خود داری
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

موضوع: خود داری

خود داری فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے: احساسِ ذات،عزتِ نفس کا پاس،اپنی ذات کا احترام و حفاظت، خود کو نقصان سے بچانا،غیرت مندی اور لوگوں سے ان کے حالوں سے بے نیازی وغیرہ۔

خود داری کی اہمیت و فوائد: معاشرے میں وہ لوگ عزت دار سمجھے جاتے ہیں جن کی شخصیت باوقار و خوددار ہوتی ہے،اکثر ہم اپنی شخصیت کو نکھارنے کے لئے ظاہری خوبصورتی پر توجہ دیتی ہیں،شاید کسی حد تک یہ بھی درست ہو لیکن اصل چیز ہمارا باوقار و خوددار ہونا ہے،ہم باوقار اور نکھری ہوئی شخصیت کی حامل تب ہوں گی جب اپنی ذات کا احترام اور اپنی عزت کا خیال کرنے والی ہوں ،اپنی ذات میں بادشاہ ہوں،کسی سے مانگنا اور طلب کرنا ہماری عادت ہو نہ لالچ،بلکہ جب ضرورت ہو رب سے مانگیں۔مگر افسوس!بعض عورتیں بلا وجہ تیل، گھی،آٹا، ماچس وغیرہ بچوں کو بھیج کر پڑوسیوں سے مانگ رہی ہوتی ہیں،یہاں تک کہ بعض تو سجنے سنورنے کے زیورات، گہنے اور کپڑے وغیرہ بھی دوسروں سے مانگ لیتی ہیں۔ حالانکہ یہ چیزیں تو ضرورت میں شامل بھی نہیں۔اسی طرح بیٹی کی شادی پر جہیز اور مہمان داری کے خرچے وغیرہ کے لئے امیر رشتے داروں سے تقاضا کرتی اور اپنی تنگ دستی کا رونا روتی نظر آتی ہیں،پھر شادی پر بے جا خرچ کرتی ہیں تو طرح طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ”لو بھلا مجھ سے تو کہہ رہی تھی بچی کے کپڑے بنانے کے لئے بھی پیسے نہیں اور یہ شادی میں اتنی فضولیات!“بلکہ   معاذ  اللہ   کبھی تو مووی و تصاویر اور بےہودہ فنکشنز کا اہتمام بھی کر لیا جاتا ہے، بعد میں سر پر قرض کا وبال اور پھر  ان گناہوں کی نحوست الگ ظاہر ہوتی ہے۔اسی طرح بعض خواتین اپنے موبائل میں بیلنس نہیں رکھتیں اور کال وغیرہ کے لئے بار بار دوسروں سے موبائل فون مانگتی ہیں،یہ بھی خود داری کے خلاف ہی ہے،تجربہ یہی ہے کہ کوئی اپنا موبائل فون کسی کو تھوڑی دیر کے لئے بھی دینا پسند نہیں کرتی۔

یونہی بہت سی چیزوں میں اگر ہم محاسبہ کریں تو پتا چلے گا کہ مانگنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بعض اوقات ہمیں لگتا ہے کہ سامنے والی خوشی خوشی دے رہی ہے مگر حقیقتِ حال اس کے برعکس ہوتی ہے،لہٰذا کوشش یہ کرنی چاہیے کہ آپ کسی کی پڑوسن ہوں یا رشتہ دار، اپنی عزتِ نفس کو بچاتے ہوئے جتنا ممکن ہو دوسروں سے سامان مانگنے سے بچیں۔اسی طرح بزرگ خواتین اپنی بہو بیٹیوں سے بار بار کچھ مانگنے سے بچیں اور اپنا کام خود کرنے کی کوشش کریں،نانیاں دادیاں بھی بچوں کو بار بار حکم دینے کے بجائے خود کام کرنے کی عادت اپنائیں،ان کی قدر و اہمیت گھر میں زیادہ ہوگی،ہاں! اگر وہ اتنی بوڑھی ہوں کہ کام ہی نہ کر سکیں تو اور بات ہے۔

صحابہ کرام کمال درجے کے خوددار تھے،اپنا کام خود کرتے جیسا کہ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق   رضی  اللہ  عنہ  کے متعلق مروی ہے کہ کبھی ہاتھ سے اونٹنی کی نکیل گر پڑتی تو اسے اٹھانے کے لئے آپ اونٹنی کو بٹھا دیتے۔ جب عرض کی جاتی: حضور آپ نے ہمیں حکم دیا ہوتا ہم اٹھا کر پیش کر دیتے۔ تو فرماتے: میرے حبیب  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں کسی سے سوال نہ کروں۔([1]) اسی طرح حضرت ثوبان  سے مروی ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا: جو مجھے ایک بات کی ضمانت دے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ میں نے عرض کی: میں ضمانت دیتا ہوں۔ارشاد فرمایا: لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرنا۔(اس کے بعد آپ کسی سے کچھ نہ مانگا کرتے تھے یہاں تک کہ)آپ گھوڑے پر سوار ہوتے اور کوڑا (یعنی چابک)نیچے گر جاتا تو کسی سے اٹھانے کے لئے نہ کہتے بلکہ گھوڑے سے نیچے اتر کر خود ہی اسے اٹھالیتے۔ ([2])

بلاشبہ ہمارے بزرگانِ دین خود دار تھے، وہ بھوکا رہنا گوارا کرلیتے مگر کسی سے سوال نہ کرتے۔ جیسا کہ اصحاب ِصفہ کے متعلق منقول ہے کہ انہوں نے خود  کو  دین کے لئے وقف  کر دیا تھا، یہ اپنے گھر بار چھوڑ کر مسجدِ نبوی میں ڈیرہ  ڈالے حضور سے فیض حاصل کرتے رہتے، بظاہر بہت نادار تھے،کہیں سے کوئی صدقہ،تحفہ آتا اُسی  پر گزارا کرتے،ان کے کئی کئی روز  فاقوں میں گزرتے،نماز میں حالتِ قیام میں بھوک  کی شدت سے گر پڑتے،کچھ لوگ  کہتے:یہ دیوانے ہیں۔حضور نماز سے فارغ ہو کر اصحابِ صفہ کی طرف متوجہ  ہوتے اور فرماتے:اگر تمہیں معلوم ہو جائے کہ  اللہ  کے ہاں تمہارے لئے کیا( اجر و ثواب) ہے تو تم اس بات کو پسند کرو کہ تمہارے فاقے اور حاجت مندی میں مزید اضافہ  ہو۔ ([3])

معلوم ہوا کہ ناداری خود داری سے مانع نہیں کہ کئی نادار غضب کے خود دار ہوتے ہیں اور کئی سرمایہ دار بےمروت و لالچی ہوتے ہیں،سب کچھ ہونے کے باوجود دوسروں کے مال پر نظر رکھتے ہیں، حالانکہ خود دار انسان اپنے تمام معاملات  اللہ پاک کے حوالے کر کے مطمئن ہو جاتا ہے اور لوگوں سے سوال کرنے سے بچتا ہے اور جو سوال کرنے سے بچنا چاہے  اللہ  پاک اس کو بچا لیتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے:جو سوال سے بچنا چاہے  اللہ  پاک اُسے بچائے گا،جو غنا چاہے گا  اللہ  پاک اُسے غنی کر دے گا اور جو صبر چاہے گا  اللہ   پاک اسے صبر دے گا اور کسی کو صبر سے بہتر اور وسیع کوئی چیز نہ ملی۔([4])ایک روایت میں ہے:دنیا سے بےرغبت ہو جاؤ  اللہ  پاک تم سے محبت فرمائے گا، لوگوں کے مال سے بے نیاز ہو جاؤ وہ تم سے محبت کریں گے۔([5])

دعائے نبوی:حضور خود بھی اپنے رب کی بارگاہ میں لوگوں سے بے نیاز رہنے کی دعا فرمایا کرتے تھے:اَللّٰھُمَّ اِنِّي اَسْأَلُكَ الْھُدَىٰ،وَ التُّقَیٰ، وَ الْعَفَافَ، وَ الْغِنَیٰ یعنی اے  اللہ  پاک!میں تجھ سے ہدایت،  پرہیزگاری، پاک دامنی اور غِنا یعنی لوگوں سے بےنیاز رہنے کا سوال کرتا ہوں۔ ([6])

خود داری پیدا کرنے کے طریقے:دین کا کام کرنے والوں کو خوددار ہونا چاہیے کہ اگر یہ بےمروت ہوں گے تو لوگ ان سے دور بھاگیں گے۔لہٰذا9بزرگانِ دین کی خود داری کے واقعات ہمیشہ پیش نظر رکھئے کہ وہ تو بادشاہوں کے درہم و دینار بھی واپس لوٹا دیا کرتے تھے،اسی لئے ان کی نیکی کی دعوت پُراثر ہوتی تھی۔9یہ یقین رکھئے کہ جو رب نے نصیب میں لکھا ہے وہ مل کر ہی رہے گا اور جو نصیب میں نہیں  وہ کبھی حاصل نہ ہو گا۔9اپنی حاجات  اللہ  و رسول کی بارگاہ میں پیش کیجئے،حضور سے استغاثہ کر کے دیکھئے،حضور جس پر نظرِ کرم فرما دیں اس کے سارے کام سنور جاتے ہیں:

قسمت میں لاکھ پیچ ہوں سو بل ہزار کج

یہ ساری گتھی اک تری سیدھی نظر کی ہے

اور جتنے بھی سہارے ہیں سُبک کرتے ہیں

عزتِ نفس بڑھاتا ہے سہارا تیرا

9اپنی غیرت اور عزتِ نفس کا خیال رکھئے اور ہمیشہ یاد رکھئے کہ خیرات میں ملی ہوئی مرغی سے غیرت و خود داری کی دال روٹی زیادہ لذیذ ہوتی ہے۔

غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں                                                                                                 پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا

 اللہ  پاک ہمیں اپنے اندر خود داری پیدا کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔

 اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین  صلی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلم  

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*رکن انٹرنیشنل افئیرز ڈیپارٹمنٹ



[1] مسند امام احمد،1/228،حدیث:65

[2] ابن ماجہ ، 2 / 401 ، حدیث : 1837

[3] ترمذی، 4/162، حدیث: 2375

[4] بخاری، 1/496، حدیث:1469

[5] ابن ماجہ،4/422،حدیث:4102

[6] مسلم، ص 1117، حدیث:  6904


Share