موضوع: سوتیلے رشتوں کا مقام اور ہمارا رویہ
ام المومنین حضرت اُمّ سَلَمَہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! میں ابو سلمہ کے (یتیم) بچوں پر خرچ کروں تو کیا مجھے اجر ملے گا؟ میں انہیں ادھر ادھر نہیں چھوڑ سکتی، وہ میرے بھی بچے ہیں۔ارشاد فرمایا:ہاں!جو تو ان پر خرچ کرے گی تجھے اس کا اجر ملے گا۔([1])
شرحِ حدیث
اُمُّ المومنین حضرت اُمِّ سَلَمَہ رضی اللہ عنہا پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نکاح میں آنے سے پہلے حضرت ابو سَلَمَہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ان کی وفات کے بعد حضورِ انور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زوجیت سے مشرف ہوئیں۔حضرت ابو سَلَمَہ رضی اللہ عنہ کی کچھ اولاد دوسری بیوی سے تھی جو حضرت اُمِّ سَلَمَہ رضی اللہ عنہا کی سوتیلی اولاد تھی۔عمر اور زینب اور کچھ اولاد خود حضرت اُمِّ سَلَمَہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھی یعنی محمد، دُرّہ۔ یہاں سوال سوتیلی اولاد کے متعلق ہے،ورنہ آپ بنی ابی سلمہ نہ فرماتیں۔مزید حضور کے فرمان:ہاں!جو تو اُن پر خرچ کرے گی تجھے اُس کا اجر ملے گا،کے تحت فرماتے ہیں: کیونکہ وہ یتیم بھی ہیں اور تمہارے عزیز ترین بھی، ان پر خرچ کرنا یتیم کو پالنا بھی ہے اور عزیز کا حق ادا کرنا بھی، اپنے فوت شدہ خاوند کی روح کو خوش کرنا بھی۔([2])
معلوم ہوا! ہماری بزرگ خواتین ایمان و ایثار کی اعلیٰ مثال تھیں۔شوہر کے انتقال کے بعد وہ اس کی پہلی بیوی کی یتیم اولاد کو بے سہارا چھوڑ دینا گوارا نہ کرتیں، نہ ان پر ”سوتیلا“ یا ” پرایا“ ہونے کا داغ لگاتیں، بلکہ محبت و شفقت کے ساتھ ان کے سر پر اپنی اولاد کا تاج رکھ دیتیں۔ وہ ان بچوں کی پرورش کو اپنی ذمہ داری سمجھتیں، انہیں عزت، محبت اور تحفظ دیتیں، تاکہ ان کے مرحوم شوہر کی روح خوش ہو اور ربّ کریم کی رضا حاصل ہو۔ یہی وہ خالص نیتیں اور نبوی تعلیمات پر عمل تھا جس نے ان کے گھروں کو برکت، سکون اور رحمت کا گہوارہ بنا رکھا تھا۔افسوس!آج کے دور میں یہی سوتیلے اور یتیم رشتے ظلم و جبر کا شکار ہیں۔شفقت کے بجائے لا پروائی،تربیت کے بجائے تشدد اور محبت کے بجائے نفرت کا ماحول قائم ہو گیا ہے۔مزید افسوس کہ بعض اوقات سوتیلے رشتوں کے بارے میں پائی جانے والی منفی باتیں صرف غلط فہمیاں نہیں ہوتیں بلکہ خود ان رشتوں کے رویے ان باتوں کو سچ ثابت کر دیتے ہیں۔ خاص طور پر بعض سوتیلی مائیں اپنی سوتیلی اولاد کے ساتھ وہی محبت،شفقت اور انصاف نہیں کرتیں جو وہ اپنی اولاد کے ساتھ کرتی ہیں۔وہ انہیں بنیادی حقوق،عزت اور توجہ سے محروم رکھتی ہیں،معمولی باتوں پر طعن و تشنیع اور سختی کرتی ہیں،یہاں تک کہ کبھی کبھار ظلم و تشدد کی انتہا تک پہنچ جاتی ہیں۔ایسے ہی واقعات میں سے ایک درد ناک واقعہ حیدر آباد کا ہے جہاں ایک سوتیلی ماں نے اپنی پانچ سالہ بچی کو بے رحمی سے مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔یہ واقعہ نہ صرف ظلم و بربریت کی ایک خوفناک مثال ہے بلکہ اس بات کی تلخ یاد دہانی بھی ہے کہ سوتیلے رشتوں کو بھی عدل، رحمت اور انسانیت کے تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔
آج ہمارا معاشرہ ايسے واقعات سے بھرا پڑا ہے جن میں سوتیلی ماؤں کا ظالمانہ رویہ معصوم بچوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رہا ہے۔جب ماں کا سایہ ظلم میں بدل جائے تو بچوں کا حوصلہ دم توڑ دیتا ہے،وہ جھوٹ بولنے لگتے ہیں،ان کے دلوں میں منافقت اور بد اعتمادی گھر کر لیتی ہے،خوشیاں رخصت ہو جاتی ہیں،احساسِ کمتری ان کی شخصیت کو گھیر لیتا ہے، ذہنی نشو و نما رک جاتی ہے اور وہ بغاوت کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ایسے ہی بچے بعض اوقات طیش میں آ کر اپنی سوتیلی ماں سے بدسلوکی کرتے ہیں یا قتل تک نوبت پہنچ جاتی ہے،یا پھر ناراض ہو کر گھر چھوڑ دیتے ہیں۔یہی مظلوم جانیں بعد میں منشیات فروشوں، مجرموں یا ملک دشمن عناصر کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں،جو ان سے چوری،گداگری،جسم فروشی اور اعضا فروخت کرنے جیسے جرائم کرواتے ہیں۔
افسوس!معاشرہ بھی ان رشتوں کو بگاڑنے میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔مثلاً:کوئی ماں کے کان بھرتا ہے کہ یہ بچے تمہارے نہیں بنیں گے، تو کوئی بچوں کو ورغلا کر سوتیلی ماں کے خلاف بھڑکاتا ہے۔اس طرح کی میٹھی دشمنی شیطانی چال ہے جو خاندانوں کو تباہ کر دیتی ہے۔اس کے برعکس،اسلامی معاشرے کی خوبصورتی یہ ہے کہ جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کو اپنایا جائے، وہاں سوتیلی ماں سگی ماں جیسی اور سوتیلا باپ حقیقی باپ کی طرح بن جاتا ہے۔ایسے گھروں میں رحمت،شفقت اور محبت کے پھول کھلتے ہیں۔جو لوگ دوسروں کی اولاد کو بھی اپنی اولاد کی طرح چاہتے ہیں، ان پر اللہ پاک کی رحمت اور حضور کی سنت کی برکت نازل ہوتی ہے۔دورِ رسالت اور دورِ صحابہ و صحابیات میں سوتیلے رشتوں کی ایسی روشن مثالیں ملتی ہیں کہ انسان پڑھ کر عشقِ مصطفوی کے نور میں سرشار ہو جاتا ہے اور سمجھ آتا ہے کہ اسلام میں سوتیلا پن نہیں، صرف رشتہِ محبت ہے۔
سوتیلے رشتوں میں رحمتِ مصطفوی کی جھلک:
اسلام نے سوتیلے اور منہ بولے رشتوں کو نفرت نہیں، محبت اور شفقت کا درجہ دیا ہے، اور اس کی بہترین مثال حضور کی سیرت ہے۔
حضرت زید بن حارثہ غلام تھے،ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں حضور کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر پیش کیا۔جب ان کے والد اور چچا فدیہ لے کر لینے آئے، تو حضور نے انہیں اختیار دیا کہ چاہیں تو اپنے گھر چلے جائیں،مگر حضرت زید نے عرض کی:میں حضور کو چھوڑ کر کسی کو اختیار نہیں کرسکتا، آپ میرے لیے باپ اور چچا دونوں کے درجہ میں ہیں۔ یہ سن کر حضور نے ارشاد فرمایا:گواہ رہو!زید میرا(منہ بولا)بیٹا ہے۔([3]) یوں محبتِ مصطفوی نے غلامی کو عزت اور روحانی قرابت میں بدل دیا۔اسی طرح حضور کے سوتیلے بیٹے عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں بچہ تھا، ہاتھ کھانے کے پیالے میں اِدھر اُدھر پھیرتا تھا، تو حضور نے فرمایا:بیٹا!اللہ پاک کا نام لے کر سیدھے ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھایا کرو۔([4])یہ تعلیم و تربیت کا وہ بہترین انداز ہےجس میں باپ کی مہربانی جھلکتی ہے۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ اور خاتونِ جنت رضی اللہ عنہما کے تعلق میں وہ والہانہ محبت تھی گویا کہ حقیقی ماں بیٹی ہوں۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور نے ایک مرتبہ سیدہ فاطمہ سے سرگوشی کی جس پر وہ رو پڑیں، پھر دوسری سرگوشی کی تو مسکرا دیں۔ بعدِ وصالِ مصطفےٰ انہوں نے بتایا کہ پہلی بار حضور نے اپنے وصال کی خبر دی،دوسری بار فرمایا کہ کیا تم راضی نہیں کہ جنتی عورتوں کی سردار بنو؟([5])یہ منظر محبت، ادب اور روحانی رشتوں کی ایسی تصویر پیش کرتا ہے جو صرف نورِ مصطفوی کے ماحول میں نظر آتی ہے۔اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر حضور نے غلام،منہ بولے بیٹے اور سوتیلے بچوں سب سے شفقت فرمائی، تو ہمیں بھی اپنے گھروں میں سوتیلے رشتوں کو محبت، عدل اور خیرخواہی کے سائے میں پروان چڑھانا چاہیے۔یہی حضور کی سنت اور معاشرتی سکون کا راز ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* شعبہ ٹیچر ٹریننگ ڈیپارٹمنٹ مجلس جامعۃ المدینہ گرلز
[1] مسلم،ص389،حدیث:2320
[2] مراۃ المناجیح، 3/118
[3] اصابہ، 2/496، 495
[4] بخاری، 3 /521، حدیث:5376
[5] بخاری،2/508،507،حدیث:3624،3623

Comments