موضوع: حضور کی خاتونِ جنت سے محبت
کائنات میں قدرت کا سب سے حسین شاہکار ذاتِ مصطفےٰ ہے۔آپ کا وجودِ پاک وجہِ تخلیقِ کائنات ہے۔ایسے ہی رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نگاہِ ناز میں جس ہستی کا مقام و مرتبہ ہے، جو راحت و جانِ مجتبیٰ ہے وہ شہزادیِ کونین حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ہیں۔آپ اللہ پاک کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سب سے پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں۔آپ ہی وہ ہستی ہیں جنہیں سَیّدۃُ نِسَآءِ اَہْلِ الْجَنَّۃِ اور سَیِّدَۃُ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ جیسے القابات عطا ہوئے۔([1]) آپ کی چال ڈھال ہر وضع قطع حضور کے مشابہہ تھی۔ ([2])آپ سے حضور کو بے پناہ محبت تھی، حضور ان کے ساتھ بہت شفقت و محبت کا معاملہ فرماتے اور ان کو اپنی نشست پر بٹھاتے تھے۔([3])یہاں تک کہ سفر سے واپسی پر سب سے پہلے ان کے ہاں تشریف لاتے۔([4])
حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شہزادیِ کونین سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:میری بیٹی فاطمہ میرا ٹکڑا ہے۔جو چیز اسے بری لگے وہ مجھے بری لگتی ہے اور جو چیز اسے تکلیف دے وہ مجھے بھی تکلیف دیتی ہے۔([5])
یہ محبت ہی تھی جس کے سبب خود حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی لختِ جگر کی عفت و پارسائی بیان فرمایا کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عبدُ اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک فاطمہ نے پاک دامنی اختیار کی تو اللہ پاک نے اس کی اولاد کو دوزخ پر حرام فرما دیا ہے۔([6]) یہی وجہ تھی کہ خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کا نام فاطمہ رکھا گیا۔اس نام کی حکمت کے بارے میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:فاطمہ نام اس لئے رکھا گیا کہ اللہ پاک نے اسے اور اس سے محبت کرنے والوں کو نارِ جہنم سے آزاد کیا ہے۔([7])
حضور کی سیرتِ طیبہ سے ان لوگوں کو درس حاصل کرنا چاہئے جو بیٹیوں کو بوجھ جانتے ہیں۔حالانکہ بیٹیوں سے محبت و الفت رکھنا تو سنتِ مصطفےٰ ہے۔لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ سنت پر عمل کی نیت سے بیٹیوں پر شفقت کریں اور ان کو رحمت جانیں نہ کہ بوجھ سمجھیں۔
الحمدُ للہ ہمیں بھی خاتونِ جنت حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بے حد محبت ہے۔ اللہ کریم مرتے دم تک یہ محبت سلامت رکھے اور اسی کے صدقے ہماری کامل، یقینی اور بے حساب مغفرت فرمائے۔آمین
بنتِ ذو الفقار انور
(درجہ:دورۃ الحدیث، فیضانِ اُمِّ عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ)
اللہ پاک نے انسان کو دنیا میں بھیجا تو ساتھ ہی بہت سے خوب صورت رشتے اس کے ساتھ منسلک کر دیئے، جیسے والدین، بہن بھائی اور میاں بیوی وغیرہ۔ان ہی رشتوں میں سے ایک انمول رشتہ باپ بیٹی کا بھی ہے۔ایک دور وہ بھی تھا کہ جب بیٹی کو باپ کے لئے ذلت و رسوائی کی علامت سمجھا جاتا اور اسے زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔پھر اسلام کی آمد اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعلیمات نے بیٹی کو رحمت کا درجہ عطا کیا،نیز حضور کے اپنی صاحب زادیوں سے اعلیٰ ترین حُسنِ سلوک سے باپ بیٹی کے رشتے کو تمام تر رشتوں میں بہت پیارے اور معتبر و محترم رشتے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔حضور کو چونکہ سیدۂ کائنات رضی اللہ عنہا سے سب سے زیادہ محبت تھی، لہٰذا ذیل میں بزبانِ رسولِ پاک اس کی مثالیں ملاحظہ کیجئے :
1- سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:تمہارے غضب سے غضبِ الٰہی ہوتا ہے اور تمہاری رضا سے رضائے الٰہی ہوتی ہے۔([8])
2- فاطمہ میرے جسم کا حصّہ (ٹکڑا) ہے۔ جو اسے نا پسند وہ مجھے نا پسند، جو اسے پسند وہ مجھے پسند۔روزِ قیامت میرے نسب، میرے سبب اور میرے سسرالی رشتوں کے علاوہ تمام نسب ختم ہو جائیں گے۔([9])
3-فاطمہ تمام جہانوں اور سب جنتی عورتوں کی سردار ہے۔ مزید فرمایا:فَاطِمَۃُ بِضْعَۃٌ مِّنِّیْ فَمَنْ اَغْضَبَھَا اَغْضَبَنِیْ یعنی فاطمہ میرا ٹکڑا ہے۔جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ایک اور روایت میں ہے:یُرِیْبُنِیْ مَا اَرَابَھَا وَ یُؤْذِیْنِیْ مَا اٰذَاھَا یعنی ان کی پریشانی میری پریشانی اور ان کی تکلیف میری تکلیف ہے۔([10])
4-اُمُّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عادات و اطوار، آپ کے اُٹھنے بیٹھنے کی پر وقار کیفیت اور سیرت میں فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کوئی نہیں دیکھا۔جب وہ حضور کے پاس تشریف لاتیں تو آپ ان کے لئے کھڑے ہو جاتے پھر ان کا بوسہ لے کر اپنی جگہ بٹھاتے تھے اور جب حضور ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر آپ کا بوسہ لیتیں اور آپ کو اپنی جگہ بٹھاتی تھیں۔([11])
5-حضور کا اپنی لختِ جگر سے محبت و شفقت کا عالَم یہ تھا کہ جب کہیں سفر پر تشریف لے جاتے تو واپسی پر سب سے پہلے بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لاتے۔([12])
سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے فضائل وکمالات،تقویٰ و پرہیزگاری کی بے مثال مثالیں شمار سے باہر ہیں۔آپ کی شانِ والا اتنی عظیم ہےکہ آپ خوش تو رب خوش اور آپ ناراض تو رب ناراض۔آپ کے استقبال کے لئے حضور کھڑتے ہوتے، آپ کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیتے،اپنی جگہ پر بٹھاتے اور یہی عمل سیدہ پاک اپنے بابا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے لئے کرتیں کہ جب حضور آپ کے گھر تشریف لے جاتے تو آپ کی تعظیم کے لئے کھڑی ہوتیں، ہاتھ تھام کر بوسہ لیتیں اور اپنی جگہ بٹھاتیں۔([13]) حضور نے اپنی پیاری شہزادی کو پہلے ہی سے باخبر کر دیا تھا کہ اَنْتِ اَوَّلُ اَہْلِیْ لُحُوْقًا بِیْ یعنی میرے گھر والوں میں سب سے پہلے تم(وفات پا کر)مجھ سے ملو گی۔([14])
حضور کے وصالِ ظاہری کے بعد خاتونِ جنت کی مبارک زندگی میں غم کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ فراقِ رسول سے لبوں کی مسکراہٹ بھی ختم ہو گئی اور وصالِ نبی کے 6 ماہ بعد سب سے پہلے جنت میں حضور سے ملنے کا شوق لئے 3 رمضان المبارک سن 11 ہجری میں منگل کی رات وصال فرما گئیں۔
سیدہ خاتونِ جنت کی سیرت ، عبادت و ریاضت وغیرہ سے آگاہی کے لئے مکتبۃ المدینہ کی شائع کردہ خوبصورت کتاب شانِ خاتونِ جنت کا مطالعہ کیجئے۔اس کتاب میں سیدہ کی سیرت کے مختلف گوشوں کو ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو اور خصوصی طور پر بیٹیوں کو سیدۂ پاک کی سیرت سے کثیر حصہ عطا فرمائے اور ہمیں بنتِ رسول کے روحانی فیوض و برکات سے مالا مال کرے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
[1] بخاری،2/508،حدیث:3624
[2] مراٰۃ المناجیح،8 / 453
[3] ابو داود،4/ 454،حدیث:5217
[4] مستدرک،4/ 141،حدیث:4792
[5] ترمذی،5/465،حدیث:3893
[6] مستدرک،4/135،حدیث:4779
[7] کنز العمال،6/ 50،جزء:12،حدیث:34222
[8] مستدرک،4/ 137،حدیث:4783 ملخصاً
[9] مستدرک،4/144،حدیث:4801
[10] مشکاۃ المصابیح،2/436،حدیث:6139
[11] ترمذی،5/466،حدیث:3898
[12] مستدرک،4/141،حدیث:4792
[13] ترمذی،5/466،حدیث:3898
[14] حلیۃ الاولیاء،2/50،حدیث:1443


Comments