موضوع: صلح کروانا
ہر انسان کی طبیعت مزاج مختلف ہوتا ہے، اسی طبعی فرق کی وجہ سے اکثر باہمی معاملات و تعلقات میں غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور یہ بڑھتے بڑھتے نفرت و دشمنی،رشتہ ٹوٹنے، لڑائی جھگڑے یہاں تک کہ قتل و غارت تک کا روپ دھار لیتی ہیں،پھر برسوں کی محبت نفرت میں بدل جاتی ہے،سالوں کی دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں، بول چال بند، خوشی غمی میں شرکت ختم،خاندانوں کے خاندان اجڑ جاتے ہیں،ایسے میں اگر کوئی تیسرا فرد آ کر اپنا مثبت کردار ادا کرے اور دونوں فریق میں صلح صفائی کروا دے تو ٹوٹے ہوئے دل جڑ جاتے ہیں،کبھی برسوں کی نفرت محبت میں بدل جاتی ہے، دوریاں ختم ہو جاتی ہیں، ماحول اچھا ہو جاتا ہے اور دلوں میں خوشیاں داخل ہو جاتی ہیں۔اس کے علاوہ غیبت،چغلی،بہتان تراشی اور دل دکھانے جیسے بہت سارے گناہوں سے بھی بچت ہو جاتی ہے۔
اسی لیے اسلام ہمیں دلوں کو جوڑنے اور باہم محبت سے رہنے کا درس دیتا ہے،لہٰذا اگر دیکھیں کہ دو فرد آپس میں ایک دوسرے سے ناراض ہو گئے ہیں تو کوشش کر کے ان کی ناراضی کو ختم کروایا جائے نہ کہ مزید ان دونوں کے درمیان نفرت کو بڑھایا جائے، کیونکہ صلح اللہ پاک کو اپنے بندوں کے اعمال میں سے پسندیدہ ترین عمل ہے۔قرآنِ مجید میں صلح کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور اس کی بہت زیادہ ترغیب دلائی گئی ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠(۱۰)
(پ26،الحجرات:10)
ترجمہ:صرف مسلمان بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ سب سے افضل صدقہ روٹھے ہوئے لوگوں میں صلح کرا دینا ہے۔ ([1])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اللہ پاک اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو صلح کتنی پسند ہے، اس کا اندازہ اس روایت سے لگائیے کہ ایک روز حضور مسکرائے تو حضرت عمر کے پوچھنے پر ارشاد فرمایا:قیامت کے دن میرے دو اُمتی اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے،ایک مظلوم، دوسرا ظالم۔مظلوم انصاف طلب کرے گا،مگر ظالم کے پاس کوئی نیکی باقی نہ ہوگی، تو وہ عرض کرے گا کہ میرے گناہ اس کے ذمے ڈال دئیے جائیں۔یہ منظر بیان کر کے حضور رو پڑے اور فرمایا کہ وہ دن بہت سخت ہوگا، جب ہر شخص اپنے گناہوں کے بوجھ سے نجات چاہے گا۔پھر اللہ پاک مظلوم کو جنت کے محلات دکھا کر فرمائے گا:اگر تُو اپنے بھائی کو معاف کر دے تو یہ تیرے لیے ہیں۔مظلوم کہے گا:اے رب!میں نے اپنے تمام حقوق معاف کیے۔اللہ پاک فرمائے گا:اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑو اور دونوں جنت میں داخل ہو جاؤ۔پھر حضور نے فرمایا:اللہ پاک سے ڈرو اور مخلوق میں صلح کرواؤ کیونکہ اللہ پاک بھی بروزِ قیامت مسلمانوں میں صلح کروائے گا۔([2])
معلوم ہوا! روٹھوں میں صلح کروانا اللہ پاک کو پسند ہے، اس لیے ہمیں بھی اختلافات مٹانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ افسوس کہ آج لوگ صلح کرانے کے بجائے دوسروں کی لڑائی بڑھانے میں لطف محسوس کرتے ہیں اور لاتعلقی کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اسی منفی سوچ کے باعث گھروں میں ناچاقیاں بڑھ رہی ہیں، طلاقوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور خاندان تباہ ہو رہے ہیں۔
صلح کروانے کا طریقہ:
فریقین میں صلح کروانے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کی بات الگ الگ سن کر غیر جانبدار رہتے ہوئے فیصلہ کیا جائے۔غلط فہمیاں دور کی جائیں، اصلاح کی کوشش کی جائے،صلح کے فضائل اور روٹھنے کے نقصانات بیان کیے جائیں۔ گھریلو ناچاقیوں میں بھی یہی رویہ اختیار کرنا چاہیے،مثلاً اگر بھابھی روٹھ جائے تو اسے اور بھائی دونوں کو سمجھا کر گھر ٹوٹنے سے بچایا جائے۔اسی طرح بہن بھائیوں میں ناراضی ہو تو ان کی پچھلی محبت اور خوشگوار یادیں یاد دلا کر میل جول بحال کرایا جائے۔صلح رحمت ہے اور شیطان لوگوں میں لڑائی کروا کر غیبت،چغلی اور بدگمانی جیسے گناہوں میں مبتلا کرتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ صلح کے ذریعے خاندان کو شیطان کے وار سے محفوظ رکھا جائے۔
*پہلے زمانے میں خاندانوں میں جدائیاں کم ہوتی تھیں، کیونکہ ہر خاندان یا برادری میں ایک بزرگ، چوہدری یا پنچ ہوتا تھا جس کی بات سب مانتے اور وہ اختلافات کو ختم کر دیتا تھا۔ آج یہ نظام ختم ہو گیا ہے، ہر شخص خود کو بڑا سمجھتا ہے، اسی وجہ سے ناچاقیاں اور بگاڑ بڑھ گئے ہیں۔*گھروں اور محلوں میں امن قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی سمجھدار اور باکردار فرد کو صلح صفائی کا ذمہ دار بنایا جائے ،مثلاً خاندان میں بڑی بہن، بڑا بھائی،تایا یا پھوپی وغیرہ جو انصاف اور سمجھ داری سے معاملات سلجھائے۔*محلوں میں بھی چند معتبر افراد ہوں جو اختلافات مٹانے میں کردار ادا کریں تاکہ برادری متحد اور خوشحال رہے۔ *جن خاندانوں میں بڑے موجود ہوں اور وہ اپنا بڑا پن نبھائیں، وہاں رشتے ٹوٹنے سے بچ جاتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ آج والدین کے انتقال کے بعد بہن بھائی بکھر جاتے ہیں،محبتیں ختم ہو جاتی ہیں۔اگر سب مل جل کر بیٹھنے کی عادت ڈالیں تو خاندانوں میں پھر سے وہی محبت اور یکجہتی لوٹ آئے گی۔واقعی!جب بہن کے چہرے پر ماں مسکراتی نظر آئے اور بھائی کے لبوں پر باپ بولتا محسوس ہو، تو خاندانوں میں رشتوں کی حرارت ہمیشہ قائم رہتی ہے۔
کیا صلح کروانا گناہ بھی ہوسکتا ہے؟
صلح کروانا وہی جائز ہے جس میں شرعا کوئی برائی نہ ہو جیسا کہ ایک روایت میں ہے: مسلمانوں کے درمیان صلح کروانا جائز ہے مگر وہ صلح جائز نہیں جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔([3]) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں:زَوْجَین(میاں بیوی)میں اس طرح صلح کروائی جائے کہ خاوند(شوہر)اس عورت کی سوکن (دوسری بیوی)کے پاس نہ جائے گا یا مسلمان مقروض اس قدر شراب اور سود اپنے کافر قرض خواہ کو دے گا۔ پہلی صورت میں حلال کو حرام کیا گیا، دوسری صورت میں حرام کو حلال اس قسم کی صلح حرام ہے جن کا توڑ دینا واجب ہے۔([4]) اسی طرح بعض لاعلم بڑے بوڑھے تین طلاق ہو جانے کے بعد دونوں کو بٹھا کر صلح کروا دیتے ہیں یوں وہ حرام کو حلال کر دیتے ہیں اور ساری زندگی حرام کاری میں گزرتی ہے اگر کہیں طلاق وغیرہ کے معاملات آجائیں تو اس معاملے میں فوراً دارالافتا اہلسنت سے رابطہ کیا جائے خود سے کوئی بھی فیصلہ نہ کیا جائے۔
صلح کروانے کے دینی اور دنیاوی فوائد:
جب ناراض لوگوں میں صلح قائم ہو جائے تو کھوئی ہوئی خوشیاں لوٹ آتی ہیں، گھر امن و سکون کے گہوارے بن جاتے ہیں اور معاشرتی خوشحالی جنم لیتی ہے۔ایسا ماحول نہ صرف ذہنی و قلبی سکون عطا کرتا ہے بلکہ صحت پر بھی مثبت اثر ڈالتا ہے۔محبتوں والے گھرانوں میں فضول سوچوں سے نجات، گناہوں سے حفاظت اور عبادت میں لذت نصیب ہوتی ہے۔ جب رشتوں میں پیار و الفت ہو تو لوگ ایک دوسرے کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک روایت کے مطابق اللہ پاک کے نزدیک فرائض کے بعد سب سے افضل عمل کسی مسلمان کا دل خوش کرنا ہے۔([5])چنانچہ جب بھی کہیں ناچاقیاں ہو جائیں تو کوشش کر کے صلح کروائیے، محبتیں بڑھائیے اور خوب خوب اجر و ثواب پائیے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* رکن انٹرنیشنل افئیرز ڈیپارٹمنٹ
[1] ترغیب و ترہیب،3/321،حدیث:6
[2] مستدرک ، 5/795، حدیث: 8758 ملخصاً
[3] ابو داود، 3/425، حدیث: 3594
[4] مراۃ المناجیح، 4/303
[5] معجم کبیر، 11/59، حدیث: 11079


Comments