بُری عاتیں (قسط10)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ: حصولِ علمِ دین کی رکاوٹیں

موضوع: بری عادتیں (قسط 10)

*محترمہ بنتِ افضل عطاریہ مدنیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دینی تعلیم کو ادھورا چھوڑ جانے کی وجوہات ذکر کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے، ذیل میں بیان کردہ بُری عادت بھی ایسی ہی ہے جو عِلمِ دین کی برکتوں کے حصول میں رکاوٹ کا باعث ہے۔

سبق سمجھنے کی کوشش نہ کرنا

تعلیم اور مقصدِ تعلیم ہر فرد کی زندگی میں ایک انتہائی اہم حیثیت رکھتے ہیں، چنانچہ انسان کو اللہ کریم کی اعلیٰ ترین مخلوق اور خلیفہ قرار دیا گیا، لہٰذا اس کی تعلیم و تربیت بھی ایسی ہونی چاہیے کہ وہ جان سکے کہ ربِّ کریم کی بندگی کے تقاضے کیا ہیں اور وہ کیا چیزیں ہیں جو اسے زمین کی خلافت کا اہل بنا سکتی ہیں۔اس لئے  دینی اسٹوڈنٹس کے علم سیکھنے کا بنیادی مقصد ہی یہ ہونا چاہیے کہ *وہ معرفت و بصیرت کی دولت سے مالا مال ہو سکیں*زندگی کی ابدی اور روحانی حقیقتوں کو جان سکیں *معاشرے میں انفرادی و اجتماعی حیثیت سے جو ذمہ داریاں  ان پر عائد ہوتی ہیں انہیں اچھے طریقے سے نبھا سکیں* سائنس اور معاشرتی رجحانات کو درست رخ پہ ڈال سکیں۔

الغرض اسلامی تعلیم کے مقاصد میں بے انتہا وُسعت ہے اور اسی میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ پاک کا خلیفہ اور نائب ہونے کے ناطے ہمارا بنیادی و اولین فرض ہے کہ اپنے خالق و مالک کی اپنی حیثیت کے مطابق پہچان حاصل کریں جس کے لئے اللہ پاک کی ذات و صفات کو جاننا اور اللہ پاک کے  احکام سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ کون سے علوم سیکھنا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہیں اس کے متعلق  اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہِ علیہ کا ایک فرمان آسان لفظوں میں ملاحظہ فرمائیے:ہرمسلمان مرد و عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے ، چنانچہ سب سے پہلے ان علوم کا سیکھنا فرض ہے جن کی طرف انسان بالفعل اپنے دین میں محتاج ہو یعنی وہ عقائد جن کے اعتقاد سے آدمی مسلمان سنّی المذہب ہوتا ہے اور انکار و مخالفت سے کافر یا بدعتی۔اس کے بعد ہر عاقل،بالغ،مرد،عورت پر وضو،غسل،نماز اور روزہ کے مسائل سیکھنا فرض ہے،اسی طرح مسائلِ زکوٰۃ کا اس شخص کے لئے جاننا جو صاحبِ نصاب ہے اور  حج کے مسائل اس کے لئے جس پر وہ واجب ہے، خرید و فروخت کے مسائل جاننا کاروبار کرنے والوں کے لئے تاکہ وہ اپنے تمام معاملات میں مشکوک اور مکروہ کاموں سے بچ جائیں۔ یونہی پیشہ ور اور ہر ایسا آدمی جو کسی کام میں مشغول ہو تو اس پر اس کام کا علم رکھنا فرض ہے،تاکہ وہ اس معاملے میں حرام سے بچ جائے۔ اس میں کوئی شك نہیں کہ پنجگانہ فرض نمازوں کی فرضیت جاننا اور حصولِ اخلاص کا علم رکھنا ضروری ہے کیونکہ ہر عمل کی صحت اس (اخلاص)پر موقوف ہے۔ یونہی حلال،حرام کا علم اور ریا کا علم حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ عابد ریاکار اپنی ریاکاری کی وجہ سے اپنے عمل کے اجر و ثواب سے محروم ہوتا ہے۔ حسد اور خود بینی کا علم رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ دونوں انسانی اعمال کو اس طرح کھا جاتے ہیں جیسے آگ لکڑی کو۔ (1)

علمِ دین سیکھنے کا بنیادی مقصد ہی چونکہ رضائے الٰہی کے لئے دینی احکام پہ عمل کرنا ہے لہٰذا دینی اسٹوڈنٹس کے لئے اپنے اسباق کو صحیح سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ اگر انہوں نے دینی مسائل کو صحیح نہ سمجھا تو خود اس پر عمل کس طرح کریں گے یا پھر دوسروں کی کیا رہنمائی کریں گے!کیونکہ حصولِ علم سے مقصود صرف امتحان میں پاس ہونا نہیں بلکہ اسے عملی زندگی میں نافذ کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔جیسا کہ ایک اسلامی بہن نے کسی سے مسئلہ پوچھا کہ چار رکعت والی فرض نماز کی کون سی رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانا ضروری ہے؟انہوں نے فرمایا:فرض کی پہلی دو رکعتوں میں سورت ملانا واجب ہے،(2) تیسری اور چوتھی رکعت میں تنہا نماز پڑھنے والے کے لئے سورت ملانا مستحب ہے۔(3)تو پوچھنے والی اسلامی بہن کہتی ہیں:میں تو یہی سمجھی تھی کہ آخری دو رکعات میں بھی سورت ملانا واجب ہے۔لہٰذا ایک عرصے سے آخری دو رکعات میں بھی سورت ملا کر پڑھ رہی ہوں۔

معلوم ہوا!دینی  مسئلے کو درست سمجھا جائے ورنہ عبادات کی  ادائیگی ناقص ہو سکتی ہے۔مگر افسوس!اسٹوڈنٹس کی ایک تعداد سبق کو درست سمجھنے کے معاملے میں سستی و کاہلی کا شکار ہے،جس کی وجہ سے وہ بسااوقات اپنی تعلیم تک چھوڑ دیتے ہیں،اگرچہ اس کی کئی وجوہات  ممکن ہیں،مگر ان میں سے چند یہ بھی ہو سکتی ہیں:

  • کچھ  اسٹوڈنٹس ذہنی طور پہ کمزور نہیں ہوتے لیکن نفسیاتی طور پر خود کو بہت کمزور یاد داشت والا سمجھ لیتے ہیں،پھر اسی مفروضے کی بنا پر پہ سمجھنے لگتے ہیں کہ مجھے سبق سمجھ آنا ہی نہیں ہے اور اپنے دماغ میں یہ غلط فہمی بٹھا لیتے ہیں کہ عالم/ عالمہ بننا ہی میرے نصیب میں نہیں ہے۔
  • بعض اسٹوڈنٹس کسی مضمون کو خشک یا بے فائدہ سمجھتے ہیں،یوں انہیں وہ سبجیکٹ بھی مشکل لگنے لگتا ہے اور ان کے اندر مایوسی پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔
  • بعض اسٹوڈنٹس اپنے حال یا مستقبل کی وجہ سے اسباق پر توجہ نہیں دیتے، مثلاً طالبات گھر کے کام کاج کی زیادتی کی وجہ سے پڑھائی پر توجہ نہیں دے پاتیں تو طلبہ کا ذہن پیسے کمانے کا ہوتا ہے۔لہٰذا پڑھائی ختم ہو جاتی ہے۔ 
  • بعض اسٹوڈنٹس یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ٹیچرز سے سبق سمجھ نہ سکے تو خیر ہے بعد میں شرح سے پڑھ لیں گے یا کسی اور سے سمجھ لیں گے۔
  • کچھ تو اس لئے بھی سبق سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ میرے بہت تعلقات ہیں مجھے کون فیل کر سکتا ہے؟ ایسا سمجھنے والوں سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ سفرِ علم کو کامیابی سے جاری رکھ کر منزلِ مقصود تک پہنچ سکیں۔ لہٰذا وہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر جامعہ چھوڑ جاتے ہیں۔

 

یاد رکھئے!علمِ دین وہ روشنی ہے جس کے بغیر زندگی کا ہر مرحلہ بے رونق ہے۔ عملی زندگی میں علمِ دین کی اہمیت سے ہرگز انکار نہیں کیا جا سکتا۔بلکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جس کے لئے  ابتدائی چند سالوں میں ایک ادارے میں باقاعدہ حصولِ علم کا اہتمام کیا جاتا ہے اور یہیں سے سیکھنے والے معاشرے کے بہترین افراد تیار ہوتے ہیں۔اگر  اسٹوڈنٹس اپنے اسباق کو درست نہ سمجھیں گے یا بے فائدہ سمجھ کر اگنور کر دیں گے تو ایک خاندانی فرد کی حیثیت سے اپنے حقوق و فرائض کو کیسے پہنچان سکیں گے!اور معاشرے کا اہم فرد ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں کیسے ادا کریں گے؟لہٰذا اگر اسٹوڈنٹس عملی زندگی میں علم کی روشنی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ایجوکیشن لائف میں اپنے اسباق کو اچھے طریقے سے سمجھنے اور یاد کرنے کی بھر پور کوشش کریں،دلجمعی  اور استقامت کے ساتھ محنت کریں،سبق سمجھ نہ آنے کی صورت میں ٹیچرز یا ذہین،سنجیدہ اور سینئر اسٹوڈنٹس سے بار بار رہنمائی لیتے رہیں کہ اس سے خود اعتمادی پیدا ہو گی،مزید آگے بڑھنے کا حوصلہ ملے گا، مایوسی ختم ہو گی اور اللہ پاک کی توفیق سے سبق سمجھ نہ آنے کی شکایت بھی  دور ہو گی۔اللہ کریم ہم سب کو اپنے دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز یزمان بہاولپور



1 فتاویٰ رضویہ، 23/ 623تا625ملتقطاً

2 بہار شریعت، 1/517، حصہ:3ملخصاً

3 فتاویٰ رضویہ، 8/192


Share