موضوع:حضور کی عثمانِ غنی سے محبت
(نئی رائٹرز کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ دو مضمون 41ویں تحریری مقابلے سے منتخب کر کے ضروری ترمیم و اضافے کے بعد پیش کئے جا رہے ہیں۔)
اسلامی تاریخ کے صفحات پلٹیں تو اللہ پاک کے سب سے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اپنے اصحابِ سے گہری محبت اور تعلق کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ان اصحاب میں سے ایک نمایاں شخصیت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بھی ہیں،جو نہ صرف دا مادِ رسول بلکہ ذُو النُّوْرَیْن یعنی دو نور والے کے لقب سے بھی جانے جاتے ہیں۔ حضور کی عثمانِ غنی سے محبت صرف ایک رشتہ داری کی بنیاد پر نہ تھی، بلکہ یہ آپس کے احترام اور اعتماد پر مشتمل تھی۔
مثالی رشتہ داری اور غیر معمولی قربت:حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ حضور کی دو صاحبزادیاں حضرت رُقیہ اور ان کی وفات کے بعد حضرت اُمِّ کلثوم رضی اللہ عنہ ما ایک کے بعد ایک ان کے نکاح میں آئیں۔یہ بذاتِ خود اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حضور کو ان پر کس قدر اعتماد اور بھروسا تھا۔ ایک مرتبہ حضور نے فرمایا:عثمان کتنا اچھا انسان ہے!میرا دا ماد ہے، میری دو بیٹیوں کا شوہر ہے، اللہ پاک نے اس میں میرا نور جمع فرما دیا ہے۔([1]) یہ حضور کی حضرت عثمانِ غنی سے دلی محبت،ان کی پاکیزہ سیرت اور با اعتماد شخصیت پر مکمل یقین کا اظہار ہے۔
سخاوت اور جاں نثاری کا اعتراف:حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ اپنی بے مثال سخاوت اور بے لوث قربانیوں کی وجہ سے بھی مشہور تھے۔ انہوں نے کئی مواقع پر اسلام اور مسلمانوں کی مدد کے لئے اپنا سارا مال و اسباب پیش کر دیا۔غزوۂ تبوک کے موقع پر جب مسلمانوں کو شدید مالی مشکلات کا سامنا تھا تو حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے کثیر تعداد میں اونٹ،گھوڑے اور نقد رقم اللہ پاک کی راہ میں پیش کی جس پر حضور نے بے حد خوشی کا اظہار فرمایا اور ان کے حق میں دعا کی۔ایک مشہور حدیث کے مطابق حضور نے فرمایا:آج کے بعد عثمان کو کوئی عمل نقصان نہ دے گا۔([2]) یہ حضور کی طرف سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سخاوت کا عظیم اعتراف تھا اور حضور کی محبت اور دعائیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اللہ پاک نے ان کے خرچ کرنے کو قبول فرمایا اور اسے کئی گنا بڑھا دیا۔
حیا اور بردباری کی تعریف:حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ اپنی غیر معمولی حیا اور بُرد باری کے حوالے سے بھی جانے جاتے تھے یہاں تک کہ حضور نے خود ان کی حیا کی تعریف کی۔ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ حضور کے پاس حاضر ہوئے تو حضور نے اپنے کپڑوں کو درست فرمایا۔ جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو حضور نے فرمایا:کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں!([3])یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں ایسی پاکیزگی اور تقویٰ تھا جو فرشتوں کے لئے بھی قابلِ احترام تھا۔
الغرض حضور کی حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے محبت صرف ایک شخصی تعلق نہ تھا بلکہ یہ ان کے اعلیٰ اخلاق،بے مثال سخاوت،دین کے لئے قربانیوں اور غیر معمولی حیا جیسی صفات کا اعتراف تھا۔یہ محبت دینِ اسلام کے ان اصولوں کی عکاس تھی جو اخوت،ایثار اور تقویٰ پر مشتمل ہیں۔حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی آج بھی مسلمانوں کے لئے ایک بہترین نمونہ ہے اور حضور کی ان سے محبت اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام ان افراد کو کس قدر اہمیت دیتا ہے جو اپنے رب اور اس کے دین کے لئے مخلص ہیں۔ اللہ پاک ہمارے دلوں میں صحابہ کرام کی محبت پیدا فرمائے اور ان کے عشقِ رسول میں سے حصہ عطا فرمائے۔اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
محترمہ بنتِ ظہیر احمد قاضی (درجہ:ثالثہ،گوجر خان)
اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک صحبت پانے والا ہر صحابیِ رسول اہلِ ایمان کے سر کا تاج اور دل کی راحت ہے، نیز حضور اپنے سب صحابہ سے محبت کرتے تھے اور ہر ایک کا اگرچہ اپنا ایک رتبہ اور فضیلت ہے، لیکن ایک ہستی ایسی بھی تھی جن کے نکاح میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دو شہزادیاں ایک کے بعد ایک آئیں۔ اللہ پاک کے کسی نبی کا داماد ہونا ایک بہت بڑا اعزاز ہے جو خوش نصیب انسانوں کو ہی ملتا ہے اور حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی نبی کی دو بیٹیاں ایک ہی شخص کے نکاح میں نہ آئیں،اسی وجہ سے آپ کو ذُوالنُّوْرَیْن یعنی دو نور والا کہا جاتا ہے۔حضور حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے بہت محبت کرتے تھے اور یہ محبت اس وقت اور بڑھ جاتی تھی جب حضرت عثمانِ غنی نیکی کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور یہ محبت اس و قت نظر آتی جب حضرت عثمانِ غنی حضور کے فرمان کو عملی جامہ پہناتے، چاہے وہ رومہ نامی کنواں خرید کر مسلمانوں میں صدقہ کر کے ہو([4])یا پھر غزوۂ تبوک کے موقع پر سامان مہیا کر کے ہو۔([5]) حضور کی ان سے محبت کا ذکر کئی احادیث میں ہے ، مثلاً ایک مرتبہ آپ کے متعلق حضور نے فرمایا:ہر نبی کا جنت میں ایک ساتھی ہو گا اور میرا ساتھی عثمان ہو گا۔([6]) اسی طرح ایک بار حضور نے صحابہ کرام سے فرمایا:تم میں سے ہر شخص اٹھ کر اپنے ہم پَلَّہ کے پاس چلا جائے،یہ فرما کر حضور حضرت عثمانِ غنی کے پاس تشریف لائے اور ا نہیں گلے لگا کر ارشاد فرمایا:اَنْتَ وَلِيِّيْ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ یعنی تم دنیا و آخرت میں میرے دوست ہو۔([7])ایک مرتبہ حضور نے ان کے متعلق ارشاد فرمایا:اِنَّ عُثْمَانَ اَوَّلُ مَنْ هَاجَرَ اِلَى اللهِ بِاَهْلِهٖ بَعْدَ لُوْطٍ یعنی حضرت لوط علیہ السلام کے بعد عثمان وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ اللہ پاک کی طرف ہجرت کی۔([8])
شہزادیِ رسول سيده امِ كلثوم رضی اللہ عنہ ا نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !(کیا) سیدہ فاطمہ کے شوہر (حضرت علی)میرے شوہر (حضرت عثمانِ غنی)سے افضل ہیں ؟تو حضور نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ارشاد فرمایا: اللہ پاک اور اس کے رسول تمہارے شوہر سے محبت فرماتے ہیں اور وہ اللہ پاک اور اس کے رسول سے محبت کرتے ہیں۔مزید بتا دوں کہ اگر تم جنت میں جا کر اپنے شوہر کا ٹھکانا دیکھو تو میرے صحابہ میں سے کسی کا ٹھکانا ان سے بلند و بالا نہیں دیکھو گی۔([9])حضور اپنی اس دوسری شہزادی کی قبر کے پاس کھڑے ہوئے جو حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں(یعنی حضرت اُمِّ کلثوم)اور ارشاد فرمایا:اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں ضرور(ایک کے بعدایک)ان سب کا نکاح عثمان سے کر دیتا اور میں نے صرف آسمان سے آنے والی وحی پر ان کے ساتھ (اپنی بیٹیوں کا)نکاح کروایا۔([10])
حضور کی سیرتِ طیبہ سے ان لوگوں کو درس حاصل کرنا چاہیے جو شانِ صحابہ میں گستاخی کرتے ہیں۔جو ان ہستیوں میں سے کسی ایک پر بھی عیب لگائیں انہیں اس برے کام سے بچنا چاہیے۔ کیونکہ جو ان کی تعظیم نہیں کرے گا وہ یقیناً اللہ پاک کی کمالِ حکمت،تمامِ قدرت،حضور کی شانِ محبوبیت اور آپ کے بلند و بالا مرتبے پر الزام لگاتا ہے۔
دعا:اے رب!ہمیں بھی حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ جیسا شوقِ تلاوت کا جذبہ عطا فرما اور ہمیں بھی سچی عاشقاتِ رسول بنا اور ہمیں بھی بزرگوں جیسا ذوق و شوق عطا فرما۔حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی سیرت کا مطالعہ کیجئے اور اپنے عقائد محفوظ رکھنے کے لئے امیرِاہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ جیسی عظیم ہستی اور ولیِ کامل سے مرید ہو جائیے ان شاء اللہ ان کے ذریعے دنیا و آخرت میں ہمارا بیڑا پار ہے۔
[1] الروض الفائق،ص313
[2] ترمذی،5/392،حدیث:3721
[3] مسلم،ص1004،حدیث:6209 ملخصاً
[4] طبقات ابن سعد،1/392ماخوذاً
[5] بخاری، 2/529 ماخوذاً
[6] ابن ماجہ،1/79،حدیث:109
[7] مستدرک،4/54،حديث:4592
[8] معجم كبیر،1/90، حدیث:143
[9] مجمع الزوائد، 9/100، حدیث:14532
[10] معجم کبیر ،22/437،حدیث:1063


Comments