بُری عادتیں (قسط:16)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن


موضوع: بری عادتیں (قسط 16)

دینی تعلیم کو ادھورا چھوڑ جانے کی وجوہات ذکر کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے، ذیل میں بیان کردہ سلسلہ بھی ایسا ہی ہے جو عِلمِ دین کی برکتوں کے حصول میں رکاوٹ کا باعث ہے۔

تعلیمی امور سے متعلق چیزیں

محنت کے بغیر امتحان میں کامیابی کی امید لگانا:

حضرت عبدُ اللہ بن یحیٰ بن ابی کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں نے اپنے والد کو فرماتے ہوئے سنا کہ جسم کی راحت کے ساتھ علم کا حصول ناممکن ہے۔([1])چنانچہ کامیاب اہلِ علم کی بائیو گرافی(حالات زندگی)دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے حصولِ علم کی خاطر کیسی کیسی تکلیفیں اٹھائیں اور کن کن مراحل سے گزرے۔

تعلیمی اداروں میں امتحانات کا سلسلہ رائج کرنے کا مقصد اسٹوڈنٹس کی صلاحیتوں کو پرکھنا ہوتا ہے اور آگے نکل جانے کی لگن مزید پڑھنے اور سیکھنے کی دلچسپی بڑھاتی ہے۔

اسٹوڈنٹس کی ناکامی کا ایک سبب امتحان سے جی چرانا بھی ہے۔ایسا انداز عموماً ان کا ہوتا ہے جو کلاس میں اپنے اسباق توجہ سے نہیں پڑھتے اور سمجھتے ہیں کہ امتحان میں بغیر محنت کے کامیاب ہو ہی جائیں گے۔حالانکہ دنیا عالَمِ اسباب ہے،اس کی معمولی چیز بھی محنت کے بغیر نہیں ملتی تو علم جو افضل و اعلیٰ نعمتِ باری ہے وہ تکلیف اٹھائے بغیر کیسے مل جائے  گی!لہٰذا ایسے اسٹوڈنٹس کو امتحان کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے کہ امتحان کے ذریعے آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا ہے نہ کہ اس کو بوجھ سمجھ کر جان چھڑانے کی کوشش کی جائے،ورنہ یہ صورتِ حال علمی میدان میں ناکامی کا سبب بن سکتی ہے یا امتحان دے تو دیا لیکن مکمل ناکامی یا سپلی(ضمنی)آنے کی صورت میں بھی حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے اور یوں تعلیمی سفر سے ہی منہ موڑ لیا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ناکامی کے اسباب تلاش کر کے ان کا حل نکالا جائے اور اس ناکامی کو کامیابی کی سیڑھی بنا کر آگے کا سفر جاری رکھا جائے کہ اگر اخلاص کے ساتھ کامیابی کے تقاضے پورے کئے جائیں گے تو بتو فیق ِالٰہی  ناکامی سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔

 سینئرز سے پوچھنے میں جھجک محسوس کرنا اور جونیئرز کو بتانے میں بخل کرنا:

علم میں ترقی اور مضبوطی کا ایک بہترین ذریعہ اہلِ علم سے پوچھنا اور اپنے سے کم علم کو سکھانا بھی ہے۔

جیسا کہ حضرت عبدُ اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  کا فرمان ہے:علم تلاش سے بڑھتا اور سوال سے حاصل ہوتا ہے۔لہٰذا اس چیز کو سیکھو جسے تم نہیں جانتے اور جسے جانتے ہو اس پر عمل کرو۔([2]) لہٰذا علمی ترقی کے لئے سینئرز سے پوچھنے میں عار محسوس نہ کریں، اسی طرح جونیئرز کو بتانے اور سکھانے میں بھی اکتاہٹ و  بیزاری کا اظہار نہ کریں کہ حضرت خلیل بن احمد رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:لوگوں کو اس خیال سے تعلیم دو کہ خود تمہارا علم ترو تازہ رہے گا اوربہت زیادہ سوالات کئے جانے سے اکتاؤ نہیں کیونکہ اس سے تم پر علم کے نئے نئے دروازے کھلیں گے۔([3])

علم کے حریص سینئرز اور جونیئرز کے امتیاز کے بغیر تکرار کے ذریعے علم کو پکا کرتے ہیں،کیونکہ اہلِ علم و حکمت کا قول ہے: جس نے علم کو چھپایا گویا کہ وہ جاہل ہے۔([4])

گھریلو مصروفیات،مثلاً:شادی وغیرہ کی وجہ سے پڑھائی موقوف کرنا:

اگر اسٹوڈنٹس کا جذبہ سچا ہو تو علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔اگر حصولِ علم کی لگن سچی ہو تو راہِ علم میں آنے والے طوفانوں کو زیر کرنا کہاں مشکل ہے !یہ انسان ہی تو ہے جس نے خدا کی دی ہوئی طاقت سے پہاڑوں کو سر کر لیا ،ہواؤں پر فتح کا جھنڈا لہرا دیا،سمندروں کو تسخیر کر لیا۔ جو منزل پہ پہنچنے کا جنون رکھتے ہیں وہ راستے کے طوفانوں اور رکاوٹوں کی پروا نہیں کرتے۔ حصولِ علم کی راہ میں خود کو اتنا مضبوط کر لیجئے کہ اندرونی وبیرونی سازشیں اور داخلی وخارجی رکاوٹیں ہمیں منزل تک پہنچنے سے روک نہ سکیں۔دورانِ تعلیم اگر کسی کی شادی ہو جائے  تو علمی سفر میں کافی سستی کا مظاہرہ دیکھا جاتا ہے،یقیناً ایسے میں ذمہ داریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے،لیکن بات ذوق،شوق،لگن اور جنون کی ہوتی ہے۔اسٹوڈنٹ کا اپنی شادی اور گھریلو مصروفیات کے سبب یا دوسروں کے طعنوں سے پریشان ہو کر علمِ دین سے دوری اختیار کر لینا بہت بڑی محرومی کا باعث ہے ۔

اصل بات ترجیحات کے تعین کی ہے، انسان جس کام کو اہم سمجھتا ہے، وہ اس کے لیے وقت اور وسائل دونوں مہیا کر لیتا ہے۔ مگر جب بات علمِ دین کے حصول کی آتی ہے تو شیطان مختلف رکاوٹیں ڈال کر غفلت پیدا کرتا ہے۔ البتہ جن کے دل میں علمِ دین کی محبت رچ بس جائے، وہ اسے حاصل کیے بغیر سکون نہیں پاتے۔

مطالعہ کی کمی:

امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:جس کے پاس علم ہو اسے مزید علم سیکھنے کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔([5])

علم کا سچا طالب کبھی مطمئن نہیں ہوتا، کیونکہ مطالعہ ہی دل و دماغ کو تازگی اور وسعتِ فکر عطا کرتا ہے۔ انسان اسی وقت تک اہلِ علم کہلاتا ہے جب تک علم کی طلب باقی رہے۔ مطالعہ سے غفلت علمی اور فکری زوال کا سبب بنتی ہے، بلکہ حصولِ علم میں سب سے بڑی رکاوٹ مطالعہ کی کمی ہے، جو طلبہ خود کو کم فہم یا کم حافظہ سمجھتے ہیں، اُن کے لیے بہترین علاج کثرتِ مطالعہ اور اولیا و علمائے کرام کے شوقِ مطالعہ کے واقعات پڑھنا ہے۔مثلاً امام ابنِ جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں اپنا حال عرض کرتا ہوں۔میری طبیعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی طرح سیر نہیں ہوتی۔جب کسی نئی کتاب پر نظر پڑ جاتی  تو ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے۔ اگر میں کہوں کہ میں نے زمانہ طالبعلمی میں 20 ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا ہے تو تجھے بہت زیادہ معلوم ہو گا۔مجھے ان کتابوں کے مطالعہ سے بزرگوں کے حالات و اخلاق،ان کی بلند ہمتی، قوتِ حافظہ، ذوقِ عبادت اور علومِ نادرہ کا ایسا اندازہ ہوا جو ان کتابوں کے بغیر نہیں ہو سکتا،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے اپنے زمانے کے لوگوں کی سطح پست معلوم ہونے لگی اور اس وقت کے طالبِ علم کی کم ہمتی ظاہر ہو گئی۔میں نے مدرسہ نظامیہ کے پورے کتب خانے کا مطالعہ کیا،جس میں 6 ہزار کتابیں ہیں۔([6])

مطالعہ کیا ہے؟

مطالعہ کا لفظ باب مفاعلہ سے ہے اور مفاعلہ میں جانبین سے برابر کے عمل کو کہتے ہیں۔تو اب مطالعہ کا مطلب یہ ہوا کہ ادھر طالبِ علم نے کتاب پر اپنی نگاہ ڈالی ادھر کتاب نے اپنے فیوض و برکات کے ساتھ توجہ فرمائی تو یوں گویا کہ دونوں کی گہری دوستی ہو گئی ۔ کتاب کے ساتھ ایسی ہی پکی اور جگری دوستی ہونی چاہیے کیونکہ علم بے وفا نہیں ہے،علم کنجوس نہیں ہے کہ جو اپنی برکات سے محروم رکھے اور دوستی کا حق ادا نہ کرے ۔

بلاشبہ مطالعہ سے خود اعتمادی بڑھتی  اور علوم سمجھنے اور ان کی گہرائی تک پہنچنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ مطالعہ کی لذت وہ چیز ہے جو دل کو دو عالَم سے بیگانہ کر دیتی ہے۔حکیم جالینوس سے کسی نے پوچھا:آپ اپنے زمانے کے ساتھیوں میں میڈیکل کو سب سے زیادہ جاننے والے کیسے بن گئے؟کہا:اس طرح کہ میں نے کتابوں کے مطالعہ کے لئے چراغوں کے تیل پر اتنا خرچ کیا جتنا انہوں نے شراب پینے پر خرچ کیا ۔([7])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* لاہور



[1]سير اعلام النبلاء، 6/274

[2]جامع بیان العلم و فضلہ، ص 122، رقم:402

[3]جامع بیان العلم و فضلہ، ص 125، رقم:411 ملخصاً

[4]ادب الدنیا و الدين، 126

[5]جامع بیان العلم و فضلہ، ص133

[6]قیمۃ الزمن عند العلماء، ص61

[7]جامع بیان العلم و فضلہ، ص144


Share