سیدہ زینب بنتِ جحش (قسط:02)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن


موضوع: سیدہ زینب بنتِ جحش (قسط 2)

سیدہ زینب بنتِ جحش کا شمار اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْن([1])قدیمۃُ الاسلام([2])اور سب سے پہلے ہجرت کرنے والی خواتین میں ہوتا ہے۔([3])

آنکھوں اور زبان کی حفاظت فرمانے والی:

آپ ہمیشہ اپنی آنکھوں اور زبان کی حفاظت فرمایا کرتیں،جیسا کہ جب ام المومنین حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  پر تہمت لگائی گئی تو حضور نے اس بارے میں آپ سے پوچھا تو آپ نے عرض کی:یا رسولَ اللہ  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !میں اپنے کانوں اور آنکھوں کی حفاظت کرتی ہوں۔اللہ پاک کی قسم!میں ان میں صرف بھلائی ہی دیکھتی ہوں۔([4])

آپ کے چند اصافِ حمیدہ

حضور آپ کو بہت پسند فرماتے اور کثرت سے آپ کا ذکر فرماتے تھے۔([5])آپ دین، تقویٰ، سخاوت اور نیکی کے اعتبار سے تمام عورتوں کی سردار([6])، نیک، بہت روزہ دار، راتوں میں بہت نوافل پڑھنے والی، بہت احسان کرنے والی،اُمُّ المساکین یعنی مسکینوں کی ماں([7])، بلکہ مساکین کی جائے پناہ([8])خوفِ خدا رکھنے والی،رضائے الٰہی پر راضی رہنے والی،بہت زیادہ گڑگڑانے والی اور دین اسلام کی دعوت دینے والی تھیں۔([9]) آپ نے ایک باندی بھی حضور کو تحفۃً پیش کی تھی۔([10])باری کے علاوہ جب سرکار( صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم )بعدنمازِ عصر تمام ازواجِ پاک کے پاس دورہ فرماتے تو بی بی زینب کے پاس زیادہ ٹھہرتے تھے کیونکہ حضور کو شہد پسند تھا اور حضرت زینب کے پاس شہد ہوتا تھا وہ آپ کو پلاتی تھیں، اس شہد پینے میں دیر لگتی تھی۔ ([11]) غزوۂ طائف اور غزوۂ فتحِ مکہ دونوں  میں حضرت اُمّ سلمہ  رضی اللہ عنہا  اور آپ حضور کے ساتھ شریک تھیں۔([12])

چند خصوصیات

* حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جیسا ولیمہ حضرت زینب  رضی اللہ عنہا  کا فرمایا تھا ایسا ولیمہ اپنی دیگر مقدس بیویوں میں سے کسی کا بھی نہ فرمایا تھا کیونکہ حضور نے ان کا ولیمہ پوری ایک بکری کے ذریعے فرمایا([13])اور لوگوں کو پیٹ بھر کر روٹیاں اور گوشت کھلایا۔([14])

* حضور کی بعض مقدس بیویوں نے حضور سے عرض کی:ہم میں سے کون  سب سے  پہلےآپ سے ملے گی؟فرمایا:تم میں سے جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہیں۔چنانچہ انہوں نے  ہاتھ ناپنا شروع کر دیئے  تو حضرت سَودہ  رضی اللہ عنہا  لمبے ہاتھ والی نکلیں،بعد میں معلوم ہوا کہ لمبے ہاتھ سے  صدقہ و خیرات مراد تھا،چنانچہ ہم سب میں پہلے حضور سے ملنے والی حضرت زینب  رضی اللہ عنہا  تھیں کیونکہ وہ صدقہ و خیرات کو پسند کرتی تھیں۔([15])

* سب سے پہلے آپ کی قبر پر خیمہ لگایا گیا۔([16])

*حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  آپ کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہوئے فرمایا کرتی تھیں کہ اللہ پاک حضرت زینب  رضی اللہ عنہا  پر رحم فرمائے۔بے شک انہیں دنیا میں وہ شرف حاصل ہوا جو کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔اللہ پاک نے خود ان کی شادی کروائی، قرآنِ کریم نے اس کا ذکر فرمایا،حضور نے انہیں خود سے جلد ملنے کی خوشخبری دی اور وہ جنت میں بھی حضور کی بیوی ہیں۔([17])

مزید اوصاف سیدہ زینب بزبان سیدہ عائشہ:

*حضور کی مقدس بیویوں میں مرتبے کے اعتبار سے سیدہ زینب بنت ِ جحش میری ہم پلہ تھیں۔میں نے ان سے بڑھ کر دین کے معاملے میں بہتر کسی عورت کو نہیں دیکھا جو اللہ پاک سے بہت ڈرنے والی، بہت سچی بات کہنے والی، بہت صلہ رحمی  کرنے والی،بہت صدقہ کرنے والی اور جس عمل کے ذریعے بھلائی کر سکیں اور قربِ الٰہی حاصل ہو اس میں خود کو بہت تھکانے والی تھیں۔ اگرچہ ان میں غصے کی تیزی تھی(یعنی غصہ جلد آ جاتا تھا)لیکن جلد ہی اپنی اصلی حالت پر لوٹ آتی تھیں۔([18])

زہد و سخاوت

ایک بار جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مالِ غنیمت میں سے حضرت زینب بنتِ جحش  رضی اللہ عنہا  کی طرف ان کا حصہ بھیجا تو آپ نے فرمایا:اللہ پاک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بخشش فرمائے، میری بہنیں اس کی مجھ سے زیادہ حق دار ہیں۔لوگوں نے عرض کی:یہ سب آپ ہی کا ہے۔اس پر آپ نے سبحان اللہ کہا اور اسے ایک کپڑے سے چھپا دیا۔

پھر فرمایا:اسے زمین پر ڈال کر اس کے اوپر کپڑا ڈال دو۔ پھر حضرت برزہ  رضی اللہ عنہا  سے فرمایا:اس میں سے مٹھیاں بھر بھر کر بنو فلاں اور بنو فلاں کے پاس لے جاؤ،یہ آپ کے قریبی رشتے دار اور کچھ یتیم بچے تھے۔(حضرت برزہ  رضی اللہ عنہا اسے تقسیم کرتی رہیں)جب تھوڑا سا مال باقی رہ گیا تو عرض کی: اے اُمُّ المومنین!خدا کی قسم!اس میں ہمارا بھی حق ہے۔ فرمایا:جو کچھ کپڑے کے نیچے بچا ہے تمہارا ہے۔

حضرت برزہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں:ہم نے کپڑے کے نیچے سے 85 درہم پائے۔

پھر حضرت زینب  رضی اللہ عنہا  نے اپنے مبارک ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر عرض کی:الٰہی!اس سال کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے مالِ غنیمت کا کوئی حصہ مجھ تک نہ پہنچے۔ اللہ پاک  نے آپ کی دعا کو قبول فرمایا اور آپ کا انتقال ہو گیا۔([19])

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے  حضرت زینب  رضی اللہ عنہا  کو بھیجا گیا حصہ 12 ہزاردراہم پر مشتمل تھا جو آپ نے صرف ایک سال ہی وصول فرمایا۔([20])

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب معلوم ہوا کہ حضرت زینب  رضی اللہ عنہا  نے ان کی بھیجی ہوئی رقم کو راہِ خدا میں خرچ کردیا ہے تو  انہوں نے فرمایا:یہ ایسی خاتون ہیں جن کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیا گیا ہے۔پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے دروازے پر کھڑے ہو کر سلام بھیجا اور کہا: مجھے پتا چلا ہے کہ آپ نے اپنا حصہ راہِ خدا میں تقسیم فرما دیا ہے!پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف ایک ہزار دراہم بھیجے تاکہ وہ اس سے اپنے اوپر خرچ کریں،لیکن انہوں نے اس مال کو بھی راہِ خدا میں تقسیم فرما دیا۔([21])

ایک روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ دست کاری کرتیں اور کھالیں دباغت(دباغت کی یہ صورتیں ہیں:کھاری  نمک وغیرہ کسی دوا سے پکایا ہو یا فقط دھوپ یا ہوا میں سکھا لیا ہو کہ ا س کی تمام رطوبت خشک ہو کر بدبو جاتی رہی ہو۔([22])) كر کے انہیں سلائی کر کے راہِ خدا میں صدقہ کر دیا کرتی تھیں۔([23])




[1]فیضان امہات المومنین، ص25

[2]اسد الغابہ، 7 / 138

[3]سیر اعلام النبلاء، 3/480

[4]بخارى، 3/66، حديث:4141

[5]طبقات ابن سعد، 8/82، 81

[6]سیر اعلام النبلاء، 3/480

[7]سیر اعلام النبلاء، 3/483

[8]مستدرک، 5/31، حدیث:6848

[9]حلیۃ الاولیاء، 2/62

[10]مواہب لدنیہ، 1/418

[11]مراۃ المناجیح، 5/111

[12]سیرتِ سید الانبیاء، ص 173

[13]بخاری، 3/453، حدیث:5168

[14]بخاری، 3/306، حدیث:4794ملخصاً

[15]بخاری، 1/479، حدیث:1420

[16]مستدرك، 5/31، حديث:6846

[17]سیر اعلام النبلاء، 3/482

[18]نسائی، ص645، حدیث:3950

[19]طبقات ابن سعد، 8/ 87، 86

[20]طبقات ابن سعد، 8/ 87

[21]طبقات ابن سعد، 8/ 87

[22]بہار شریعت، 1/402، حصہ:2

[23]مستدرك، 5/32، حديث:6850


Share