حضرتِ موسیٰ کے معجزات عجائبات (قسط:06)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ: معجزاتِ انبیا

موضوع: حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کے معجزات و عجائبات (قسط6)

گزشتہ سے پیوستہ:

حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کے معجزات و عجائبات کا ذکر جاری ہے۔پچھلی قسطوں میں حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کے مصر واپسی کے بعد جادوگروں سے مقابلے اور ان کے ایمان لانے تک کا ذکر ہو چکا ہے،اب اس کے بعد رونما ہونے والے معجزات و عجائبات ملاحظہ فرمائیے:

معجزاتِ موسیٰ فرعون کے ڈوبنے تک

فرعون نے اپنے چار سو برس کی عمر میں سے تین سو بیس سال تو اس آرام کے ساتھ گزارے تھے کہ اس مدت میں کبھی درد یا بخار یا بھوک میں مبتلا نہیں ہوا تھا،فرعونیوں پر قحط سالی کی سختی اس لئے ڈالی گئی کہ وہ اس سختی ہی سے خدا کو یاد کریں اور اس کی طرف متوجہ ہوں،لیکن وہ کفر میں اس قدر راسخ ہوچکے تھے کہ ان تکلیفوں سے بھی ان کی سرکشی ہی بڑھتی رہی۔([1])اور انہوں نے ایسی روش اختیار کی کہ انہیں کوئی بھلائی پہنچتی تو اپنی طرف منسوب کرتے اور کوئی مصیبت پہنچتی تو اسے حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے۔جیسا کہ قرآن میں ہے:

فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖۚ-وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗؕ-

(پ9،   الاعراف: 131)

ترجمہ:تو جب انہیں بھلائی ملتی تو کہتے یہ ہمارے لئے ہے اور جب برائی پہنچتی تو اسے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے۔

الغرض جب ان کی سرکشی و نافرمانی حد سے بڑھ گئی اور جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی یہ اپنے کفر پر جمے رہے حتیٰ کہ حضرت موسیٰ سے انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا:

مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰیَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَاۙ-فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ(۱۳۲)

(پ9،الاعراف:132)

ترجمہ:(اے موسیٰ! )تم ہمارے اوپر جادو کرنے کے لئے ہمارے پاس کیسی بھی نشانی لے آؤ، ہم ہرگز تم پر ایمان لانے والے نہیں۔

تو حضرت موسیٰ نے ان کے خلاف دعا کی کہ یا رب!فرعون زمین میں بہت سرکش ہوگیا ہے اور اس کی قوم نے بھی عہد شکنی کی ہے، انہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر جو ان کے لیے سزا اور میری قوم اور بعد والوں کے لیے عبرت و نصیحت ہو۔ چنانچہ،

آپ کی دعا قبول ہوئی اور ان پر اللہ پاک کی طرف سے پےدرپے نشانیاں آنے لگیں،مسلسل عذابات آئے، ان میں سے ہر ایک عذاب ہفتہ کے دن سے لے کر اگلے ہفتہ یعنی سات روز تک رہتا، پھر وہ روتے ہوئے حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کے پاس آتے اور ایمان لانے کا عہد کرتے جب حضرت موسیٰ کی دعا سے عذاب دور ہوجاتا اور پہلے سے زیادہ نعمتوں کی کثرت ہوتی تو پھر وہ اپنے کفر پر قائم رہتے اور کہتے:یہ تو ہمارا حق تھا جو ہمیں ملا ہے ہم اپنا دین نہیں چھوڑیں گے!ایک مہینا سکون سے گزر جاتا،پھر دوسرا عذاب آتا اس طرح پانچ عذابات آئے،جس کی تفصیل تفسیرِ بغوی میں کچھ یوں مذکور ہے:

پہلا عذاب:

سب سے پہلے طوفان کا عذاب آیا، اس طرح کہ اللہ پاک نے بادل بھیجا اندھیرا چھاگیا اور بہت تیز بارش ہوئی جس کا پانی فرعونیوں کے گھروں میں بھر گیا، وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی ان کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیا، ان میں سے جو بیٹھا وہ ڈوب گیا، یہ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کرسکتے تھے، جبکہ انہی کے قرب و جوار میں رہنے والے بنی اسرائیل کے گھر محفوظ رہے ان میں پانی نہ آیا، ایک ہفتے تک اسی عذاب میں مبتلا رہے۔

دوسرا عذاب:

پھر اللہ پاک نے ٹڈیاں بھیجیں جو ان کی کھیتیاں،پھل، درختوں کے پتے،مکان کے دروازے،چھتیں،تختے،سب سامان یہاں تک کہ لوہے کی کیلیں تک کھاگئیں اور فرعونیوں کے گھروں میں بھر گئیں جبکہ بنی اسرائیل کے یہاں نہ آئیں۔

تیسرا عذاب:

پھر قُمّل کا عذاب آیا، یہ گھن، جوں  یا ایک چھوٹا سا کیڑا تھا جس نے جو کھیتیاں اور پھل باقی بچے تھے وہ کھا لیے، کپڑوں میں گھس جاتا، جلد کو کاٹتا، کھانے میں بھر جاتا، حتی کہ اگر کوئی دس بوری گندم چکی پرلے جاتا تو تین سیر واپس لاتا باقی سب کیڑے کھا جاتے، یہ کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں، پلکیں چاٹ گئے، ان کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے، ان کا سونا دشوار کر دیا تھا، یہ مصیبت بھی سات روز تک رہی۔

چوتھا عذاب:

یہ عذاب مینڈک کی صورت میں آیا،ان کی ہانڈیوں، کھانوں اور چولہوں میں مینڈک بھرجاتے جس سے آگ بجھ جاتی، وہ لیٹتے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے، کوئی آدمی بیٹھتا تو اس کے پاس مینڈک بھرجاتے، بولنے کے لیے منہ کھولتا تو مینڈک منہ میں داخل ہوجاتے۔ اس عذاب سے بھی وہ باز نہ آئے۔

پانچواں عذاب:

پھر اللہ پاک نے ان پر خون کا عذاب نازل کیا، ان کے تمام کنوؤں، چشموں اور نہروں کا پانی دریائے نیل کا پانی غرض کہ ہر پانی ان کے لیے تازہ خون بن گیا، سات دنوں تک پینے کے لیے خون کے سوا کچھ نہ ملا۔ ان تمام عذابات کو دیکھ کر بھی وہ ایمان نہ لائے۔ ([2])

معجزات کی تعداد:

اللہ پاک کا فرمان ہے:

وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ

(پ 15،  بنی اسرآءیل: 101)

ترجمہ:اور بیشک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

یہاں پر حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کو عطا کیے جانے والے جن نو معجزات کا ذکر ہے ان میں سے سات معجزات پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ وہ ان نو میں شامل ہیں، وہ سات یہ ہیں: عصا، یدِ بیضا، طوفان، ٹڈی، گھن، مینڈک اور خون، البتہ بقیہ دو معجزات کون سے ہیں اس میں اختلاف ہے، چنانچہ حضرت ابنِ عباس سے مروی روایت کے مطابق وہ دو معجزات حضرت موسیٰ کی زبان کی گرہ کا کھلنا (جس کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے) اور دریا کا پھٹنا اور اس میں راستہ بننا ہے (اس کا بیان آگے آئے گا) ۔ جبکہ دوسری روایت کے مطابق ان سے مراد سالوں کا قحط اور پھلوں کی کمی ہے۔ ([3])

فرعونیوں کی ہٹ دھرمی کی سزا:

الغرض جب فرعونی حضرت موسیٰ کے عظیم معجزات دیکھنے کے باوجود اپنے کفر و عناد پر قائم رہے اور ان لوگوں کی سرکشی کا سبب ان کا مال و دولت، دنیوی جاہ و زینت اور دل کی سختی تھی تو حضرت موسیٰ  علیہ السلام  نے ان کی بربادی کی دعا کی:

رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰۤى اَمْوَالِهِمْ وَ اشْدُدْ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ

(پ11،یونس:88)

ترجمہ: اے ہمارے رب !ان کے مال برباد کردے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے۔

آپ کی دعا قبول ہوئی اور ان کے تمام اموال،کھیتیاں،  ہیرے جواہرات سب پتھر بن گئے۔ ([4])

حضرت موسیٰ کو اللہ پاک نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو رات میں مصر سے نکال کر لے جائیں اب بنی اسرائیل کی نجات اور فرعون اور اس کی قوم کی تباہی کا وقت آچکا ہے۔ چنانچہ،

دریا کا پھٹنا:

حکم کے مطابق حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر راتوں رات مصر سے نکل گئے، جب فرعون نے ان کے مصر سے نکلنے کی خبر سنی تو اس نے نمائندے بھیج کر مختلف شہروں سے لشکر جمع کر لیے اور ان کے ساتھ حضرت موسیٰ و بنی اسرائیل کا تعاقب کیا، جب فرعونی ان کے قریب پہنچ گئے تو بنی اسرائیل کہنے لگے کہ اب تو ہم پکڑے جائیں گے، حضرت موسیٰ نے فرمایا:

كَلَّاۚ-اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ(۶۲)

(پ19،الشعراء:62)

ترجمہ:ہرگز  نہیں،بیشک میرے ساتھ میرا رب ہے وہ ابھی مجھے راستہ دکھا دے گا۔

اللہ پاک نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی فرمائی کہ اپنا عصا دریا پر ماریں، چنانچہ آپ نے دریا پر عصا مارا تو اچانک وہ پھٹ کر بارہ راستوں میں تقسیم ہوگیا،ہر راستہ بڑے پہاڑ جیسا ہوگیا اور ان کے درمیان خشک راستے بن گئے۔ ([5])

بنی اسرائیل چونکہ بارہ قبائل تھے ایک ہی راستے میں ایک دوسرے کے ساتھ چلنا مشکل تھا اس لیے ہر قبیلے کے لیے علیحدہ راستہ بنایا گیا، دریا میں بارہ راستے یوں بنے کہ ہر راستے کے دائیں بائیں پانی کی بلندی عظیم پہاڑوں جیسے تھی اور وہ ان پہاڑوں کی زمینی سطح میں چل رہے تھے،کہنے لگے کہ پتا نہیں ہمارے دوسرے بھائی زندہ ہیں یا پانی میں غرق ہوگئے،تو درمیان سے روشن دانوں کی طرح پانی کو ہٹا دیا گیا وہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے دریا عبور کر گئے۔ ([6])

فرعون اور فرعونیوں کا ڈوبنا:

فرعون اور اس کےلشکر نے بھی دریا میں راستہ دیکھ کر اپنے گھوڑے دوڑائے لیکن وہ بنی اسرائیل کو نہ پاسکے، حضرت عطاء بن سائب سے مروی ہے کہ فرعونیوں اور بنی اسرائیل کے درمیان جبرائیل امین تھے جو بنی اسرائیل کے پچھلے لوگوں کے دلوں میں یہ بات ڈال رہے تھے کہ جلدی چلو، اگلے لوگوں سے مل جاؤ اور فرعونیوں کے دلوں میں یہ بات ڈال رہے تھے کہ آہستہ چلو پچھلے لوگوں کو ساتھ ملنے دو۔ ([7])

بنی اسرائیل جب دریا عبور کرچکے اور فرعونی ابھی درمیان میں ہی پہنچے تھے تو پانی آپس میں مل گیا اس طرح فرعون اور اس کی قوم کے تمام لوگ ایک روایت کے مطابق ان کی تعداد چھ لاکھ تھی سب ڈوب گئے۔ ([8])

جب فرعون ڈوبنے لگا تو اس امید پر اپنے ایمان کا اظہار کرنے لگا کہ اللہ پاک اسے اس مصیبت سے نجات دے دے گا،اس وقت اس سے کہا گیا کہ کیا اب حالتِ مجبوری میں جبکہ عذابِ الٰہی کا شکار ہوکر ڈوبنے لگا ہے اور زندگی سے ناامید ہوچکا ہے،اس وقت ایمان لاتا ہے،حالانکہ اس سے پہلے تو نافرمان اور فسادی تھا اب تو ہم تیری لاش کو بعد والوں کے لیے عبرت کا نشان بنا کر باقی رکھیں گے۔

فرعون کو دریا میں ڈبونے کا جو عذاب دیا گیا یہ اس کی اپنی تجویز کردہ سزا کے مطابق تھا، جیسا کہ مروی ہے:ایک مرتبہ حضرت جبریل  علیہ السلام  فرعون کے پاس ایک تحریری سوال لائے،جس کا مضمون یہ تھا کہ ایسے غلام کے بارے میں بادشاہ کا کیا حکم ہے جس نے ایک شخص کے مال و نعمت میں پرورش پائی،پھر اس کی ناشکری کی اور اس کے حق کا منکر ہوگیا اور اپنے آپ مولیٰ ہونے کا دعوے دار بن گیا؟اس پر فرعون نے یہ جواب لکھا کہ جو غلام اپنے آقا کی نعمتوں کا انکار کرے اور اس کے مقابل آئے اس کی سزا یہ ہے کہ اسے دریا میں ڈبو دیا جائے، جب فرعون ڈوبنے لگا تو حضرت جبرئیل نے اس کی وہی تحریر اس کے سامنے کر دی اور اس نے اسے پہچان لیا۔  ([9])

(یہ سلسلہ جاری ہے اور ان شاء اللہ اگلی قسطوں میں حضرت موسیٰ  علیہ السلام   کے مزید معجزات و عجائبات بیان ہوں گے۔



[1] تذکرۃ الانبیاء، ص 532

[2] تفسیر بغوی، 2/159 تا 161 مفہوماً

[3] تفسیر بغوی، 3/115

[4] تفسیر بغوی، 2/ 308

[5] تفسیر جلالین، ص 312

[6] تذکرۃ الانبیاء، ص 541،540- تفسیر کبیر، 8/507

[7] تفسیر کبیر، 8/507

[8] تذکرۃ الانبیاء، ص 541

[9] تفسیر نسفی، ص 484


Share