سلسلہ: فیضانِ اعلیٰ حضرت
موضوع: شرح قصیدہ ٔمعراجیہ
شعبہ ماہنامہ خواتین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ بلاشبہ ایک ذہین ترین شاعر تھے،مگر دیگر شعرا کی طرح آپ نے کبھی بھی مال و دولت کی طلب یا دنیاداروں کی چاپلوسی میں اپنی اس صلاحیت کا استعمال نہ کیا، بلکہ آپ کی شاعری اللہ و رسول کی حمد و ثنا اور بزرگانِ دین کی منقبت و مدحت پر منحصر تھی۔آپ کی شاعرانہ مہارت کا ایک عظیم شاہکار”قصیدۂ معراجیہ“بھی ہے۔یہ وہی قصیدۂ معراجیہ ہے جس کے بارے میں لکھنو کے بڑے بڑے ادیبوں نے کہا تھا:اس کی زبان تو کوثر و تسنیم کی دُھلی ہوئی ہے۔(1)یوں تو اس سے پہلے بھی معراج شریف پر کثیر قصیدے لکھے گئے مگر لہجے کی شگفتگی اور شاعرانہ خوبصورتی میں اعلیٰ حضرت کا یہ فنی شاہکار انفرادی حیثیت رکھتا ہے،کیونکہ یہ قصیدہ سفرِ معراج کے واقعات و معجزات کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ اس میں نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعریف و توصیف پر مشتمل حیران کن منظر کشی بھی ہے۔اس کے اشعار کو پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ پچھلی صدی کے شُعرا کے کلام کے سامنے اگر اعلیٰ حضرت کا صرف یہ قصیدہ ہی رکھ دیا جائے تو تمام شعرا کے کلام پر یہ اکیلا ہی غالب ہوجائے۔اشعار کا مقصد،لفظوں کا اتار چڑھاؤ، تشبیہات کی سادگی،نت نئے استعارات کا دلنشین استعمال، جذبات میں خلوص،خوبصورت خیالات اور بہترین ترتیب وغیرہ وہ خوبیاں ہیں جو اس قصیدے کو دیگر قصیدوں سے ممتاز کرتی ہیں ۔
پسِ منظر:
اس قصیدے کو لکھنے کی وجہ یہ بنی کہ ایک مرتبہ اردو کے ایک مشہور نعت گو شاعر محسن کاکوروی نے ایک بار اپنا قصیدہ سنانے کے لیے اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں حاضری دی، ان کا قصیدہ بھی معراجیہ تھا،ظہر کی نماز کے بعد انہوں نے اپنے اشعار سنانے شروع کیے،ابھی دو ہی اشعار پڑھ سکے تھے کہ اعلیٰ حضرت نے فرمایا:اب بس کیجیے! بقیہ اشعار عصر کے بعد سنیں گے۔ اسی ظہر و عصر کے درمیان آپ نے اپنا قصیدۂ معراجیہ تحریر فرمایا،جب مجلس منعقد ہوئی تو پہلے اعلیٰ حضرت نے اپنا قصیدہ سنایا جسے سن کر محسن کاکوروی کہنے لگے: اب بس کیجیے اس کے بعد میں اپنا قصیدہ نہیں سنا سکتا، یوں انہوں نے اپنا قصیدہ سنانے سے معذرت کرلی اور بغیر سنائے ہی چلے گئے۔اس قصیدے کو اعلیٰ حضرت نے تہنیتِ شادیِ اسرا کے نام سے موسوم کیا ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر کوئی اول تا آخر سفرِ معراج کا مختصر بیان نظم کی صورت میں پڑھنا چاہے تو وہ اعلیٰ حضرت کا یہ قصیدہ پڑھ لے۔
اس قصیدے میں 67 اشعار ہیں اور ہر ہر شعر لطائف و معارف کا سمندر اور عشق و ادب کا قیمتی خزانہ ہے اور یہ حقیقت اس قصیدے کے اشعار کے ذیل میں پیش کردہ اجمالی خاکے میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے:
|
اشعار |
مشمولات |
|
1 تا 12 |
معراج شریف کی تیاریاں و انتظامات، حیوانات و جمادات اور زمین و آسمان میں خوشی و مسرت کی لہر اور ایک دوسرے کو مبارکبادیاں |
|
13 تا 20 |
معراج کے دولہا کی انوکھی سہرا بندھی، فرشتوں کی سلامی، خیرات بٹنے کا خوبصورت خیال اور حسرتِ رضا |
|
21تا 26 |
براق پر سوار ہوتے وقت کی کیفیت،یادِ امت، روانگی کے وقت شان و شوکت اور قُدسی پروٹوکول کی منظر کشی، سفرِ معراج کا آغاز اور براق کی برکت |
|
27 |
بیت المقدس میں بےمثل شان و شوکت کا ظہور |
|
28 تا 32 |
آسمانوں کی سیر |
|
33 تا 38 |
مقامِ سدرہ میں آمد اور جبریل امین کی عذر خواہی |
|
39 تا 42 |
عرش و کرسی تک رسائی |
|
43 تا 50 |
عرش و کرسی سے آگے لامکاں کی سیر،عرشِ الٰہی اور حجاباتِ عظمت کو پیچھے چھوڑ کر مقام دنیٰ تک رسائی |
|
51 تا 64 |
بلاحجاب دیدارِ باری سے سرفرازی،محبوب و محب کی ملاقات،راز و نیاز،صلوۃ و تسلیم،عنایات و اکرامات اور بےپایاں شانِ محبوبیت کے اظہار کا دل آویز خیال |
|
65 |
معراج سے واپسی |
|
66 تا 67 |
تمنائے رضا |
اِن شاءَ اللہ اگلی قسطوں میں شرح سلام رضا کی طرز پر قصیدۂ معراجیہ کی مختصر شرح پیش کی جائے گی۔یہاں اس مبارک قصیدے کے صرف پہلے شعر کی شرح پیشِ خدمت ہے:
(1)
وہ سرورِ کشور رسالت جو عرش پہ جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لیے تھے
مشکل الفاظ کے معانی: سرور:بادشاہ۔کشورِ رسالت:رسالت کی سلطنت۔ طرب: خوشی۔
مفہومِ شعر:نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم جو کہ سلطنتِ رسالت کے بادشاہ ہیں جب آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم عرش پہ جلوہ گر ہوئے یعنی آپ کو معراج کا شرف ملا تو عرب کے اس عظیم مہمان کے استقبال کےلیے خوشی اور سکون کے نئے نئے سامان فراہم کئے گئے۔
شرح:اس شعر میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ واقعۂ معراج کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ حضور کو عرش کا مہمان بنایا گیا اور آپ کی آمد کے لئے خوشی اور سکون کے نئے نئے سامان کیے گئے چنانچہ نبوت کے گیارہویں سال 27 رجب المرجب سیّد المرسلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم معراج سے نوازے گئے۔
مکے شریف سے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا بیتُ المقدس تک رات کے چھوٹے سے حصے میں تشریف لے جانا قرآن سے ثابت ہے،جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(۱)
(پ15،الاسراء:1)
ترجمہ:پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک سیرکرائی جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں،بیشک وہی سننے والا،دیکھنے والاہے۔
لہٰذا اس معراج کا منکر کافر ہے۔
نیز آسمانوں کی سیر اور منازلِ قرب میں پہنچنا صحیح اور مشہور احادیث سے ثابت ہے جو حدِ تواتر کے قریب پہنچ گئی ہیں،اس معراج کا منکر گمراہ ہے۔جیسا کہ حکیم الامّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:بیتُ اللہ شریف سے بیت المقدس تک کی جسمانی معراج قطعی یقینی ہے،اس کا انکار کفر ہے۔بیتُ المقدس سے آسمان بلکہ لامکان تک کی معراج کا اگر اس لیے انکار کرتا ہے کہ آسمان کے پھٹنے کو ناممکن مانتا ہے تو بھی کافر ہے کہ اس میں آیاتِ قرآنیہ کا انکار ہے ورنہ گمراہ ہے۔مزید لکھتے ہیں کہ آیۃ کریمہ سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ سے بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ تک بیت المقدس تک کی معراج کا ذکر ہے اور لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ- میں آسمانی معراج کا ذکر ہے اور اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(۱) میں لامکانی معراج کا ذکر ہے۔(2)
Comments