حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات و عجائبات(قسط:08)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن


موضوع:حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کے معجزات و عجائبات (قسط8)

گزشتہ سے پیوستہ:حضرت موسیٰ   علیہ السلام   کے معجزات و عجائبات کا ذکرِ خیر جاری ہے، مزید ملاحظہ فرمائیے:

گائے سے مقتول کو زندہ کرنا:بنی اسرائیل کے لئے ظاہر ہونے والے معجزات میں سے ایک معجزہ”گائے کا واقعہ“بھی ہے جسے قرآنِ مجید کی سورۂ بقرہ میں تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک مالدار شخص عامیل کو اس کے کسی رشتہ دار نے وراثت اور خون بہا کے لالچ میں خفیہ طور پر قتل کر کے چوراہے میں پھینک دیا اور دعویٰ کر دیا کہ مجھے خون بہا دلوایا جائے، لوگوں نے حضرت موسیٰ  علیہ السلام  سے درخواست کی:آپ دعا فرمائیے کہ  اللہ  پاک حقیقتِ حال ظاہر فرما دے!اس پر حکم ہوا کہ ایک گائے ذبح کر کے اس کے کسی حصے  سے مردہ کو مارا جائے تو وہ زندہ ہوکر اپنے قاتل کا پتا بتا دے گا۔اس پر انہوں نے سوالات کا سلسلہ شروع کر دیا کہ اس گائے کے اندر کیا کیا اوصاف ہونے چاہئیں وہ دکھنے میں کیسی ہو، رنگ کون سا ہو!وغیرہ وغیرہ۔جوں جوں وہ سوالات بڑھاتے گئے قید بھی بڑھتی گئی بالآخر یہ حکم ہوا کہ ایسی گائے ذبح کرو جو بوڑھی ہو نہ کم عمر، بلکہ درمیانی عمر کی ہو، بدن پر کوئی داغ نہ ہو، ایک ہی رنگ کی ہو، رنگ آنکھوں کو بھانے والا ہو، اس گائے نے کبھی کھیتی باڑی کی ہو نہ کبھی کھیتی کو پانی دیا ہو۔ روایت میں ہے کہ وہ کوئی بھی گائے ذبح کر لیتے تو ان کو کفایت کرتی مگر انہوں نے خود بار بار پوچھ کر اپنے آپ پر سختی کروائی۔([1]) بہرحال آخری سوال میں انہوں نے کہا کہ اب ہم  ان شاء  اللہ   راہ کو پالیں گے،پھر انہوں نے گائے کی تلاش شروع کر دی۔ حضور نے فرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے!اگر وہ  ان شاء  اللہ   نہ کہتے تو ہمیشہ ان کے اور گائے کے حصول میں سوالات حائل رہتے۔([2]) یعنی جب انہوں نے کہا کہ اگر  اللہ  نے چاہا تو ہم ہدایت پائیں گے تو اسی وقت انہیں سوالات ختم کرنے کی توفیق حاصل ہوئی۔ ان اوصاف والی صرف ایک ہی گائے تھی اور وہ ایک بیوہ اور اس کے یتیم بچے کی تھی جو اس کے نیک و پرہیزگار شوہر نے اپنی وفات سے پہلے اپنے بچے کے لئے رب کی امانت میں جنگل میں چھوڑ رکھی تھی تاکہ یہ اس کے کام آئے، یہ بچھیا  اللہ  پاک کی حفاظت میں جنگل میں پرورش پاتی رہی، جب یہ لڑکا بڑا ہوا تو اپنے باپ کی طرح نیک پرہیزگار اور ماں کا فرمانبردار تھا،اس کی والدہ نے کہا:تمہارے والد نے ایک بچھیا تمہارے نام پر جنگل میں چھوڑی تھی وہ اب جوان ہوگئی ہوگی، اسے جاکر لے آؤ، وہ گیا اور اس گائے کو والدہ کی خدمت میں لے آیا۔

اس وقت گائے کی قیمت تین دینار تک تھی، والدہ نے بازار لے جا کر اتنی ہی قیمت میں فروخت کرنے کا حکم دیا مگر شرط رکھی کہ بیچنے سے پہلے مجھ سے اجازت لی جائے، لڑکا گائے کو بازار لایا تو ایک فرشتہ خریدار کی صورت میں آیا اور گائے کی قیمت 6 دینار لگا دی، مگر یہ شرط رکھی کہ والدہ کی اجازت کے بغیر بیچ دو، اس نے انکار کر دیا اور گھر آکر سارا قصہ والدہ کو سنایا، والدہ نے بیچنے کی اجازت دیدی مگر شرط وہی رکھی کہ بیچنے سے پہلے اجازت لینا، وہ پھر بازار آیا اس مرتبہ فرشتے نے 12دینار قیمت لگائی اور وہی کہا کہ والدہ سے پوچھے بغیر بیچ دو!اس نے پھر انکار کیا اور والدہ کو اطلاع دی، والدہ سمجھ گئیں کہ یہ عام خریدار نہیں کوئی فرشتہ ہے،  اس نے بیٹے سے کہا کہ اب وہ خریدار آئے تو اس سے پوچھنا کہ آپ اس گائے کو بیچنے کا حکم دیتے ہیں یا نہیں؟ لڑکے نے یہی کہا تو فرشتے نے جواب دیا کہ ابھی اسے روکے رہو، بنی اسرائیل تم سے یہ خریدنے آئیں گے تو اس کی کھال میں سونا بھر کر اس کی قیمت طلب کرنا، لڑکا گائے گھر لے آیا اور جب بنی اسرائیل تلاش کرتے ہوئے اس کے پاس آئے تو اسی قیمت اور حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کی ضمانت پر گائے بنی اسرائیل کے حوالے کر دی۔([3])

حضرت موسیٰ کی شرم و حیا:شرم و حیا ایک اعلیٰ اخلاقی وصف ہے جو کہ شریعت کو بھی مطلوب ہے، حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کی شخصیت میں بھی یہ وصف اپنے کمال کے ساتھ موجود تھا، جیسا کہ حضور  صلی  اللہ  علیہ واٰلہ وسلم  نے فرمایا:حضرت موسیٰ  علیہ السلام  بہت حیا والے اور اپنا بدن مبارک چھپانے کا خصوصی اہتمام کرنے والے تھے۔   ([4])  یہی وجہ ہے کہ جس معاشرے میں بنی اسرائیل ننگے ہوکر سب کے سامنے نہاتےتھے،اسی ماحول میں پروان چڑھنے والے حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کی شرم و حیا کا عالم یہ تھا کہ آپ اکیلے میں یا تہبند پہن کر نہاتے تھے، یہاں تک کہ ان لوگوں نے آپ کے متعلق یہ مشہور کر دیا کہ آپ کے جسم میں کوئی عیب ہے جس کو چھپانے کے لئے آپ چھپ کر نہاتے ہیں!آپ کو اس تہمت سے بڑا رنج ہوا تو آپ کے رب کریم نے آپ کی بےعیبی ظاہر کرنے کا ایسا ذریعہ پیدا فرما دیا کہ فوراً ان کے پروپیگنڈے اور شکوک و شبہات خاک میں مل گئے۔

ہوا کچھ یوں کہ ایک بار آپ اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ غسل فرما رہے تھے، جب غسل سے فارغ ہو کر کپڑے لینے پتھر کے پاس آئے تو وہ دوڑنے لگا، آپ بھی برہنہ حالت میں اس کے پیچھے دوڑتے رہے، دوڑتے دوڑتے وہ  پتھر پورے شہر کی ایک ایک سڑک اور گلی سے گزرا اور سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ  اللہ  پاک کے نبی کا جسم نہ صرف بےعیب ہے بلکہ جسمِ اقدس کا ہر ہر حصہ حسن و جمال میں اس قدر نقطۂ کمال کو پہنچا ہوا ہے کہ عام انسانوں میں اس کی مثال ملنا نا ممکن ہے، جب یہ پتھر پوری طرح آپ کی براءت کا اعلان کر چکا تو خود بخود ٹھہر گیا اور آپ نے جلدی سے اپنا لباس پہن لیا اور پتھر کو اپنے عصا سے مارا، حضرت ابوہریرہ رضی  اللہ  عنہ فرماتے ہیں: اللہ  پاک کی قسم!حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کے مارنے کی وجہ سے پتھر پر تین، چار یا پانچ نشان پڑگئے تھے۔([5])یہ ایک ہاتھ لمبا اور ایک ہاتھ چوڑا چوکور پتھر تھا جو ہمیشہ حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کے جھولے میں رہتا تھا، اللہ  پاک کے نبی کی براءت کے لئے  اتنی لمبی دوڑ لگانے والا یہ پتھر کوئی عام پتھر نہیں تھا بلکہ یہ وہ مبارک پتھر ہے جس کے ذریعے حضرت موسی  علیہ السلام  کے دو معجزات کا ظہور ہوا،([6])  ایک معجزہ تو یہی ہے جس کا ابھی ذکر ہوا،  دوسرا معجزہ میدانِ تیہ میں اس سے بارہ چشمے جاری ہونا ہے جو پہلے بیان ہو چکا ہے۔

قرآنِ مجید میں حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کو ستائے جانے اور  اللہ  پاک کے ان کی حفاظت فرمانے کا ذکر ہے، اس حوالے سے مختلف واقعات مذکور ہیں، مثلاً ایک واقعہ تو یہی آپ کے جسم میں عیب کی تہمت لگانا اور  اللہ  پاک کا پتھر کے ذریعے آپ کی براءت ظاہر فرمانا ہے یا پھر اس سے مراد قارون کا آپ پر تہمت لگوانے کی ناپاک ہمت کرنا ہے جس کا ذکر ہوچکا ہے۔یا اس سے مراد یہ واقعہ ہو سکتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کوہ ِ طور پر گئے تو وہاں حضرت ہارون  علیہ السلام  فوت ہوگئے۔چنانچہ

بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ  علیہ السلام  پر حضرت ہارون  علیہ السلام  کے قتل کا الزام لگا دیا جس سے آپ کو بہت تکلیف ہوئی،لہٰذا  اللہ  پاک کے حکم سے فرشتے حضرت ہارون  علیہ السلام  کی لاش آپ کی قبر سے نکال کر لائے اور آپ کی طبعی موت کی خبر دی، یوں  اللہ  پاک نے حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کو ان کی تہمت سے بری کر دیا۔([7])

(یہ سلسلہ جاری ہے اور اگلی قسطوں میں حضرت موسیٰ  علیہ السلام   کے مزید معجزات و عجائبات ذکر کئے جائیں گے۔ )




[1] تفسیر بیضاوی،1/340

[2] تفسیر کبیر، 1/549

[3] تفسیر خازن، 1/ 60، 61 ملتقطا

[4] بخاری، 2/442، حدیث:3404

[5] بخاری، 2/442، حدیث:3404 ملخصاً

[6] عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص 27

[7] تفسیر اشرفی، 8/ 42 مفہوماً


Share