سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ: ازواجِ انبیا

موضوع: سیدہ حفصہ   رضی اللہُ عنہا

شعبہ ماہنامہ خواتین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُمُّ المومنین حضرت حفصہ   رضی اللہُ عنہا  کا تعلق عرب کے ایک نہایت ہی عزت و شرف والے قبیلۂ قریش کی شاخ بنو عدی سے تھا۔نبی پاک  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کے اعلانِ نبوت سے 5 سال پہلے جب قریش بَیْتُ اللہ شریف کی نئے سرے سے تعمیر میں مصروف تھے تب حضرت عمر  رضی اللہُ عنہ  کے ہاں آپ کی ولادت ہوئی۔حضور کے آٹھویں جدِّ محترم حضرت كعب میں جا کر آپ کا نسب حضور کے نسب شریف سے مل جاتا ہے۔ (1)آپ کی والدہ ریطہ بنتِ مظعون حضرت عثمان بن مظعون،حضرت عبدُ اللہ بن مظعون اور حضرت  ابو عمرو قدامہ بن مظعون   رضی اللہُ عنہم  کی سگی بہن ہیں۔

ام المومنین کے دو سگے بھائی تھے، حضرت عبدُ اللہ اور ابو عیسیٰ حضرت عبدُ الرحمن اکبر(2)،آپ حضرت عبدُ اللہ سے بڑی تھیں۔(3)  آپ کی پہلی شادی حضرت خُنیس بن حُذافہ سَہمی  رضی اللہُ عنہ  سے ہوئی،آپ نے اپنے شوہر کے ساتھ مدینہ طیبہ ہجرت کی تھی جو جنگِ بدر یا اُحد میں زخمی ہو گئے۔(4)  اور انہی زخموں کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا۔(5) تو حضرت عمر  رضی اللہُ عنہ آپ کی دوسری شادی کے لئے فکر مند ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے پہلے حضرت عثمان غنی  رضی اللہُ عنہ    سے اور پھر حضرت ابو بکر صِدِّیق  رضی اللہُ عنہ   سے اپنی بیٹی سیدہ حفصہ سے شادی کی بات کی(6)مگر دونوں کی طرف سے کچھ خاص جواب نہ پا کر بارگاہِ رسالت کی طرف رجوع کیا  اور حضور نے انہیں ایسا پیارا جواب ارشاد فرمایا جو  آپ اور  آپ کی بیٹی کے لئے کسی نعمتِ عظمیٰ سے کم نہ تھا۔چنانچہ حضور  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے انہیں تسلّی دیتے ہوئے اور حوصلہ بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا:حفصہ سے وہ شادی کرے گا جو عثمان سے بہتر ہے اور عثمان اس سے شادی کرے گا جو حفصہ سے بہتر ہے۔(7) اس واقعے کو گزرے ابھی چند روز ہی ہوئے تھے کہ حضور نے حضرت حفصہ سے نکاح کا پیغام دیا تو حضرت عمر  رضی اللہُ عنہ   نے فوراً حضور  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کے ساتھ ان کا نکاح کر دیا۔نکاح کے بعد جب حضرت  عمر کی حضرت ابو بکر صدیق سے ملاقات ہوئی تو حضرت ابو بکر نے فرمایا:جب آپ نے مجھ سے حفصہ کی بات کی تھی اور میں نے کوئی جواب نہ دیا تھا تو شاید اس پر آپ کو مجھ پر غصہ آیا ہو؟در حقیقت میں یہ بات جانتا تھا کہ حضور نے حضرت حفصہ کا ذکر فرمایا ہے اور میں حضور کا راز بھی ظاہر نہیں کر سکتا تھا۔اگر حضور ان سے نکاح نہ فرماتے تو میں ضرور قبول کر لیتا۔(8) یوں سیدہ حفصہ   رضی اللہُ عنہا  کا نکاح اللہ پاک کے آخری نبی  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  سے ماہِ شعبان 3 ہجری(اور ایک قول کے مطابق 2 ہجری)میں ہوا۔(9)

اللہ پاک نے اُمُّ المومنین حضرت حفصہ   رضی اللہُ عنہا  کو بے شمار اوصاف و کمالات سے نوازا تھا۔آپ کے چند اوصافِ حمیدہ ملاحظہ فرمائیے:

اعلیٰ اوصاف

اُمُّ المومنین حضرت حفصہ   رضی اللہُ عنہا  بہت ہی شاندار، بلند ہمت اور سخاوت شعار خاتون تھیں، حق گوئی، حاضر جوابی اور فہم و فراست میں اپنے والد کا مزاج پایا تھا۔(10) آپ کا شمار اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ میں ہوتا ہے۔(11) آپ حضور  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی ان 6 مقدس بیویوں میں سے ہیں جن کا تعلق قبیلۂ قریش سے تھا۔(12) آپ حضور کی وفات کے وقت حضور کے پاس موجود تھیں۔(13) آپ کا مبارک حجرہ مسجد(نبوی)سے ملا ہوا تھا جس کا دروازہ عین مسجد میں تھا۔(14) آپ کے علاوہ صبح کے وقت بارگاہِ رسالت میں کوئی نہیں جاتاتھا، نیز حضور  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  آپ کے گھر میں دو رکعت نماز ادا فرما کر باہر تشریف لاتے تھے۔(15) آپ کے خاندان میں سے 6 افراد نے غزوۂ بدر میں شرکت کی سعادت پائی۔(16)

صلوۃ  وصوم کی پابند:

اُمُّ المومنین سیدہ حفصہ   رضی اللہُ عنہا   نماز روزے کی حد درجہ پابند تھیں اور بارگاہِ الٰہی میں آپ کا یہ عمل اس قدر مقبول تھا کہ ایک بار حضور نے آپ کو(ایک راز ظاہر کرنے پر)طلاق دینے کا ارادہ فرما لیا تو جبریلِ امین علیہ السلام حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی

:لَا تُطَلِّقْھَا فَاِنَّھَا صَوَّامَۃٌ قَوَّامَۃٌ وَاِنَّھَا زَوْجَتُکَ فِیْ الْجَنَّۃِ

یعنی یا رسولَ اللہ  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ! انہیں طلاق مت دیجئے کیونکہ یہ بہت روزہ رکھنے والی، رات میں بہت قیام کرنے والی اور جنت میں آپ کی بیوی ہیں۔(17)

 ایک روایت میں ہے کہ حضور نے ایک طلاق دے دی تھی، پھر حضرت جبرائیل نے حاضر ہو کر عرض کی:آپ نے حضرت حفصہ   رضی اللہُ عنہا  کو طلاق دے دی،حالانکہ وہ تو بہت روزہ رکھنے والی،رات میں بہت قیام کرنے والی اور جنت میں آپ کی بیوی ہیں۔لہٰذا حضرت حفصہ   رضی اللہُ عنہا سے رجوع کر لیجئے۔(18)

اہم نصیحت:

شیخُ الحدیث حضرت علامہ عبدُ المصطفیٰ اعظمی  رحمۃ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں:گھریلو کام دھندا سنبھالتے ہوئے روزانہ اتنی عبادت بھی کرنی پھر حدیث و فقہ کے علوم میں بھی مہارت حاصل کرنی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضور  اقدس  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی بیبیاں آرام پسند اور کھیل کود میں زندگی بسر کرنے والی نہیں تھیں بلکہ دن رات کا ایک منٹ بھی وہ ضائع نہیں کرتی تھیں اور دن رات گھر کے کام کاج یا عبادت یا شوہر کی خدمت یا علْم حاصل کرنے میں مصروف رہا کرتی تھیں۔سبحان اللہ!ان خوش نصیب بیبیوں کی زندگی نبی رحمت  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کے نکاح میں ہونے کی برکت سے کتنی مقدس، کس قدر پاکیزہ اور کس درجہ نورانی زندگی تھی۔ ماں بہنو! کاش!تمہاری زندگی میں بھی ان اُمّت کی ماؤں کی زندگی کی چمک دمک یا ہلکی سی بھی جھلک ہوتی تو تمہاری زندگی جنت کا نمونہ بن جاتی اور تمہاری گود میں ایسے بچے اور بچیاں پرورش پاتے جن کی اسلامی شان اور زاہدانہ زندگی کی عظمت کو دیکھ کر آسمانوں کے فرشتے دعا کرتے اور جنت کی حوریں تمہارے لئے آمین کہتیں۔مگر ہائے افسوس کہ تم کو تو اچھا کھانے، اچھے لباس بناؤ سنگار کر کے پلنگ پر دن رات لیٹنے ریڈیو کاگانا سننے سے اتنی فرصت ہی کہاں کہ تم ان امت کی ماؤں کے نقشِ قدم پر چلو!خداوند کریم تمہیں ہدایت دے۔اس دعا کے سوا ہم تمہارے لئے اور کیا کر سکتے ہیں!کاش!تم ہماری ان مخلصانہ نصیحتوں پر عمل کر کے اپنی زندگی کو اسلامی سانچے میں ڈھال لو اور اُمّت کی نیک بیبیوں کی فہرست میں اپنا نام لکھا کر دونوں جہان میں سرخرو ہو جاؤ۔(19)

شوقِ علمِ دین:

 سیدہ حفصہ   رضی اللہُ عنہا  کو رسولِ پاک  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کا خوب خوب فیضان نصیب تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ کی شخصیت میں دیگر کمالات کے علاوہ شوقِ علمِ دین کا جذبہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ایک بار نبی پاک  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے جنگِ بدر اور حُدَیبِیَہ میں شریک ہونے والے مسلمانوں کے بارے میں فرمایا:مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ ان میں سے کوئی بھی دوزخ میں نہ جائے گا، آپ نےعرض کی:کیا اللہ پاک نے یہ نہیں فرمایا:

وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاۚ- (پ16،مریم:71)

(ترجمہ:اور تم میں سے ہر ایک دوزخ پر سے گزرنے والاہے)

تو حضور نے فرمایا: اللہ پاک نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے:

ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا(۷۲) (پ16، مریم: 72)

(ترجمہ:پھر ہم ڈرنے والوں  کو بچالیں  گے اور ظالموں  کو اس میں  گھٹنوں  کے بل گرے ہوئے چھوڑ دیں  گے۔) (20)

شانِ فقاہت:

سیدہ حفصہ   رضی اللہُ عنہا  احکامِ شرعیہ میں   بھی بہت معلومات رکھتی تھیں،یہی وجہ ہے کہ آپ کے والد حضرت عمر   رضی اللہُ عنہ  کئی معاملات میں آپ کی رائے کو فوقیت دیتے تھے۔جیسا کہ ایک مرتبہ حضرت عمر  رضی اللہُ عنہ  مدینے شریف کی گلیوں میں رات کو دورہ فرما رہے تھے کہ کسی مکان سے ایک عورت کے اشعار کی آواز آئی جو اپنے شوہر کی جدائی کو بڑے ہی دلسوز انداز میں بیان کر رہی تھی۔ جب آپ نے صورتِ حال معلوم کی تو معلوم ہوا کہ اس کا شوہر راہِ خدا میں اسلام دشمنوں سے لڑنے گیا ہوا ہے اور وہ اس کی جدائی پر غمگین ہے، لہٰذا آپ نے اپنی لاڈلی بیٹی حضرت حفصہ   رضی اللہُ عنہا  کے مشورے سے اسلامی فوج میں یہ حکم جاری فرمادیا کہ چار مہینے سے زیادہ کسی سپاہی کو جنگ میں نہ روکا جائے۔(21)

حضور کے آرام کا خیال رکھتی تھیں:

ایک سمجھ دار اور عقل مند  بیوی ہمیشہ اپنے شوہر کو خوش رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے آرام کا بھی بھرپور خیال رکھتی ہے۔اُمُّ المومنین حضرت حفصہ   رضی اللہُ عنہا بھی ایسی ہی صفت سے آراستہ تھیں،آپ بھی حضور کے آرام کا بہت خیال رکھتی تھیں اور حضور کو ہر ممکن طریقے سے راحت و سکون پہنچانے کے لئے کوشاں رہتی تھیں۔چنانچہ فرماتی ہیں کہ میری باری کے دن حضور  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  ایک موٹے ٹاٹ پر سویا کرتے تھے جس کو میں دو تہ کرکے بچھا دیا کرتی تھی۔ایک مرتبہ میں نے اس ٹاٹ کو چار تہ کر کے بچھا دیا تو صبح آپ نے ارشاد فرمایا:اس ٹاٹ کو تم پہلے کی طرح دہرا کر کے بچھا دیا کرو کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ اس بستر کی نرمی سے کہیں مجھ پر گہری نیند کا حملہ ہو جائے تو میری نمازِ تہجد میں خلل پیدا ہو جائے گا۔(22)

عشقِ رسول میں رو پڑتیں:

اُمُّ المومنین حضرت حفصہ   رضی اللہُ عنہا کے سامنے حضور  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کے حالاتِ زندگی بیان کئے جاتے تو حضور کو یاد کر کے پھوٹ پھوٹ کر روتیں اور غمِ نبی میں خوب آنسو بہاتی تھیں۔چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے اپنے والد سے عرض کی:اگر آپ نرم کپڑا پہنیں اوراچھا کھانا کھائیں تو یہ بہتر ہے اس لئے کہ اللہ  پاک نے آپ کو کشادہ رزق اور بہت مال عطا فرمایا ہے۔تو حضرت عمر  رضی اللہُ عنہ  نے فرمایا: اے بیٹی! میں اس معاملے میں تیری مخالفت کرو ں گا، کیا تجھے یاد نہیں کہ حضور کو زندگی میں کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ پھر آپ حضور کے حالاتِ زندگی بیان کرتے رہے یہاں تک کہ آپ یہ سب یاد کر کے رونے لگیں۔(23) اے کاش!اُمُّ المومنین کے صدقے ہمیں بھی عشقِ رسول اور غمِ رسول میں رونے کی لا زوال دولت نصیب ہو جائے۔آمین

بھائی کو سنتِ نکاح کی ترغیب دلائی:

اُمُّ المومنین حضرت حفصہ   رضی اللہُ عنہا  نہ صرف  خود حضور کی سنتوں پر عمل کرتی تھیں بلکہ دوسروں کو بھی سنتوں کی حکمتیں اور ان کے فائدے بتا کر سنتیں اپنانے کا ذہن دیا کرتی تھیں بالخصوص اپنے گھر والوں کے معاملے میں خوب خوب خیر خواہی کا مظاہرہ فرماتیں۔ چنانچہ جب آپ کے  بھائی حضرت عبدُ اللہ بن عمر   رضی اللہُ عنہما   نے نکاح نہ کرنے کا ارادہ کیا تو آپ نے ان سے فرمایا: (اے میرے بھائی!) نکاح کر لیجئے!اگر آپ کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی اور وہ زندہ رہا تو آپ کے لیے دعا کرے گا۔(24) یہاں ان بعض خواتین کے لئےدرس ہے کہ جو نہ خود کسی جگہ نکاح کرنے کے لئے راضی ہوتی ہیں نہ ہی اپنے بھائیوں کا نکاح ہونے دیتی ہیں شاید اس ڈر سے کہ اگر ان کی شادی ہو گئی تو گھر کا خرچ کون چلائے گا!ان کی خواہشات و ضروریات کون پوری کرے گا!انہیں بازاروں میں کون گھمائے گا!یوں ہی بعض کا یہ بھی ذہن ہوتا کہ پہلے ہماری شادیاں کروادو، اپنی شادی بعد میں کرلینا وغیرہ بالفرض وہ خود ہمت باندھ کر کبھی سنتِ نکاح کی خواہش کا اظہار کر دیں تو بہنیں انہیں لعن طعن کر کے خاموش کروا دیتی ہیں اور ان کے بہترین رشتے آنے کے باوجود بھی ان کی شادی کروانے پر راضی نہیں ہوتیں۔اللہ پاک ایسی بہنوں کو عقلِ سلیم عطافرمائے۔آمین

آپ کی روا یت کردہ احادیث کی تعداد:

آپ  بہت بڑی عبادت گزر ہونے کے ساتھ ساتھ حدیث میں بھی ایک ممتاز درجہ رکھتی تھیں، چنانچہ آپ نے رسول ا  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  سے ساٹھ حدیثیں روایت کی ہیں جن میں سے پانچ حدیثیں بخاری شریف میں مذکور ہیں،باقی احادیث دوسری کتبِ حدیث میں درج ہیں۔علمِ حدیث میں بہت سے صحابہ و تابعین آپ کے شاگردوں کی فہرست میں نظر آتے ہیں جن میں خود آپ کے بھائی حضرت عبدُ الله  بن عمر   رضی اللہُ عنہما  بہت مشہور ہیں۔(25)

وصال:

آپ نے اپنے انتقال فرمانے سے پہلے اپنا مال صدقہ کر دیا تھا اور جائیداد وقف کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔(26)  شعبان  45 ہجری میں مدینہ منورہ کے اندر آپ کی وفات ہوئی۔ اس وقت حضرت امیر ِمعاویہ  رضی اللہُ عنہ  کی حکومت کا زمانہ تھا اور مروان بن حکم مدینے کا حاکم تھا۔اسی نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور کچھ دور تک ان کے جنازے کو بھی اٹھایا، پھر حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہُ عنہ  قبر تک جنازے کو کاندھا دئیے چلتے رہے۔آپ کے دو بھائی حضرت عبدُ ا اور حضرت عاصم   رضی اللہُ عنہما  اور تین بھتیجوں حضرت سالم بن عبدُ ا، حضرت عبدُ ا بن عبدُ ا اور حضرت حمزہ بن عبدُ ا   رضی اللہُ عنہم  نے آپ کو قبر میں اتارا اور آپ جنتُ البقیع میں دوسری مقدس بیویوں کے پہلو میں دفن ہوئیں۔ بوقتِ وصال آپ کی عمر 60 یا 63 سال تھی۔(27)



1فیضانِ اُمہات المومنین،ص108،107ملخصاً

2اصابہ،8/163،رقم: 11256 -4/285،رقم:5189

3سیرت حلبیہ،3/441

4سبل الہدی و الرشاد، 11/ 184

5اسد الغابہ،2/181،رقم:1485

6بخاری،3/438،حدیث:5122 ملخصاً

7مسند امام احمد،44/22

8بخارى،3/439،438،حديث:5122

9منتظم،3 /160

10سیرت مصطفیٰ، ص662

11فیضان امہات المومنین، ص24ماخوذاً

12مواہب لدنیہ،1/402،401ماخوذاً

13مراۃ المناجیح،5/81ماخوذاً

14شرح معانی الآثار، 1/ 487،رقم:2163

15احیاء العلوم، 1/261

16معجم كبیر، 23/186،حديث:301 ماخوذاً

17معجم كبیر،23/188،حديث:306

18مستدرک، 5/20، حدیث:6818

19جنتی زیور،ص485،486

20مسند امام احمد،44/37،36،حدیث:26440

21تاریخ الخلفاء،ص113،112ملخصاً

22الشفاء،1/142

23الزھد لامام احمد،ص 152،رقم:660

24مسند شافعی،2/1544،رقم:1340

25سیرتِ مصطفیٰ،ص 663

26اسد الغابۃ،7/75

27سیرتِ مصطفٰی، ص663، 664 ملخصاً


Share