63 نیک اعمال(نیک عمل نمبر 36)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن


63 نیک اعمال

(نیک عمل نمبر 36)

ملکہ بلقیس کا تختِ شاہی نہایت عظیم الشان اور جواہرات سے آراستہ تھا۔جب حضرت سلیمان  علیہ السّلام  نے اس کے تحائف قبول نہ کیے اور اسے اسلام کی دعوت دی، تو آپ نے چاہا کہ بلقیس کے آنے سے پہلے اس کا تخت دربار میں حاضر ہو جائے تاکہ اسے نبوت کی سچائی کا معجزہ دکھایا جائے اور اس کی عقل کا امتحان لیا جائے۔چنانچہ آپ نے اپنے درباریوں سے فرمایا کہ کون اس کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے؟ ایک جن نے کہا کہ میں آپ کے اٹھنے سے پہلے لا سکتا ہوں،لیکن آپ نے اس سے بھی جلدی چاہی۔ تب حضرت آصف بن برخیا  جو اسمِ اعظم جانتے تھے،نے عرض کی:میں پلک جھپکنے سے پہلے حاضر کر دوں گا۔انہوں نے روحانی قوت کے ذریعے بلقیس کا تخت لمحوں میں ملکِ سبا سے بیت المقدس پہنچا دیا۔

یہ واقعہ حضرت آصف بن برخیا  رحمۃُ اللہ علیہ کی روحانی کرامت اور علم کی فضیلت کا واضح اظہار ہے۔قرآن نے ان کی خصوصیت کو   عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ کہہ کر بیان کیا، یعنی علم ہی ان کی قوت و کرامت کا سبب تھا۔

اسی مفہوم کی تائید میں حضرت عبداللہ بن مبارک  رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حقیقی انسان وہ ہے جو عالم ہو،بادشاہ وہ ہے جو پرہیزگار ہو اور گھٹیا وہ ہے جو دین کے بدلے دنیا حاصل کرے۔([1])

امام غزالی  رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں:انسان کی فضیلت نہ جسمانی قوت میں ہے،نہ بہادری یا جسامت میں،بلکہ صرف علم میں ہے،یہی وصف انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز اور اشرف بناتا ہے۔([2])  چنانچہ معلوم ہوا کہ علم ہی کرامت،قوت اور انسانیت کی اصل بنیاد ہے۔

البتہ!علمِ دین حاصل کرنا صرف چند افراد کی ذمّہ داری نہیں بلکہ اپنی موجودہ حالت کے مطابق مسائل سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے مگر افسوس!آج کا مسلمان زندگی کی ضرورتوں، سہولتوں اور آسائشوں کے حصول میں اتنا گم ہو گیا کہ اس کے پاس علمِ دین سیکھنے کا وقت ہی نہیں۔ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ سالہا سال سے نماز پڑھنے والے کو وضو   کا صحیح طریقہ تک نہیں آتا یا وہ نماز میں ایسی غلطیوں کا عادی ہو چکا ہوتا ہے جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، ([3])

الغرض  جہالت کا ایک طوفان برپا ہے۔اس لئے مسلمانوں کو علمِ دین سیکھنے کی ترغیب دلانے کے لئے امیرِ اہلِ سنت نے 63 نیک اعمال کے رسالے میں سوال نمبر 36 میں فرمایا ہے: کیا آج آپ نے کچھ نہ کچھ وقت کے لئے مدنی چینل دیکھا؟

ایسا آپ نے اس لئے کیا کہ مدنی چینل دیکھنا بھی علمِ دین حاصل کرنے کا ہی ایک ذریعہ ہے۔کیونکہ علمِ دین حاصل کرنے کے ذرائع بے شمار ہیں مثلاً:*کسی جامعہ میں داخلہ لے کر باقاعدہ طور پر علمِ دین حاصل کرنا*علمائے کرام کے بیانات سننا *میڈیا یعنی ٹی وی وغیرہ کے ذریعے گھر بیٹھ کر علمِ دین حاصل کرنا۔

یہ تیسرا والا بہت آسان ذریعہ ہے جس کی مدد سے گھر بیٹھے بآسانی علمِ دین حاصل کر سکتی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم علمِ دین کی اہمیت سے غافل ہیں۔

ہمارے بزرگانِ دین علمِ دین کے حصول کے لیے غیر معمولی محنت وسفر کیا کرتے تھے۔حضرت ابو ایوب انصاری  رضی اللہ عنہ نے صرف ایک حدیث سننے کے لیے مدینے سے مصر کا سفر اختیار کیا اور جب وہ حدیث حضرت عقبہ بن عامر  رضی اللہ عنہ سے سن لی کہ”جو دنیا میں کسی مومن کی پردہ پوشی کرے، اللہ پاک قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا“ تو فوراً مدینہ واپس لوٹ آئے۔([4])یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ بزرگانِ دین  رحمۃ اللہ علیہم  علمِ دین کے ایک ایک لفظ کو قیمتی خزانہ سمجھتے تھے۔  افسوس کہ آج ہم آسانیوں کے باوجود دینی تعلیم سے غافل اور دنیاوی مشاغل میں الجھی ہوئی ہیں۔

امیرِ اہلِ سنت  دامت برکاتہم العالیہ   نے اس غفلت کو دور کرنے کے لیے مدنی چینل جیسے ذرائع کے ذریعے علمِ دین سیکھنے اور نیک اعمال کی پابندی اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے تاکہ ہم ہر وقت دین کی برکتوں سے فیض یاب رہیں۔

ذرائع ابلاغ (میڈیا) معاشرے کا ایک مؤثر اور طاقتور استاد ہے جس کے اثرات زندگی کے ہر پہلو پر نمایاں ہیں۔اسی میدان میں مدنی چینل نے دینِ اسلام کی ترویج اور اصلاحِ امت کے لیے غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔اس کے ذریعے دعوتِ اسلامی کا تعارف وسیع ہوا،بے شمار لوگ اس سے وابستہ ہوئے اور گھر گھر تک نیکی کی دعوت پہنچنے لگی۔

مدنی چینل ایک برقی مبلغ بن کر ہر خاص و عام تک علمِ دین پہنچا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں لاکھوں افراد دین دار، باعمل اور بہتر زندگی گزارنے والے بن چکے ہیں۔

مدنی چینل کا قیام:

امیرِ اہلِ سنت نے دورِ حاضر کے تقاضوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے مدنی چینل قائم کیا اور مرکزی مجلسِ شوریٰ کی کوششوں سے رمضان المبارک 1429ہجری(11 ستمبر 2008) میں اس کا آغاز ہوا۔مدنی چینل نے دیکھتے ہی دیکھتے حیرت انگیز نتائج حاصل کیے اور گھر گھر سنتوں کا پیغام عام کر دیا۔

یہ چینل علمِ دین پھیلانے کے ساتھ ساتھ بے حیائی اور فحاشی کے پھیلاؤ کے مقابلے میں روشنی کا مینار بن چکا ہے۔ مدنی چینل پر دن رات 24 گھنٹے صرف دینی پروگرام نشر کیے جاتے ہیں، جن کے ذریعے لاکھوں افراد دین سے وابستہ ہو کر نیکی کے راستے پر آ گئے ہیں۔یقیناً مدنی چینل دیکھنا باعثِ ثواب ہے،کیونکہ یہ ایمان تازہ کرتا،اسلامی اقدار کو اجاگر کرتا اور ہر دیکھنے والے کے لیے علمِ دین سیکھنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

مدنی چینل کا مقصد باطل سے پاک خالص اسلام کے پیغام کو عام کرنا اور عشقِ مصطفےٰ کی شمع ہر دل میں روشن کرنا ہے۔ یہ چینل تحفظِ عقائدِ اسلام کا علمبردار بن کر بین الاقوامی سطح پر دینِ اسلام کا پیغام مؤثر اور دل نشین انداز میں دنیا کے کونے کونے تک پہنچا رہا ہے۔

مدنی چینل اپنی نوعیت کا واحد غیر تجارتی (نان کمرشل) اور آئیڈیل اسلامی چینل ہے جس پر خواتین کو نہیں دکھایا جاتا، اور جس نے فحاشی وعریانی کے سیلاب میں اصلاحِ معاشرہ کے لیے روشنی کا مینار بن کر کردار ادا کیا ہے۔یہ چینل آج کے ذرائع ابلاغ کے شور میں بارانِ رحمت کی طرح ہے جو عقائد، عبادات،اخلاق،معاملات اور معاشرتی اصلاح سے متعلق موضوعات کو تحقیق وذمہ داری کے ساتھ پیش کرتا ہے۔

یوں مدنی چینل عصرِ حاضر میں اشاعتِ دین کا مضبوط ترین اور قابلِ اعتماد ذریعہ بن چکا ہے۔

اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں

اے دعوتِ اسلامی تری دھوم مچی ہو

ہمیں چاہیے کہ ہم ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو اپنے نیک اعمال کا رسالہ اپنے علاقے میں ہونے والے بدھ اجتماع میں وہاں کی ذمہ دار کو جمع کروائیں۔




[1] المجالسۃ وجواہر العلم،1/160،رقم:300

[2]  احیاء علوم  الدین، 1/23ملخصاً

[3] تذکرۂ امیرِ اہلِ سنت، قسط:4 ،شوقِ علمِ دین، ص10

[4] مسند امام احمد،28/614،613،حدیث:17391


Share