حضرتِ موسیٰ کے معجزات عجائبات (قسط:07)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

موضوع: حضرت موسیٰ  علیہ السلام کے معجزات و عجائبات (قسط7)

گزشتہ سے پیوستہ:پچھلی قسطوں میں حضرت موسیٰ  علیہ السلام کے مصر سے نکلنے اور فرعون کے ڈوبنے تک واقعات کا ذکر ہو چکا ہے،اب اس کے بعد واقع ہونے والے معجزات و عجائبات ملاحظہ فرمائیے:

بنی اسرائیل کی گاؤ پرستی اور سامری کا انجام

جب  اللہ  پاک نے بنی اسرائیل کو فرعون  اور اس کے ظلم و تشدد سے نجات عطا فرمائی تو چاہیے یہ تھا کہ وہ  اللہ  پاک کا شکر ادا کرتے اور سچے دل سے حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کا ساتھ دیتے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری پر قائم رہتے،مگر اس کے بجائے انہوں نے جہالت وسرکشی کا مظاہرہ کیا۔ ہوا کچھ  یوں کہ وہ ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرے جو گائے کی شکل والے بتوں کی عبادت کر رہی تھی تو انہوں نے حضرت موسیٰ سے فرمائش کر ڈالی کہ ہمارے لئے بھی ایسا ہی ایک معبود بنا دیں جس پر حضرت موسیٰ  علیہ السلام نے ان کو تنبیہ فرمائی۔ قرآنِ کریم میں اسے یوں بیان کیا گیا ہے :

قَالُوْا یٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَاۤ اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌؕ-قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ(۱۳۸) اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِیْهِ وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۳۹) قَالَ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْكُمْ اِلٰهًا وَّ هُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(۱۴۰) (پ9،الاعراف:138تا140)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ترجمہ:(بنی اسرائیل نے) کہا: اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی ایسا ہی ایک معبود بنادو جیسے ان کے لئے کئی معبود ہیں۔(موسیٰ نے) فرمایا:تم یقینا ًجا ہل لوگ ہو بیشک یہ لوگ جس کام میں پڑے ہوئے ہیں وہ سب برباد ہونے والا ہے اور جو کچھ یہ کر رہے ہیں وہ سب باطل ہے۔( موسیٰ نے)  فرمایا:کیا تمہارے لئے  اللہ کے سوا کوئی اور معبود تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہیں سارے جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔

حضرت موسیٰ  علیہ السلام  نے بنی اسرائیل سے چونکہ وعدہ فرمایا تھا کہ جب ان کا دشمن فرعون ہلاک ہو جائے گا تو وہ ان کے پاس  اللہ  پاک کی جانب سے ایک کتاب لائیں گے جس میں حلال و حرام کا بیان ہوگا، لہٰذا  فرعون کی ہلاکت کے بعد حسبِ وعدہ آپ چالیس دن کے لئے  اللہ  پاک کے حکم پر کوہِ طور پر حاضر ہوئے، یہاں آپ کو تورات کی تختیاں عطا ہوئیں اور ربِّ کریم سے ہم کلامی کا شرف نصیب ہوا۔([1]) آپ کے جانے کے 20 یا 30 دن بعد سامری نام کا ایک شخص جو یہ جانتا تھا کہ بنی اسرائیل ایسا خدا چاہتے ہیں جو انہیں نظر آئے تو اس نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو بہکا کر ان کے زیورات وغیرہ اکٹھے کئے اور انہیں ڈھال کر ان کی خواہش کے مطابق ایک بچھڑا بنا دیا،لہٰذا بارہ ہزار لوگوں کے علاوہ باقی سب نے اس بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔ ([2])

جب حضرت موسیٰ  علیہ السلام تورات کی تختیاں لے کر واپس لوٹے تو چونکہ آپ کو پہلے خبر دے دی گئی تھی کہ سامری نے قوم کو گمراہ کر دیا ہے،لہٰذا آپ کو اپنی قوم کے جاہلوں پر بہت زیادہ غم و غصہ تھا،جس کا اظہار آپ نے یوں فرمایا:تم نے میرے بعد کتنا برا کام کیا کہ بچھڑے کو معبود بنالیا اور باقی لوگوں نے روکنے کی پوری کوشش بھی نہ کی!تم لوگوں نے جلد بازی کی اور حکمِ خداوندی آنے کا بھی انتظار نہ کیا جو میں لینے گیا تھا۔اس وقت آپ غیرت و حمیتِ دینی کی وجہ سے اتنے جلال میں تھے کہ آپ کے ہاتھ سے بےاختیار تورات کی تختیاں گرگئیں اور اسی بےاختیاری کی صورت میں آپ اپنے بھائی حضرت ہارون  علیہ السلام کے سر اور داڑھی کے بال پکڑ کر کھینچنے لگے،حضرت ہارون  علیہ السلام نے اپنا عذر پیش کیا تو آپ نے بارگاہِ الٰہی میں اپنی اور اپنے بھائی کی بخشش طلب کی۔([3]) پھر آپ سامری کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے ایسا کرنے کی وجہ پوچھی تو وہ بولا:میں نے وہ دیکھا جو بنی اسرائیل نے نہ دیکھا۔  پھر مزید پوچھنے پر اس نے بتایا:میں نے حضرت جبرئیل  علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں پہچان لیا،وہ گھوڑے پر سوار تھے، اس وقت میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں ان کے گھوڑے کے نشانِ قدم کی خاک لے لوں،چنانچہ میں نے وہاں سے ایک مٹھی بھرلی پھر اسے اپنے بنائے ہوئے بچھڑے میں ڈال دیا، میرے نفس نے مجھے یہی اچھا کر کے دکھایا اور یہ عمل میں نے اپنی نفسانی خواہش کی وجہ سے کیا۔سامری کی بات سن کر آپ نے فرمایا :

فَاذْهَبْ فَاِنَّ لَكَ فِی الْحَیٰوةِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ۪-وَ اِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَهٗۚ-(پ16،طہ:  97)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ترجمہ:تو تو چلا جا پس بیشک زندگی میں تیرے لئے یہ سزا ہے کہ تو کہے گا:’’نہ چھونا‘‘اور بیشک تیرے لئے ایک وعدہ کا وقت ہے جس کی تجھ سے خلاف ورزی نہ کی جائے گی۔ چنانچہ سامری کا مکمل بائیکاٹ کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ملاقات، بات چیت اور خرید و فروخت وغیرہ حرام کردی گئی،اگر اتفاقاً کوئی اس سے چھو جاتا تو وہ اور چھونے والا دونوں شدید بخار میں مبتلا ہوجاتے،اس لئے وہ جنگل میں یہی شور مچاتا پھرتا کہ مجھے کوئی نہ چھوئے۔کہا جاتا ہے کہ یہ عذاب آج تک اس کی نسلوں میں موجود ہے۔([4])

بنی اسرائیل کی معافی:  اللہ  پاک نے حضرت موسیٰ  علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ بنی اسرائیل کی معافی کے لئے جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا نہیں کی ان میں سے ستر افراد کو لے کر کوہِ طور پر حاضر ہوں۔چنانچہ آپ نے ستر افراد کو روزہ رکھنے، بدن اور کپڑے پاک کرنے کا حکم دیا، پھر ان کے ساتھ طورِ سَینا کی طرف نکلے، جب پہاڑ کے قریب پہنچے تو انہیں ایک بادل نے ڈھانپ لیا، سب اس میں داخل ہوئے اور سجدہ کیا، پھر انہوں نے  اللہ  پاک کا حکم سنا، جب کلام کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد بادل اٹھا لیا گیا تو انہوں نے حضرت موسیٰ  علیہ السلام سے عرض کی:توبہ کے بدلے اپنے ہی لوگوں کو قتل کرنے والے حکم کی ہم اس وقت تک تصدیق نہ کریں گے جب تک رب کو کھلم کھلا نہ دیکھ لیں تو اسی وقت شدید زلزلہ آیا اور وہ تمام ہلاک ہوگئے۔([5])پھر حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کی دعا سے انہیں دوبارہ زندہ کیا گیا۔

بنی اسرائیل کی معافی کی صورت چونکہ یہ مقرر ہوئی تھی کہ جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہیں کی وہ پوجا کرنے والوں کو قتل کریں اور مجرم راضی خوشی قتل ہو جائیں،لہٰذا  صبح سے شام تک ستر ہزار لوگ خوشی سے قتل ہوگئے،تب حضرت موسیٰ اور ہارون نے گڑگڑاتے ہوئے ان کی معافی کی سفارش کی تو وحی آئی کہ جو قتل ہو چکے وہ شہید ہوئے اور باقی بخش دیئے گئے،قاتل و مقتول سب جنتی ہیں۔ ([6])

تورات کے احکام ماننے سے انکار:  اللہ  پاک نے بنی اسرائیل پر بےشمار احسانات فرمائے مگر وہ ہمیشہ ناشکری،بدعہدی اور اپنی من مانیاں کرتے،ایک جرم کی معافی کے بعد پھر کوئی نیا جرم کربیٹھتے،چنانچہ انہوں نے بت پرستی کے بعد احکامِ تورات کو بوجھ سمجھ کر ماننے سے انکار کر دیا،حالانکہ انہوں نے خود مطالبہ کیا تھا کہ ہمارے پاس کوئی ایسی کتاب ہونی چاہیے جس کے احکام کے مطابق ہم اپنی زندگی گزار سکیں اور اس کی روشنی میں بھلائی کی راہ پائیں مگر جب ان کے پاس تورات آئی تو اس میں کچھ ایسے احکام بھی تھے جو اگرچہ کچھ سخت تھے،مگر ناقابلِ عمل نہ تھے، مگر انہوں نے اپنی فطری بغاوت اور سرکشی کی وجہ سے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ان کی اس بد عہدی پر  اللہ  پاک کے حکم سے حضرت جبرئیل  علیہ السلام نے ایک پہاڑ جس کی مقدار  لمبائی چوڑائی میں ان کے لشکر کے برابر تھی اٹھا کر سائبان کی طرح ان کے سروں کے قریب کر دیا اور ان سے کہا گیا کہ تورات کے احکام قبول کرو ورنہ یہ تم پر گرا دیا جائے گا، پہاڑ کو سروں پر دیکھ کر سب کے سب سجدے میں گرگئے اور ماننے کو تیار ہوگئے۔ ([7])

قارون کی سرکشی اور اس کا عبرتناک انجام:حضرت موسیٰ  علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو دریا کے پار لے جانے کے بعد قربانیوں کا انتظام حضرت ہارون  علیہ السلام کے حوالے کر دیا، بنی اسرائیل اپنی قربانیاں حضرت ہارون کے پاس لاتے اور وہ ان قربانیوں کو قربان گاہ میں رکھتے جہاں آسمان سے آگ اتر کر انہیں کھا لیتی،قارون کو حضرت ہارون کے اس منصب پر حسد ہوا، اس نے حضرت موسیٰ سے عرض کی:رسالت آپ کی ہوئی اور قربانی کی سرداری حضرت ہارون کی،میں کچھ بھی نہیں رہا۔ آپ نے اس کو سمجھایا کہ میں نے خود یہ منصب نہیں دیا بلکہ یہ  اللہ  پاک کے حکم سے ہے،مگر وہ نہ مانا اور اس بات کا ثبوت مانگا تو حضرت موسیٰ  علیہ السلام نے تمام سرداروں کی لاٹھیوں کو جمع کیا اور ان سب کو اپنے خیمے میں رکھ دیا، رات بھر بنی اسرائیل ان لاٹھیوں کا پہرہ دیتے رہے،صبح کو حضرت ہارون کا عصا سرسبز و شاداب ہوگیا اور اس میں پتے نکل آئے۔اس پر وہ کہنے لگا کہ یہ آپ کے جادو سے ہوا ہے۔معاذ  اللہ  وہ اپنی سرکشی اور حضرت موسیٰ  علیہ السلام کو تکلیف پہنچانے میں حد سے بڑھتا رہا یہاں تک کہ جب حضرت موسیٰ  علیہ السلام نے زکوٰۃ کا حکم سنایا تو اس نے انکار کر دیا اور دوسروں کو بھی یہ کہنے لگا کہ ہم نے حضرت موسیٰ  علیہ السلام کی ہر بات میں اطاعت کی ہے اب وہ ہمارے مال چھیننا چاہتے ہیں یہ ہم کیسے برداشت کریں! سب نے کہا:بات تو ٹھیک ہے لیکن اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے کیا کیا جائے؟اس نے ایک زانیہ کو کثیر مال کا لالچ دے کر اس بات پر رضامند کیا کہ وہ بھرے مجمع میں حضرت موسیٰ  علیہ السلام پر معاذ  اللہ  بدکاری کا الزام لگائے،اپنے منصوبے کے مطابق ایک دن اس نے سب لوگوں کو جمع کیا اور حضرت موسیٰ  علیہ السلام کو وعظ و نصیحت کے لئے بلایا،چنانچہ جب آپ نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے زانی کو سنگسار کرنے سے متعلق  اللہ  پاک کا حکم بیان فرمایا  تو قارون فوراً بولا:یہ حکم سب کے لئے ہے خواہ وہ آپ ہی ہوں؟آپ نے فرمایا:ہاں خواہ میں ہی ہوں! تو وہ بولا:  بنی اسرائیل کا خیال ہے کہ آپ نے معاذ  اللہ  فلاں عورت کے ساتھ بدکاری کی ہے۔آپ نے فرمایا:اسے بلاؤ!وہ آئی تو آپ نے اسے فرمایا:اس کی قسم جس نے بنی اسرائیل کے لئے دریا پھاڑا،اس میں راستے بنائے اور تورات نازل کی،جو سچ بات ہے وہ کہہ دے!وہ ڈر گئی اور اسے  اللہ  کے رسول پر بہتان لگانے کی جرأت نہ ہوئی،اس نے عرض کی:جو کچھ قارون کہلوانا چاہتا ہے  اللہ  کی قسم یہ جھوٹ ہے اور اس نے آپ پر تہمت لگانے کے بدلے مجھے کثیر مال کا لالچ دیا ہے۔یہ سن کر حضرت موسیٰ  علیہ السلام روتے ہوئے رب کے حضور سجدے میں چلے گئے اور عرض کی:یارب!اگر میں تیرا رسول ہوں تو میری وجہ سے قارون پر غضب فرما!  اللہ  پاک نے وحی فرمائی کہ زمین آپ کی فرمانبردار کر دی گئی ہے، اسے جو چاہیں حکم دیں!حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل سے فرمایا: جو قارون کا ساتھی ہو وہ اس کے ساتھ ٹھہرا رہے اور جو میرے ساتھ ہے وہ اس سے جدا ہوجائے۔ دو کے علاوہ کوئی بھی شخص قارون کے ساتھ نہ رہا،سب الگ ہوگئے تو آپ نے زمین کو حکم فرمایا کہ انہیں پکڑ لے!وہ لوگ جب گردنوں تک دھنس گئے تو قسمیں اور رشتہ داری کا واسطہ دینے لگے،مگر آپ نے توجہ نہ فرمائی یہاں تک کہ وہ بالکل دھنس گئے اور زمین برابر ہوگئی۔بنی اسرائیل نے قارون اور اس کے ساتھیوں کا حشر دیکھ کر کہا:حضرت موسیٰ  علیہ السلام نے قارون کے مکان،اس کے خزانے اور اموال حاصل کرنے کے لئے اس کے خلاف دعا کی ہے تو آپ کی دعا سے اس کا مکان،  خزانے اور اموال سب زمین میں دھنس گئے۔ ([8])

(یہ سلسلہ جاری ہے اور ان شاء  اللہ  اگلی قسطوں میں حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کے مزید معجزات و عجائبات بیان ہوں گے۔ )


[1] تفسیر خازن،2/138،137ماخوذاً

[2] تذکرۃ الانبیاء، ص 547، 548- سیرت الانبیاء، ص 610 ملخصاً

[3] تفسیر خازن، 2/141، 142 ملخصاً

[4] تفسیر نسفی، ص 701

[5] تفسیر ابو سعود، 2/301

[6] تفسیر عزیزی مترجم، 1/487، 488 ملخصاً

[7] حاشیہ صاوی، 2/723

[8] تفسیر خازن، 3/442، 443


Share