پاک شرابِ بھر کر حضور کی مہمان نوازی کی جا سکے۔

29

نقاب الٹے وہ مہر انور جلال رخسار گرمیوں پر

فلک کو ہیبت سے تپ چڑھی تھی تپکتے انجم کے آبلے تھے

مشکل الفاظ کے معانی:

مہر انور:نورانی سورج۔جلالِ رخسار: گالوں کی ہیبت۔تپ چڑھنا:تپش آ جانا،بخار ہونا۔تپکنا: آبلے /   پھوڑے میں رہ رہ کر ٹیس اٹھنا۔ انجم: ستارہ۔

مفہومِ شعر:

معراج کی رات جب حضور کے چہرۂ انور سے نقاب اٹھا تو آپ کے رخسارِ اقدس کے جلال کی گرمی سے آسمان کو گویا بخار ہوگیا اور ستاروں کی صورت میں اس پر چھالے ابھرنے لگے۔

شرح:

اللہ پاک نے حضور کے حسن کو 70 ہزار پردوں میں چھپا رکھا ہے۔ یہاں زمین میں آپ بشری صورت اور ستر ہزار حجابات کے پہرے میں تھے، مگر معراج کی رات  چونکہ نورانی مخلوق میں جارہے تھے، نورانی لباس پہنا تھا تو آپ نے ان ستر ہزار پردوں میں سے ابھی صرف ایک پردہ الٹا تو جلالِ اقدس کی گرمی ایسی ظاہر ہوئی جس کی تپش سے آسمان کو بخار ہوگیا اور اس کے جسم پہ ستاروں کی صورت میں چھالے پڑ گئے جن سے نور ٹپکنے لگا۔

 شیخ عبدالحق محدث دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:حضور کا چہرہ اللہ پاک کے جمال کا آئینہ ہے اور اللہ پاک کے انوار و تجلیات کا اس قدر مَظہر ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں۔([3])

خدا کی غیرت نے ڈال رکھے ہیں تجھ پہ 70 ہزار پردے

جہاں میں بن جاتے طور لاکھوں جو اک بھی اٹھتا حجاب تیرا

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ڈبل ایم اے (اردو، مطالعہ پاکستان)

گوجرہ منڈی بہاؤ الدین



[1] تفسیرروح المعانی،جزء:15/14

[2] شرح الشفا،1/515

[3] مدارج النبوۃ،1/4


Share