حضور ﷺ کی مولیٰ علی سے محبت
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن


موضوع: حضور کی مولیٰ علی سے محبت

(نئی رائٹرز کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ دو مضمون 42ویں تحریری مقابلے سے منتخب کر کے ضروری ترمیم و اضافے کے بعد پیش کئے جا رہے ہیں۔)

(فرسٹ پوزیشن)محترمہ  بنتِ  یعفور رضا عطاریہ

 ( جوہر ٹاؤن لاہور)

 بے شک ہمارے پیارے آقا  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  اپنی تمام امت سے ہی بے پناہ محبت فرماتے ہیں مگر کچھ ہستیاں ایسی ہیں جنہیں بارگاہِ رسالت میں  وہ مقام حاصل ہوا کہ دنیا آج بھی رشک کرتی ہے۔ان ہی عظیم ہستیوں میں سے ایک حضرت علی  رضی اللہ عنہ  بھی ہیں۔آپ کو وہ قرب ِ مصطفےٰ حاصل ہوا کہ قربان جائیے  حضور نے آپ کے  متعلق ارشاد فرمایا:مَنْ سَبَّ عَلِیًّا فَقَدْ سَبَّنِیْ یعنی جس نے علی کو بُرا کہا تو تحقیق اس نے مجھ کو بُرا کہا۔([1])

حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کو حضور سے اتنا قرب حاصل ہے کہ جس نے ان کی شان میں گستاخی و بے ادبی کی تو گویا کہ اس نے حضور کی شان میں گستاخی و بے ادبی کی۔اسی قرب و محبت کے متعلق چند احادیث ملاحظہ ہوں:

علی بھی اس کے مولیٰ

حضور نے ارشاد فرمایا:اَللّٰہُمَّ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ اللّٰھُمَّ وَالٍ مَنْ وَالَاہُ وَ عَادٍ مَنْ عَادَاہُ یعنی میں جس کا مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں۔اے اللہ!جو علی سے محبت رکھے تو بھی اس سے محبت رکھ اور جو علی سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ۔([2])

اللہ و رسول محبت   فرماتے ہیں

حضور نے خیبر کے دن فرمایا: میں یہ جھنڈا کل ایک ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر خدا فتح عطا فرمائے گا، وہ اللہ و رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ و رسول اس سے محبت  رکھتے ہیں۔([3])

علی مجھ سے ہے

غزوۂ اُحد کے موقع پر حضور نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کے متعلق فرمایا:اِنَّہُ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْہُ یعنی بے شک علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔([4])مطلب یہ ہے کہ علی کو مجھ سے کمالِ قرب حاصل ہے۔

اللہ و رسول کا دوست

حضور نے فرمایا:اللہ پاک نے مجھے چار افراد سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے اور مجھے بتایا ہے کہ وہ بھی ان سے محبت رکھتا ہے۔عرض کی گئی:یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !ہمیں ان کے نام بتائیے؟تو آپ نے ارشاد فرمایا:علی ان میں سے ایک ہیں۔([5])

 محبتِ علی ہے محبتِ رسول

حضرت اُمِّ سَلَمَہ  رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا:مَنْ اَحَبَّ عَلِیًّا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَ مَنْ اَحَبَّنِیْ فَقَدْ اَحَبَّ اللہ یعنی جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ پاک سے محبت کی۔ وَ مَنْ اَبْغَضَ عَلِیّاً فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ وَ مَنْ اَبْغَضَنِیْ فَقَدْ اَبْغَضَ اللہ یعنی جس نے علی سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے اللہ پاک سے دشمنی کی۔([6])

الغرض مولائے کائنات  رضی اللہ عنہ  کو حضور کی وہ خاص محبت عطا ہوئی کہ بغضِ علی بغضِ مصطفےٰ ہو گیا،محبتِ علی کو وہ مقام عطا فرمایا کہ محبتِ مصطفےٰ ہو گئی۔پیارے آقا  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کو بہت محبوب رکھتے اور ان سے ارشاد فرمایا:اَنْتَ اَخِیْ فِی الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔([7])

اللہ پاک ہمیں مولا علی  رضی اللہ عنہ  کی محبت عطا فرمائے اور ان کے صدقے ہماری مغفرت فرمائے۔

اٰمین بِجاہِ النبی الامین  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

محترمہ بنتِ ذوالفقار انور

( فیضانِ اُمِّ عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ)

ویسے تو ہر صحابی سے حضور کو پیار تھا،ہر صحابی آپ کا محبوب تھا،لیکن بعض ایسے خوش نصیب ہیں جن سے آپ کو خاص تعلق اور محبت تھی،ان میں حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی ذاتِ گرامی بھی ہے۔حضرت علی  رضی اللہ عنہ  ان خوش نصیب صحابہ میں سے ہیں،جن کے بارے میں آپ نے فرمایا:میں اور الله پاک ان سے محبت کرتے ہیں،جیسا کہ امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:رسولِ پاک  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ  سے فرمایا:اَنْتَ مِنِّي، وَ اَنَا مِنْكَ یعنی تم مجھ سے اور میں تم سے ہوں۔([8])

معلوم ہوا!حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کو حضور کا قرب حاصل ہے، اسی طرح نبی کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ جس کا میں مولیٰ ہوں،اس کا علی بھی مولیٰ ہے۔([9])

حضرت علی  رضی اللہ عنہ   کے ساتھ حضور کو کتنی محبت تھی اس کو  حضرت ابنِ عباس  رضی اللہ عنہ ما کچھ یوں بیان فرماتے ہیں کہ حضور نے مجھ کو حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کے پاس(یہ پیغام دے کر) بھیجا اور فرمایا:اے علی!تم دنیا اور آخرت میں سردار ہو،جس نے تم سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔تمہارا دوست الله پاک کا دوست ہے اور تمہارا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن الله پاک کا دشمن ہے۔ہلاکت ہے اس کے لئے جو میرے بعد تم سے بغض رکھے۔([10])

 بلاشبہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  سے محبت ایمان کی دلیل ہے اور ان سے بغض منافق کی نشانی ہے۔

 عطائے مصطفےٰ برائے مولا علی

حضور  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کو حضرت علی  رضی اللہ عنہ  سے بے حد محبت تھی اور فطری عمل ہے کہ جس سے محبت ہو اس کو  تحائف و انعام دے کر بھی محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔لہٰذا مولا علی، شیرِ خدا  رضی اللہ عنہ  کو بارگاہِ رسالت سے یوں تو وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ انعامات اور چیزیں ملتی رہیں، مگر سب سے بڑھ کر اور سب سے قیمتی انعام یہ رہا کہ دنیا ہی میں جنت کی بشارت پائی اور جگر گوشۂ رسول حضرت بی بی فاطمہ بتول  رضی اللہ عنہا آپ کے نکاح میں آئیں۔اس مضمون میں آپ بارگاہِ رسالت سے مولیٰ علی  رضی اللہ عنہ  کو ملنے والی کچھ چیزوں کے بارے میں پڑھیں گی۔لہٰذا ملاحظہ فرمائیے:

 کبھی تلوار ذو الفقار عطا کی:

ایک روایت میں ہے کہ حضور نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کو اپنی تلوار ذو الفقار عطا فرمائی،آپ کو اپنی لوہے کی زِرہ پہنائی اور اپنا عمامہ باندھا۔([11])

 کبھی نعلین ٹھیک کرنے کےلئے دی:

ایک مرتبہ حضور کی نعلینِ مبارکہ کا تسمہ ٹوٹ گیا، حضرت علی  رضی اللہ عنہ  اس وقت اپنے گھر میں تھے،حضور نے اپنی نعلینِ مبارک آپ کو دیں تاکہ وہ نعلینِ مبارکہ کا تسمہ ٹھیک کر دیں۔([12])

کبھی کنگھی عطا فرمائی:

بارگاہِ رسالت میں ایک مرتبہ دو کنگھیاں پیش کی گئیں تو  حضور نے ان میں سے ایک حضرت زید بن حارثہ   رضی اللہ عنہ   کو اور دوسری مولیٰ علی   رضی اللہ عنہ  کو عطا فرمائی۔([13])

سبحانَ الله!کیا شان ہے حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی!کس قدر حضور کی محبت اور شفقت کو پایا بلکہ صرف اتنا ہی نہیں حضرت علی  رضی اللہ عنہ  نے ایک قول کے مطابق 10 سال کی عمر میں اسلام قبول کر کے بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف پایا۔([14])اور بچپن سے لے کر حضور کے ظاہری وصال فرمانے تک سفر و حضر اور اہلِ بیت ہونے کی وجہ سے بسا اوقات گھر میں بھی حضور کے ساتھ ہوتے اور حضور  کی سنتوں کو دل و جان سے اپناتے۔ بلکہ حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:حضرت علی  رضی اللہ عنہ   لوگوں میں سنت کو زیادہ جاننے والے ہیں۔([15])

علم و حکمت کا دروازہ

حضرت علی  رضی اللہ عنہ  علمی اعتبار سے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہ م میں ایک خاص مقام رکھتے تھے اور کیوں نہ رکھتے ہوں کہ خود  حضور نے آپ کو علم سکھایا اور پھر آپ کی  علمی شان بیان کرتے ہوئے آپ کو علم و حکمت کا دروازہ فرمایا ہے۔چنانچہ ارشاد فرمایا:  اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔([16])

 دعائے مصطفےٰ

حضور نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کے سینے پر ہاتھ رکھ کر یوں دعا کی:اَللّٰهُمَّ اِمْلَأْ قَلْبَهٗ عِلْماً وَفَهْماً وَحِكَماً وَ نُوراً یعنی اے اللہ!علی کے سینے کو علم،عقل و دانائی ، حکمت اور نور سے بھر  دے۔([17])

 قرآن سے محبتِ علی کی دلیل

فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ

(پ3، الِ عمرٰن:61)

ترجمہ:تو تم ان سے فرما دو:آ ؤ ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنی جانوں کو اور تمہاری جانوں کو(مقابلے میں)بلا لیتے ہیں۔

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اس آیت میںاَنْفُسَنَا ( اپنی جانوں کو)کے مصداق مفسرین نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کو بھی قرار دیا ہے۔اس سے پتا چلتا ہے کہ حضور نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کو اپنی جان کی طرح عزیز سمجھا۔حضرت علی  رضی اللہ عنہ  وہ شخصیت ہیں جن سے حضور نے بے پناہ محبت فرمائی،آپ کو اپنی جان کا حصہ قرار دیا، اپنی اُمت کے سامنے ان کی فضیلت کو بیان کیا اور یہ واضح کر دیا کہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔یہ چند اقوال و احادیث اور آیتِ مبارکہ  آپ کے سامنے پیش کیے گئے ہیں ورنہ اگر ان تمام کا احاطہ کیا جائے تو ایک بہت بڑی کتاب بن سکتی ہے، ان تمام باتوں کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے دل میں حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی محبت پیدا ہو جائے اور ہم ان کی طرح زندگی گزارنے والی بن جائیں۔

 قرآن و حدیث دونوں میں حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کے مقام اور حضور کی محبت کی بے شمار گواہیاں موجود ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کو نہ صرف ایک عظیم صحابی بلکہ ایمان، قربت اور محبت کی علامت سمجھتے ہیں۔

 وقتِ وفات وصیت

17 رمضان کو  آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا، زہر میں بجھی ہوئی تلوار کا وار آپ کے دماغ تک پہنچ گیا، آپ کے پاس حضور  کی بچی ہوئی خوشبو موجود تھی،ایک وصیت یہ کی کہ مجھےوہی خوشبو لگا کر دفن کیا جائے۔تین رات کے بعد آپ نے شہادت پائی۔([18])

بعدِ خُلفائے ثَلاثہ سب صَحابہ سے بڑا

آپ کو رُتبہ ملا مولیٰ علی مشکلکُشا([19])

الله پاک ہم سب کو حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی محبت عطا فرمائے۔ اٰمین بِجاہِ خاتمِ النبیین  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم



[1] سنن کبریٰ للنسائی،5/133،حدیث:84762

[2] مسند امام احمد، 2/262، حدیث:950

[3] بخاری، 2/535، حدیث:3702

[4] معجم کبیر، 1/318، حدیث:941

[5] ترمذی، 5/400، حدیث:3739

[6] معجم کبیر، 23 /380، حدیث:901

[7] ترمذی، 5/401، حدیث:3741

[8] مسند امام احمد، 2/213، حدیث:857

[9] مسند امام احمد، 2/262، حدیث:950

[10] فضائل الصحابہ، 2/642، حدیث:1092

[11] سیرت حلبیہ، 2/427

[12] فضائل الصحابہ، 2/ 637، حدیث:1083

[13] احکام القرآن لابن العربی، 3/538

[14] ترمذی، 5/411،حدیث:3755

[15] تاریخ ابن عساکر ، 42 / 408

[16] مستدرک، 4/96، حدیث:4693

[17] تاریخ ابن عساکر ، 42 / 386، رقم:8993

[18] تہذیب الاسماء و اللغات، 1/349

[19] وسائل بخشش، ص522


Share