موضوع: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات و عجائبات (آخری قسط)
گزشتہ سے پیوستہ:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات و عجائبات کا ذکر جاری ہے، مزید ملاحظہ فرمائیے:
حضرت خضر سے ملاقات:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حیات مبارکہ کا ایک اہم اور نہایت دلچسپ پہلو حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہے،اس واقعے میں بہت سے عجائب و غرائب پوشیدہ ہیں،اس کا تفصیلی واقعہ یہ ہے کہ ایک بار دورانِ وعظ آپ سے پوچھا گیا:کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ سے بڑا عالم بھی کوئی ہے؟آپ نے فرمایا:نہیں۔اللہ پاک نے وحی فرمائی:اے موسیٰ تم سے بڑا عالم وہ بندہ ہے جو مجمعِ بحرین(دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ)میں رہتا ہے۔اس تک پہنچنے کی نشانی یہ ہے کہ جہاں تم سےمچھلی گم ہو جائے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے خادم حضرت یوشع بن نون کے ساتھ روانہ ہوئے اور ایک مچھلی بھی ٹوکری میں رکھ لی۔ راستے میں ایک چٹان کے پاس آرام کے دوران مچھلی زندہ ہو کر دریا میں کود گئی اور پانی میں ایک محراب نما سرنگ بن گئی۔ حضرت یوشع نے یہ منظر دیکھا مگر بھول گئے کہ حضرت موسیٰ کو بتائیں۔بعد میں کھانے کے وقت جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے مچھلی کے متعلق معلوم کیا تو انہیں یاد آیا کہ وہ تو زندہ ہو کر پانی میں چلی گئی تھی، انہوں نے جب معاملہ بتایا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام فوراً واپس آئے اور اس مقام کو پہچان لیا۔وہاں ایک بزرگ چادر اوڑھے آرام فرما تھے،یہی حضرت خضر تھے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سلام کیا اور درخواست کی کہ میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں تاکہ وہ علم سیکھوں جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے۔([1])
حضرت موسیٰ و خضرکی اس ملاقات کا ذکر قرآنِ کریم کی سورۂ کہف میں بھی موجود ہے،چنانچہ جب حضرت موسیٰ نے حضرت خضر کے ساتھ رہنے کی درخواست کی تو انہوں نے جواب دیا:آپ میرے ساتھ ہرگز نہ ٹھہر سکیں گے اور آپ اس بات پر کس طرح صبر کریں گے جسے آپ کا علم محیط نہیں۔ حضرت خضر نے یہ اس لیے فرمایا تھا کہ وہ جانتے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کچھ ناپسندیدہ اور ممنوع کام دیکھنا پڑیں گے اور انبیائے کرام سے ممکن ہی نہیں کہ وہ ممنوع کام دیکھ کر صبر کر سکیں۔([2]) اس پر حضرت موسیٰ نے فرمایا:اگر اللہ پاک چاہے گا تو عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں آپ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کروں گا۔حضرت خضر بولے:اگرآپ کو میرے ساتھ رہنا ہے تو مجھ سے کسی چیز کے متعلق سوال نہ کیجئے گا جب تک کہ میں خود آپ کے سامنے اس کا ذکر نہ کر دوں۔([3]) اس کے بعد حضرت موسیٰ و خضر کے اس واقعے میں حضرت یوشع کا ذکر نہیں ملتا، شاید اس لیے کہ وہ حضرت موسیٰ کے تابع تھے اس لیے ان کے ذکر کی ضرورت نہ تھی، یا ہو سکتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے انہیں واپس بھیج دیا ہو۔([4])
راہِ سفر میں درپیش تین عجیب واقعات:
اس کے بعد وہ دونوں ایک کشتی پر سوار ہوئے،کشتی والے نے بغیر معاوضہ کے انہیں سوار کر لیا،جب کشتی بیچ سمندر میں پہنچی تو حضرت خضر نے کلہاڑی سے اس کا ایک تختہ اکھاڑ ڈالا،یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ خاموش نہ رہ سکے بول پڑے،حضرت خضر نے آپ کو شرط یاد دلائی تو حضرت موسیٰ نے معذرت کی۔پھر کشتی سے اتر کر دونوں کا گزر ایک ایسے مقام سے ہوا جہاں کچھ لڑکے کھیل رہے تھے،ان میں ایک لڑکا نہایت حسین و جمیل اور وہ حدِ بلوغ کو بھی نہ پہنچا تھا۔بعض مفسرین نے کہا وہ لڑکا جوان تھا اور لوٹ مار کرتا تھا اور کافر تو بہرحال وہ تھا۔([5]) حضرت خضر نے اسے سر سے پکڑ کر اس کا سر جدا کر دیا۔ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اسے لٹا کر چھری سے ذبح کر دیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے اس کا سر دیوار پر مارا جس سے وہ مر گیا۔ حضرت موسیٰ سے پھر نہ رہا گیا اور آپ غصے میں بولے: یہ آپ نے کیا کیا؟ایک نابالغ بچے کو قتل کر دیا جو صاف ستھرا گناہوں سے پاک تھا، اس پر کوئی قصاص بھی لازم نہیں تھا!([6]) حضرت خضر نے پھر وعدہ یاد دلایا تو حضرت موسیٰ نے فرمایا:اس کے بعد اگر میں نے کوئی سوال کیا تو آپ میرا ساتھ نہ دیجئے گا ۔ اس کے بعد دونوں حضرات چلتے چلتے ایک ایسی بستی کے پاس پہنچے جہاں کے رہنے والے اتنے بے مروت نکلے جنہوں نے کھانا تک دینے سے انکار کر دیا۔پھر بھی اس بستی کے ایک گھر کی گرتی ہوئی دیوار کو حضرت خضر نے اپنے دستِ مبارک سے سیدھا کر دیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام پھر بول پڑے: اگر آپ چاہتے تو اس دیوار کو سیدھی کرنے پر کچھ مزدوری لے لیتے، کیونکہ یہ ہماری حاجت کا وقت ہے اور بستی والوں نے ہماری کچھ مہمان نوازی نہیں کی، اس لیے ایسی حالت میں ان سے اجرت لینا مناسب تھا۔([7]) چنانچہ،
اب کی بار اس اعتراض پر حضرت خضر بولے:اب آپ کے وعدے کے مطابق ہماری جدائی کا وقت آچکا ہے،البتہ یہ تین کام جو میں نے کیے ہیں جن پر آپ نے اعتراض کیا ان میں سے ہر ایک کی وجہ اور حکمت بیان کر دیتا ہوں تاکہ آپ کے علم سیکھنے کی غرض پوری ہوجائے جس کے لیے آپ میرے پاس آئے تھے یعنی علم حاصل کرنے کے لئے۔([8])
کشتی عیب دار کرنے کی وجہ:
کشتی کے تختے اکھاڑنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ کشتی کچھ مسکینوں کے روزگار کا واحد ذریعہ تھی، جبکہ قریب ہی ایک ظالم بادشاہ اچھی و صحیح کشتیوں کو چھین لیتا تھا، اس لیے میں نے اسے عیب دار کر دیا تاکہ وہ ان غریبوں کے لیے محفوظ رہے۔([9])
لڑکے کو قتل کرنے کی حکمت:
وہ لڑکا جسے میں نے قتل کیا وہ کافر تھا اگر وہ زندہ رہتا تو اپنے ماں باپ کو کفر اور سرکشی میں مبتلا کر دیتا۔ اس بچے کا حضرت خضر علیہ السلام کے ہاتھوں مارا جانا اللہ کے تکوینی امور میں سے ہے، جیسے اللہ پاک فرشتوں کے ذریعے بچوں، جوانوں کو موت دیتا ہے، جس کی حکمتیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن تکوینی امور میں ایسے تصرفات کی سب کو اجازت نہیں بلکہ تفصیل یہ ہے کہ فرشتے تو ہیں ہی حکمِ الٰہی کے پابند اور کارکنانِ قضا و قدر،لہٰذا ان کا معاملہ جدا ہے اور انسانوں میں اگر اللہ پاک کسی نبی کو وحی کے ذریعے ایسا حکم دے تو بھی جائز ہے اور ثابت ہے جیسا کہ اسی واقعہ میں اور جہاں تک اولیا کا معاملہ ہے تو اولیا کو ایسے امور کی اجازت نہیں۔ اگر حضرت خضر کو صرف ولی مانا جائے تو پھر یہ حکم ہماری شریعت میں منسوخ ہے اور ہمارے زمانے میں اگر کوئی ولی کسی کے ایسے باطنی حال پر مطلع ہوجائے کہ یہ آگے جاکر کفر اختیار کر لے گا اور دوسروں کو کافر بھی بنا دے گا اور اس کی موت بھی حالتِ کفر میں ہوگی تو وہ ولی اس بنا پر اسے قتل نہیں کرسکتا،جیساکہ امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:باطن کا حال جان کر بچے کو قتل کر دینا حضرت خضر کے ساتھ خاص ہے،انہیں اس کی اجازت تھی۔اب اگر کوئی ولی کسی بچے کے ایسے حال پر مطلع ہو تو اس کیلئے قتل کرنا جائز نہیں ہے۔([10])
مفسرین کا قول ہے کہ اللہ پاک نے اس کے والدین کو اس کے بدلے ایک مسلمان لڑکا عطا کیا اور ایک قول یہ ہے کہ ایک بیٹی عطا کی جو ایک نبی کے نکاح میں آئی اور اس سے نبی پیدا ہوئے جن کے ہاتھ پر اللہ نے ایک امت کو ہدایت دی۔ ([11])
دیوار کیوں سیدھی کی؟
آخر میں حضرت خضر علیہ السلام نے دیوار کو سیدھا کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی جن کا باپ نیک آدمی تھا، اس دیوار کے نیچے خزانہ تھا لہذا اللہ پاک نے چاہا کہ دونوں جوان ہو کر اپنا خزانہ نکال لیں، یہ سب اللہ کی رحمت سے ہے اور جو کچھ میں نے کیا وہ میری اپنی مرضی سے نہ تھا بلکہ اللہ کے حکم سے تھا، یہ ان باتوں کی وجوہات و وضاحت ہے جس پر آپ صبر نہ کرسکے۔ ([12])
اس واقعے کی روشنی میں بالخصوص بستی والوں کے واقعے کے ذیل میں علما نے علم و حکمت کی بہت ایمان افروز باتیں ذکر فرمائی ہیں، چند ملاحظہ فرمائیے:
*یہاں قرآنِ کریم نے اس واقعے کو جن الفاظ میں بیان کیا ہے،اس کے متعلق امام رازی فرماتے ہیں:جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی:
فَاَبَوْا اَنْ یُّضَیِّفُوْهُمَا
(پ16،الکہف:77)
ترجمہ: انہوں نے ان دونوں کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کردیا۔
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
تو اس بستی کے لوگ حضور کی خدمت میں سونا لے کر حاضر ہوئے، جنہیں بڑی شرم آرہی تھی( کہ ان کے آباؤ اجداد اتنے کم ظرف تھے کہ دو تین مسافروں کو کھانا نہ کھلا سکے)اور انہوں نے عرض کی:یارسول اللہ!ہم اس سونے کے عوض صرف با کے بدلے تا خریدنا چاہتے ہیں،یعنی آپفَاَبَوْا اَنْ یُّضَیِّفُوْهُمَا)پ16،الکہف:77)(ترجمہ: انہوں نے ان دونوں کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کردیا۔)کی جگہ فَاَتَوْا اَنْ یُّضَیِّفُوْہُمَا(انہوں نے ان دونوں کی مہمان نوازی کی) کر دیں۔حضور نے انکار کیا اور فرمایا:اس ایک نقطے کی تبدیلی سے اللہ پاک کے کلام میں جھوٹ داخل کرنا لازم آئے گا اور جھوٹ الوہیت میں عیب کا سبب ہے۔معلوم ہو اکہ قرآن کے ایک نقطے کو بدلنا رب کی ربوبیت اور عبد کی عبودیت کو باطل کر دیتا ہے ۔([13])
* باپ کی نیکی اولاد کے کام آجاتی ہے اور نبی اُمت کے مثلِ باپ کے ہیں تو ان شاء اللہ حضور کی نیکیاں ہم گناہ گاروں کے کام آئیں گی۔نبی کی نیکیوں میں ہمارا بھی حصہ ہے۔خیال رہے کہ وہ ان بچوں کا آٹھویں پشت کا باپ تھا۔روح البیان میں ہے کہ حرم شریف کے کبوتر اس کبوتری کی اولاد ہیں جس نے ہجرت کی رات غار ثور پر انڈے دیئے تھے اللہ پاک نے اس کبوتری کی برکت سے اس کی اولاد کا اتنا احترام فرمایا تو قیامت تک حضور کی اولاد کا کتنا احترام ہوگا!
*اس سے وسیلہ کا ثبوت ہوا کہ ان کے باپ کے وسیلہ سے ایک نبی کو ان کی ٹوٹی ہوئی دیوار ٹھیک کرنے کے لیے بھیجا۔
* اگر باغِ فدک حضور کی میراث اور فاطمۃ الزہرا کا حصہ ہوتا تو اللہ ضرور بی بی فاطمہ کو دلواتا۔اسے کوئی نہ لے سکتاتھا، جب اس نیک باپ کی میراث کی حفاظت کے لیے حضرت خضر کو بھیجا دیوار بنواکر اس کو محفوظ کردیا، تو حضرت فاطمہ کی میراث یونہی ضائع کروادی جاتی یہ ناممکن ہے معلوم ہوا کہ باغِ فدک وغیرہ حضور کی میراث تھی ہی نہیں بلکہ وقف تھیں۔
* معلوم ہوا کہ یتیم صرف نابالغ کو کہتے ہیں بالغ یتیم نہیں کہلاتا۔([14])
* یہ آیت دلالت کر رہی ہے کہ نیکوں کی اولاد کی رعایت اور ان کے فائدے کے لئے ممکنہ کوشش مسلمانوں پر حق ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ کافر اور سرکش نہ ہوں اگر کافر یا سرکش ہوں تو وہ زیادہ سزا کے مستحق ہیں ۔([15])
حضرت خضر کی حضرت موسیٰ کو نصیحت:
رخصت ہوتے وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر سے فرمایا کہ مجھے کچھ نصیحت کیجیے!حضرت خضر نے کہا:علم کی طلب لوگوں سے بیان کرنے کے لیے نہ کرنا،بلکہ عمل کرنے کے لیے علم کی طلب کرنا۔([16])اس کے علاوہ درج ذیل نصیحتیں فرما کر آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رخصت کیا:
* تم مخلوق کے نافع بنو *مضرنہ بنو* ہمیشہ ہشاش بشاش چہرہ رکھو*منہ چڑھائے نہ رہو*لوگوں کی خوشامد نہ کرو* بلاوجہ کہیں نہ جاؤ *زیادہ نہ ہنسو*کسی گناہ گار کو اس کی توبہ کے بعد عار نہ دلاؤ * ہمیشہ اپنی خطا پر رویاکرو* آج کا کام کل پر نہ چھوڑو * آخرت کی فکر رکھو۔([17])
قصۂ موسیٰ و خضر سے حاصل ہونے والے نتائج:
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں: اس قصہ سے یہ نتیجہ بھی نکالا جاسکتا ہے کہ آدمی کو اپنے علم پر غرور نہ کرنا چاہیے اور جو بات پسند نہ آئے اور اچھی نہ لگے اس کے انکار میں جلدی نہ کرے ممکن ہے اس کی تہ میں ایک ایسی پوشیدہ حقیقت ہو جس سے یہ شخص ناواقف ہو۔معلم کا ادب کیا جائے۔گفتگو میں تہذیب رکھی جائے۔ قصور وار کو اس کے قصور پر خبردار کرنا اور پھر معاف کردینا چاہیے اور جب اس سے بار بار قصور واقع ہو تو اس سے جدائی اختیار کر لی جائے۔(حضرت موسیٰ اور حضرت خضر کے اس قصے سے ان تمام باتوں کی تعلیم حاصل ہو رہی ہے۔)([18])
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وصال:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وصال میدانِ تیہ میں ہی 120 سال کی عمر میں ہوا،جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے بنی اسرائیل کے سامنے کھڑے ہوکر ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں وعظ و نصیحت فرمائی اور حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ مقرر فرمایا۔([19]) آپ کی وفات کے 40 سال بعد حضرت یوشع علیہ السلام کو نبوت عطا کی گئی اور جبارین (قومِ عمالقہ) سے جہاد کا حکم دیا گیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے متعلق مروی ہے: ملک الموت کو آپ کے پاس بھیجا گیا،جب وہ آئے تو حضرت موسیٰ نے انہیں ایک تھپڑ مار دیا جس سے ان کی آنکھ باہر نکل آئی،ملک الموت اللہ کی بارگاہ میں وپس لوٹے اور عرض کی:تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیج دیا ہے جو مرنے کا ارادہ نہیں رکھتا، اللہ پاک نے ان کی آنکھ واپس لوٹا دی اور فرمایا:ان کے پاس دوبارہ جاؤ اور ان سے کہنا:اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھیں،آپ کے ہاتھ کے نیچے آنے والے ہر بال کے بدلے ایک سال آپ کی عمر میں اضافہ کر دیا جائے گا۔یہ پیغامِ الٰہی سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:اے میرے رب! اس کے بعد؟فرمایا:پھر موت۔عرض کی:تو پھر ابھی مرنا ٹھیک ہے۔ پھر آپ نے اللہ پاک سے عرض کی کہ وہ انہیں مقدس زمین سے ایک پتھر پھینکے جانے کے قریب کر دے۔حضور نے ارشاد فرمایا:اگر میں وہاں ہوتا تو ضرور تمہیں راستہ کی ایک جانب سرخ ریت کے ٹیلوں کے پاس ان کی قبر دکھاتا۔([20])
شارحِ مسلم امام شرف الدین نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیت المقدس میں دفن ہونے کی خواہش اس لیے کی کہ وہ مقامِ انبیائے کرام کے دفن ہونے کی وجہ سے مشرف تھا،آپ کی دعا سے واضح ہوا کہ فضیلت والے مقام میں نیک لوگوں کے قرب و جوار میں دفن ہونا مستحب ہے۔([21])فقہ حنفی کی مشہور و معتبر کتاب”فتاویٰ ہندیہ“ میں ہے: نیک لوگوں کے قبرستان میں میت کو دفن کرنا افضل ہے۔([22])
نیز اس حدیثِ پاک سے واضح ہوا کہ ملک الموت حضرت عزرائیل علیہ السلام کو انبیائے کرام پر کوئی تسلط نہیں،بعض انبیائے کرام علیہم السلام نے حکمِ باری کو قبول کرتے ہوئے فوراً ہی حضرت عزرائیل علیہ السلام کو خوش آمدید کہا،بعض انبیائے کرام علیہم السلام نے انہیں اپنے پاس بلا اجازت آنے پر تنبیہ کی اور بتایا کہ ملک الموت علیہ السلام کو ان پر کوئی تسلط حاصل نہیں،پھر اللہ پاک کے پاس جانے کو بھی ترجیح دی،عمر کی مہلت ملنے کے باوجود قبول نہیں فرمائی، یہ اس لیے تھا کہ ان کا مقصد عمر کا حصول نہیں ہوتا بلکہ شانِ انبیائے کرام کو لوگوں پر واضح کرنا مقصدِ عظیم ہوتا ہے۔([23])
الحمدُ للہ!حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات و عجائبات کا بیان مکمل ہوا۔
Comments