سلسلہ: نئی لکھاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہم نوٹ:ان صفحات میں ماہنامہ خواتین کے 36ویں تحریری مقابلے میں موصول ہونے والے119مضامین کی تفصیل یہ ہے:
|
عنوان |
تعداد |
عنوان |
تعداد |
عنوان |
تعداد |
|
حضورکی حضرت خدیجہ سے محبت |
59 |
سخت مزاجی |
28 |
بڑھتی ہوئی طلاقوں کی وجوہات |
32 |
مضمون بھیجنے والیوں کے نام
حضور کی حضرت خدیجہ سے محبت:
اٹک حضرو:بنت محمد ایوب۔حویلی لکھا:بنت محمد یار۔حیدر آباد:بنت عبد الوحید خان۔خوشاب:جوہر آباد: بنت امتیاز حسین، بنت عبدُ الخالق، ہمشیرہ عتیق محسن۔سیالکوٹ:تلواڑہ مغلاں:بنت رزاق احمد، بنت سائیں ملنگا، بنت عارف حسین، بنت محمد جمیل، بنت محمد رفیق، بنت محمد عاصم شہزاد، بنت محمد نعیم، بنت محمد یسین، بنت ناصر محمود، بنت نصیر احمد، بنت وسیم علی، خوشبوئے مدینہ، ہمشیرہ غلام عباس۔شفیع کا بھٹہ:بنت امجد فاروق، بنت امجد پرویز، بنت سعید، بنت طاہر، بنت محمد بشیر، بنت کاشف شیراز، بنت یعقوب، ہمشیرہ میر حمزہ۔ مظفر پورہ:بنت محمد عمران، بنت اجمل، بنت ارشد، بنت اعجاز، بنت نعیم، ہمشیرہ محمد قاسم۔معراج کے:بنت منور حسین، بنت نصیر احمد، بنت نور حسین۔نند پور:ام ہانی، بنت عبد الستار مدنیہ، بنت محمد الیاس، بنت محمد انور۔پاکپورہ:بنت سید ابرار حسین۔گلبہار:بنت الیاس، بنت محمد شہباز، ہمشیرہ فیصل خان۔فیصل آباد:جھمرہ سٹی:بنت محمد انور۔ ملتان:بنت یعقوب۔قادر پوراں:بنت اسحاق۔کالیکی منڈی:بنت محمد جاوید اقبال۔ کراچی: بنت رحمت علی، بنت محمد طالب، بنت محمد ندیم صدیقہ، بنت فاروق۔دھوراجی:بنت محمد عدنان، بنت شاہد۔گلشن معمار:بنت محمد اکرم۔ گجرات:بنت سرفراز احمد۔کنگ سہالی:بنت ظہیر عباس۔عرب شریف: بحرین:بنت مقصود۔ہند:بنت اللہ بخش۔
سخت مزاجی:
سمندری:137 روڈ:بنت اشرف۔سیالکوٹ:تلواڑہ مغلاں:بنت بشارت علی۔شفیع کا بھٹہ:بنت اشفاق احمد، بنت اورنگزیب، بنت خلیل احمد، بنت رضا، بنت سرمد، بنت فضل الٰہی، بنت محمد احسن، بنت محمد اشفاق بھٹی، بنت محمد امین حسین، بنت محمد عارف، بنت ناصر، ہمشیرہ حنظلہ صابر۔ نند پور:ام ہانی، بنت عبد الستار مدنیہ، بنت محمد الیاس، بنت محمد انور۔گلبہار:بنت ایاز خان، بنت محمد شہباز۔فیصل آباد: پنسرہ: بنت نصیر۔چباں:بنت ارشد محمود۔گجرات:ام شجاع۔کراچی:دھوراجی:بنت شہزاد احمد، بنت محمد عدنان۔نارتھ کراچی:بنت عثمان۔ ہند: مارہرہ شریف:ہمشیرہ اخلاق برکاتی۔ویسٹ بنگال:بنت شہاب۔
بڑھتی ہوئی طلاقوں کی وجوہات:
بہاولپور:بنت صدیق۔خانیوال:کوہی والا:بنت اللہ نور۔راولپنڈی:صدر:بنت محمد وسیم ظفر۔سکرنڈ:بنت حضور بخش۔سیالکوٹ:تلواڑہ مغلاں:بنت جاوید سرور، بنت محمد اسلام، بنت محمد سجاد۔شفیع کا بھٹہ:بنت اصغر، بنت افتخار احمد، بنت بابر، بنت ذو الفقار انور، بنت ساجد، بنت سلیم، بنت شمس پرویز، بنت شہباز احمد، بنت طارق محمود، بنت عرفان، بنت محمد اصغر مغل، بنت محمد ندیم میاں، ہمشیرہ محمد شہراز حسن۔مظفر پورہ:بنت شبیر، بنت نواز۔معراج کے:بنت منیر حسین۔نند پور:ام ہانی، بنت عبد الستار مدنیہ، بنت محمد الیاس، بنت محمد انور۔نواں پنڈ آرائیاں:بنت ظفر۔گلبہار:بنت امیر حیدر۔نارتھ کراچی:بنت طفیل الرحمان ہاشمی، بنت عبد الوسیم بیگ۔ گجرات: کنگ سہالی:بنت محمد اشرف۔
بڑھتی ہوئی طلاقوں کی وجوہات
بنتِ طفیل الرحمان ہاشمی(اول پوزیشن)
(درجہ:ثانیہ، جامعۃ المدینہ گرلز فیضِ مدینہ نارتھ کراچی)
فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:تمام حلال چیزوں میں خدا کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ طلاق ہے۔(1)
حضرت معاذ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اے معاذ!اللہ پاک نے غلام آزاد کرنے سے زیادہ پسندیدہ کوئی چیز روئے زمین پر پیدا نہیں کی اور کوئی چیز زمین پر طلاق سے زیادہ نا پسندیدہ پیدا نہ کی۔(2)
نکاح سے عورت شوہر کی پابند ہو جاتی ہے۔اس پابندی کے اٹھا دینے کو طلاق کہتے ہیں۔طلاق دینا جائز ہے مگر بے وجہ شرعی ممنوع ہے۔(3)
افسوس!آج ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو وجہ شرعی ہونا تو مشکل اورقریب بہ محال ہی ہوتا ہے بلکہ نہایت ہی معمولی معمولی باتوں کی بنیاد پر نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی طلاقوں کی شرح خطرناک حد تک پہنچ کر ایک سماجی مسئلہ بن چکی ہے اور یہ مسئلہ ہمارے معاشرے کے خاندانی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ طلاق کے ہتھیار کو بے دریغ استعمال کرنے کی وجہ سے امن و سکون اور اعلیٰ اقدار کا خاتمہ ہوتا جا رہا ہے، معاشرتی زندگی میں سخت بے چینی ہے،دلخراش اور جذبات کو لہولہان کرنے والے بیسیوں واقعات ہمارے ارد گرد موجود ہیں جنہیں جان کر دل کانپ اٹھتا ہے۔
یاد رکھئے!طلاق حلال ہونے کے باوجود اللہ پاک کے نزدیک نا پسندیدہ ترین عمل ہے۔
طلاق کی پہلی وجہ:
غور و فکر کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بڑھتی ہوئی طلاقوں کی وجوہات میں سے اہم ترین وجہ علمِ دین سے دوری ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ تمام تر وجوہات کی بنیاد اسی وجہ پر ہے تو شاید درست ہوگا کہ علمِ دین سے دوری کے سبب ہی ازدواجی زندگی کے حقوق و فرائض کی اہمیت جاننے اور انہیں مکمل طور پر ادا کرنے سے قاصر رہا جاتا ہے۔جہاں والدین بچوں کو ضروریاتِ زندگی فراہم کرتے ہیں وہیں والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو دینی تعلیم بھی سکھائیں تاکہ وہ اپنی مکمل زندگی شریعت کے مطابق گزاریں، ازدواجی رشتے میں منسلک ہو کر اس عظیم رشتے کے حقوق و فرائض کی پاسداری کریں اور اس کی نزاکت کو سمجھیں۔
میاں بیوی کا رشتہ تمام تر رشتوں میں نہایت حسین اور اہم ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی نازک بھی ہوتا ہے لیکن دینی تعلیم سے دوری کی صورت میں اس خوبصورت رشتے کی حفاظت بہت دشوار ہے۔
فی زمانہ بڑھتی ہوئی طلاقوں کی ایک اہم ترین وجہ یہ بھی ہے کہ آج کل رشتے خاندانی مطابقت اور اخلاقی اقدار کو مدِّنظر رکھتے ہوئے طے کرنے کے بجائے موبائل فون،انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے عارضی پسندیدگی کی کمزور بنیاد پر جوڑے جا رہے ہیں جو جلد ہی ختم ہو جاتے ہیں۔
لہٰذا ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی بھر کے ساتھی کا انتخاب کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائے کہ اس میں لازمی طور پر وہ اخلاقی اقدار موجود ہوں جن کے ساتھ اس کی اپنی پرورش کی گئی ہے۔اگر رشتے طے کرتے ہوئے مطابقت اور ہم آہنگی کو ہی پسِ پشت ڈال دیا جائے تو نتیجہ طلاق کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔
طلاق کی دیگر وجوہات:
U میاں بیوی کا گناہوں اور برائیوں میں مبتلا ہونا بھی بڑھتی ہوئی طلاقوں کا ایک اہم سبب ہے۔
U گھروں میں حرام کمائی کی موجودگی، گانوں باجوں کی آوازوں کا گونجنا،
U ایک دوسرے کی غیبتوں، چغلیوں اور بے جا برائیوں کو بیان کرتے رہنے کی عادت وغیرہ گناہوں کی نحوست کا نتیجہ یہ ہوتا ہے:
v گھروں سے برکت ختم ہو جاتی ہے۔
v میاں بیوی کے درمیان محبت و اُلفت کا خاتمہ ہوتا ہے۔
v لڑائی جھگڑے جنم لیتے ہیں۔
v دلوں میں نفرت اور دشمنی شروع ہو جاتی ہے۔
اور آخر کار نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے۔
U بڑھتی ہوئی طلاقوں کی اہم وجوہات میں سے میاں بیوی کے رشتے میں دوسرے لوگوں کی بے جا مداخلت بھی ہے۔
U ایک دوسرے کی حق تلفی کرنا،
U غصے پر کنٹرول نہ ہونا،
U بات بات پر غیظ و غضب کا تنور بن کرسامنے والے پر پھٹ پڑنا،
U بغیر سوچے سمجھے غصے میں کچھ بھی بول دینا،
U صبر نہ کرنا،
U نا شکری،
U عدم برداشت،حالانکہ میاں بیوی کے نازک رشتے میں برداشت کا عنصر ہر وقت موجود ہونا لازم و ملزوم ہے۔لہٰذا اگر میاں بیوی ایک دوسرے کی باتوں کو برداشت نہیں کریں گے تو رشتہ قائم نہیں رہ سکتا۔
U ایثار کا جذبہ نہ ہونا،
U ایک دوسرے کو ترجیح دینے کے بجائے اپنی خواہشات کو ترجیح دینا،
U گھریلو نا چاقیاں،
U مالی تنگی،
U اولاد کا نہ ہونا،
U عمر میں غیر معمولی فرق،
U زبان درازی کرنا،
U مرد کا نام نہاد غیرت کے نام پر ظلم و زیادتی کرنا،
U فلموں ڈراموں اور ناولز کے غیر اخلاقی اثرات،
U مشترکہ خاندانی نظام سے بغاوت،
U جسمانی، نفسیاتی یا جذباتی زیادتی،
U کسی ایک کا بھی شکی مزاج ہونا،
U بے جا بد گمانیوں کا شکار ہونا،
U زبردستی کے رشتے میں جوڑ دینا،
U کم عمری میں شادیاں کروا دینا،
U مرد کا نشہ کرنا،
U عورت کا بے حیائیوں میں مبتلا ہونا،آزادی کے نام پر بغاوت پر اکسانے والے پروگرام میں دلچسپی رکھنا،دوسرے مردوں یا عورتوں سے ناجائز تعلقات رکھنا وغیرہ وغیرہ۔
مذکورہ تمام وجوہات طلاق کی شرح میں تیزی سے اضافے کا سبب ہیں۔دن بہ دن طلاقوں کا بڑھتا ہوا تناسب معاشرے کے چین و سکون کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک معاشرے میں طلاق کو گالی سمجھا جاتا تھا مگر فی زمانہ آئے دن طلاق کے قصے سننے میں آتے ہیں۔ بلکہ اب تو معمولی معمولی باتوں پر طلاق واقع ہونا عام سی بات ہو گئی ہے، گویا طلاق کو ایک کھیل بنا لیا گیا ہے۔اللہ پاک مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

Comments