موضوع: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات و عجائبات (قسط5)
شعبہ ماہنامہ خواتین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ سے پیوستہ:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات و عجائبات کا ذکر جاری ہے۔پچھلی قسطوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مصر واپسی کے دوران نبوت ملنے تک کا ذکر ہو چکا ہے،اب اس کے بعد مصر میں رونما ہونے والے معجزات و عجائبات ملاحظہ فرمائیے:
زبان کی لکنت:
بچپن میں منہ میں انگارہ رکھنے کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں لکنت پیدا ہوگئی تھی، چنانچہ جب اللہ پاک نے آپ کو فرعون کے پاس جا کر اسے نیکی کی دعوت دینے کا حکم فرمایا تو قریب تھا کہ یہ لکنت اس فریضہ کی ادائیگی میں رکاوٹ ہوتی، لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی:
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْۙ(۲۵) وَ یَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْۙ(۲۶) وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْۙ(۲۷) یَفْقَهُوْا قَوْلِیْ۪(۲۸)
(پ16،طہ: 25 تا 28)
ترجمہ:اے میرے رب!میرے لیے میرا سینہ کھول دے اور میرے لیے میرا کام آسان فرما دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ میری بات سمجھیں۔
اللہ پاک نے آپ کی دعا قبول فرمالی اور لکنت دور ہوگئی۔امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:جو کوئی زبان کی لکنت والا ہو ہر نماز کے بعد سات مرتبہ مذکورہ چار آیات پڑھ لیا کرے گا تو ان شاء اللہ وہ صاف بولنے والا بن جائے گا۔ (1)
فرعون اور اس کی قوم کے لیے ظاہر ہونے والے معجزات
اللہ پاک کے حکم پر حضرت موسیٰ علیہ السلام جب فرعون اور اس کی قوم کے پاس اللہ پاک کا حکم پہنچانے کے لئے تشریف لائے تو فرعون نے آپ کو پہچان لیا اور اپنے احسانات اور قبطی کو مارنے والا واقعہ یاد کروا کر احسان جتاتے ہوئے آپ کو ملامت کرنے لگا، جس پر آپ نے اس کی باتوں کے ایسے دندان شکن جواب دیئے کہ فرعون لاجواب ہوگیا۔ پھر اس نے بات بدلتے ہوئے رب العٰلمین کے متعلق پوچھا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک کے وجود اور اس کی وحدانیت پر بڑی فصاحت و بلاغت کے ساتھ فرعون کے سوال اور اس کی عقل کے مطابق مختلف انداز سے بدل بدل کر ایسے مضبوط دلائل دیئے کہ فرعون عاجز ہوگیا۔ مگر قبول کرنے کے بجائے دھمکیوں پر اتر آیا اور کہنے لگا:
قَالَ لَىٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰهًا غَیْرِیْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ(۲۹) (پ19،الشعراء:29)
ترجمہ:(فرعون نے)کہا:(اے موسیٰ!)اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں ضرور تمہیں قید کردوں گا۔
حضرت موسیٰ نے فرمایا:میں تیرے پاس حق و باطل میں فرق واضح کرنے والا معجزہ لے کر آیا ہوں جو میری حقانیت کی واضح دلیل ہے؛کیا تو پھر بھی مجھے قید کردے گا؟فرعون نے وہ معجزہ طلب کیا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا جو ایک بہت بڑا اژدھا بن گیا، اس کا رنگ زرد اور جسم پر بال تھے،منہ کھلا ہوا تھا، اس کے دونوں جبڑوں کے درمیان 120 فٹ کا فاصلہ تھا،وہ اپنی دُم پر کھڑا ہوگیا اور ایک میل تک زمین سے بلند ہوگیا، اس نے اپنا نیچے والا جبڑا زمین پر رکھا اور اوپر والا فرعون کے محل کی دیواروں پر،وہ فرعون کو پکڑنے کے لیے دوڑا،فرعون نے تخت سے چھلانگ لگا دی، خوف اور ہیبت کی وجہ سے اس کی ہوا خارج ہوگئی،اس دن چار سو مرتبہ اس کی ہوا نکلی،وہ اسی وجہ سے مرتے دم تک پیٹ کی بیماری میں مبتلا رہا اور اسی مرض کے ساتھ غرق ہوا۔پھر اس اژدھے نے لوگوں کا رخ کیا تو لوگ ڈر کے مارے ادھر ادھر بھاگنا شروع ہوگئے،اس بھگدڑ کی وجہ سے 25 ہزار لوگ ایک دوسرے پر گر کر ہلاک ہو گئے۔ فرعون نے چلانا شروع کیا اور کہا:اے موسیٰ!اس کی قسم جس نے تمہیں رسول بنایا اسے پکڑلو میں تم پر ایمان لے آؤں گا اور بنی اسرائیل کو بھی تمہارے ساتھ بھیج دوں گا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے پکڑا تو وہ پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ (2)
جب آپ نے اپنا معجزہ دکھا دیا تو فرعون نے کہا: کیا اور بھی کوئی معجزہ ہے؟آپ نے فرمایا:ہاں۔پھر آپ نے اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالا تو اچانک اس سے سورج کی طرح روشنی نکلنے لگی جس سے دیکھنے والوں کی نگاہیں حیرت زدہ ہوگئیں۔ (3)
دو نشانیاں دیکھنے کے بعد فرعون اپنی خدائی کا دعویٰ بھول گیا اور خوف کی وجہ سے تھرتھرانے لگا، مگر ماننے کی توفیق پھر بھی نہ ہوئی اور اپنی جھینپ مٹانے اور بھرم قائم رکھنے کے لیے کہنے لگا:
اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌۙ(۳۴) یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهٖ ﳓ فَمَا ذَا تَاْمُرُوْنَ(۳۵)
(پ 19، الشعراء: 34، 35)
ترجمہ:بیشک یہ بڑے علم والا جادوگرہے یہ چاہتا ہے کہ تمہیں اپنے جادو کے زور سے تمہارے ملک سے نکال دے تو (اب) تم کیا مشورہ دیتے ہو؟
حالانکہ وہ بخوبی جان چکا تھا کہ آپ جادوگر نہیں بلکہ نبیِ بر حق ہیں، کیونکہ اس کے ملک میں اس کے ماتحت کئی جادوگر تھے، کسی نے بھی کبھی ایسا حیران کن معاملہ دکھایا نہ کبھی نبوت کا دعویٰ کیا،پھر بھی اس نے کوشش کی کہ کسی طرح آپ کو شکست ہوجائے اور اس کی سلطنت بچ جائے،(4)لہٰذا اس نے حضرت موسیٰ کو اپنے جادوگروں سے مقابلے کی دعوت دی۔چنانچہ مقابلے کے لیے فرعونیوں کی عید کے دن اور چاشت کے وقت کا انتخاب کیا گیا،(5)جب مقررہ دن اور وقت سب لوگ جمع ہو گئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سب سے پہلے جادوگروں کو نصیحت کی تاکہ وہ مقابلے سے باز رہیں، مگر جب وہ ڈٹے رہے اور مقابلے کے لئے صف بندی ہوئی تو جادوگروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اجازت طلب کی کہ پہلے آپ عصا ڈالیں گے یا ہم ڈالیں؟آپ نے فرمایا:تمہیں جو ڈالنا ہے ڈال دو۔چنانچہ انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں تو زمین سانپوں سے بھرگئی اور میدان میں سانپ ہی سانپ دوڑنے لگے اور دیکھنے والے اس نظر بندی سے مسحور ہوگئے۔ایک قول کے مطابق جادوگروں نے جو رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر ڈالی تھیں وہ تین سو اونٹوں پر لاد کر لائی گئی تھیں۔ (6)اور امام نسفی فرماتے ہیں:ستر ہزار رسیاں اور اتنی ہی لاٹھیاں تھی۔(7)
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا کہ کہیں بعض لوگ معجزہ دیکھنے سے پہلے ہی اس نظربندی کے گرویدہ ہو جائیں اور معجزہ نہ دیکھیں تو اللہ پاک نے انہیں تسلی دی کہ آپ ہی غالب آئیں گے۔جب آپ نے اپنا عصا زمین پر ڈالا تو وہ بہت بڑا سانپ بن کر ان کی رسیوں اور لاٹھیوں کو نگلنے لگا جب وہ ان سب کو نگل گیا تو آپ نے اسے پکڑ لیا اور وہ پہلے کی طرح عصا ہو گیا۔جادوگروں نے یہ دیکھا تو انہیں یقین ہوگیا کہ یہ جادو نہیں۔لہٰذا وہ بےاختیار بارگاہِ الٰہی میں سجدے میں گر گئے اور ایمان لے آئے۔ (8)
امام رازی فرماتے ہیں:جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اژدھے نے تمام رسیوں اور لاٹھیوں کو نگل لیا تو بعض جادوگر کہنے لگے:یہ جادو نہیں ہوسکتا بلکہ یہ خدائی معاملہ ہے۔اس معجزے سے انہوں نے دلیل پکڑی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے سچے نبی ہیں۔(9)کیونکہ جادو میں ایک چیز کی حقیقت نہیں بدلتی صرف نظربندی ہوتی ہے، اگر یہ جادو ہوتا تو ان کی رسیوں اور لاٹھیوں کو نہ نگلتا۔بعض مفسرین کے نزدیک فرعون نے جب جادوگروں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مقابلے کے لیے بلایا تو جادوگروں نے فرعون سے کہا تھا کہ ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، چنانچہ اس کی کوشش کی گئی اور انہیں ایسا موقع فراہم کر دیا گیا،انہوں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام خواب میں ہیں اور عصا شریف پہرہ دے رہا ہے۔یہ دیکھ کر جادوگروں نے فرعون سے کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جادوگر نہیں،کیونکہ جادوگر جب سوتا ہے تو اس وقت اس کا جادو کام نہیں کرتا، مگر فرعون نے انہیں جادو کرنے پر مجبور کیا۔(10)
ایمان اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت و عطا ہے وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے یہ عطا فرما دیتا ہے،لیکن بعض اعمال اور اچھے کام ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی برکت سے اللہ پاک بندے کو ایمان سے نواز دیتا ہے؛فرعون کے جادوگروں کی بھی ایک بہت خوبصورت نیکی ان کے ایمان کا سبب بن گئی۔ چنانچہ تفسیرِ کبیر میں ہے:مقابلے سے پہلے جادوگروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اجازت طلب کرنے میں ادب و احترام کا پاس رکھا اس طرح کہ آپ کا ذکر پہلے اور اپنا بعد میں کیا۔صوفیائے کرام فرماتے ہیں:اسی ادب و احترام کی برکت سے اللہ پاک نے انہیں ایمان کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ (11)
جادوگروں کو ایمان لاتا دیکھ کر فرعون غضب ناک ہوگیا اور اس نے انہیں دھمکی دی کہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر انہیں کھجور کے تنوں پر پھانسی دے دے گا۔مگر وہ بالکل نہ ڈرے اور ایمانی جذبے سے سرشار ہوکر فرعون کی دھمکیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے کہا کہ تو جو چاہے کرلے ہم ایمان چھوڑنے والے نہیں۔اب فرعون نے ان کے ساتھ ایسا کیا یا نہیں؟اس بارے میں اختلاف ہے،کیونکہ آیت میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔بعض کہتے ہیں:فرعون نے اپنا قول پورا کیا اور بعض کہتے ہیں:نہیں کیا۔البتہ!امام رازی فرماتے ہیں:حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ فرعون نے اپنی دھمکی پر عمل کر دکھایا اور انہیں ہاتھ پاؤں کٹواکر شہید کر دیا گیا۔یہی قول زیادہ واضح ہے کیونکہ فرعون نے اپنا رعب جمانے اور قوم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دین قبول کرنے سے روکنے اور ڈرانے میں مبالغہ ثابت کرنے کے لیے ایسا کیا۔(12)اس واقعے کے بعد فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کچھ نہ کہا، انہیں گرفتار کیا نہ کوئی سزا دی، بلکہ آپ کا راستہ کھلا چھوڑ دیا، کیونکہ فرعون جب بھی آپ کو دیکھتا تو اس پر آپ کا شدید رعب طاری ہوجاتا اور وہ آپ سے بہت ڈرتا تھا،اسی لیے آپ کو کچھ کہنے یا کرنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔(13)البتہ!فرعونی اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے بلکہ جھوٹے الزامات اور بہتان تراشیاں کرنے لگے اور بنی اسرائیل کی نسل کشی کے منصوبے بنانے لگے مگر ان کی سازش ناکام ہوئی اور اللہ پاک نے انہیں تباہ و برباد فرما دیا، مگر اس سے پہلے دنیا میں کئی طرح کے عذاب دے کر سوچنے سمجھنے کا موقع بھی دیا تا کہ یہ کفر و معصیت سے باز آجائیں۔جیسا کہ اللہ پاک نے فرعونیوں کو کئی سال کے قحط، پھلوں کی کمی اور فقر و فاقہ کی مصیبت میں گرفتار کرنے کے متعلق ارشاد فرمایا ہے:
وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ(۱۳۰) (پ 9، الاعراف: 130)
ترجمہ: اور بیشک ہم نے فرعونیوں کو کئی سال کے قحط اور پھلوں کی کمی میں گرفتار کردیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
حضرت عبدُ اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: دیہات میں رہنے والے فرعونی قحط کی مصیبت میں گرفتار ہوئے اور شہروں میں رہنے والے پھلوں کی کمی کی مصیبت میں مبتلا ہوئے۔حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ان لوگوں پر ایک وقت ایسا آیا کہ کھجور کے درخت پر صرف ایک ہی کھجور اگتی تھی۔ (14)
(یہ سلسلہ جاری ہے اور ان شاء اللہ اگلی قسطوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مزید معجزات و عجائبات بیان ہوں گے۔ )

Comments