سخت مزاجی
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ: اخلاقیات

موضوع: سخت مزاجی

(نئی رائٹرز کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ دو مضمون 36ویں تحریری مقابلے سے منتخب کر کے ضروری ترمیم و اضافے کے بعد پیش کیے جا رہے ہیں۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(اول پوزیشن) ہمشیرہ اخلاق برکاتی

مارہرہ شریف ہند

سخت مزاجی انسانی شخصیت کا ایک ایسا پہلو ہے جو بعض اوقات اصول پسندی،خود اعتمادی اور مضبوط ارادے کی علامت ہوتا ہے،لیکن جب یہ حد سے بڑھ جائے تو رشتوں میں تلخی،دلوں میں سختی اور رویوں میں بے لچک پن پیدا کر دیتی ہے۔زندگی کے مختلف معاملات میں سختی اور نرمی کے درمیان توازن رکھنا ایک ایسا ہنر ہے جو تعلقات کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ شخصیت کو بھی مؤثر اور باوقار بناتا ہے۔

کبھی کبھار سختی کرنا ضروری ہو جاتا ہے، جیسے حق پر ثابت قدم رہنا،اصولوں کی پاسداری کرنا، ناانصافی کے آگے نہ جھکنا اور اپنے نفس پر قابو پانا۔یہ وہ مواقع ہیں جہاں سختی مثبت اور ضروری رویہ بن جاتی ہے۔ لیکن جب یہی سختی بے جا ضد، عدم برداشت اور بے لچک رویے میں بدل جائے تو نقصان دہ ہو جاتی ہے۔ایسا طرزِ عمل خاندان اور دوستوں کے درمیان محبت و ہم آہنگی کو کمزور کر دیتا ہے،دلوں میں سختی پیدا کرتا ہے اور انسان کے اندر نرمی و ہمدردی کے جذبات مدھم کر دیتا ہے،جس کے نتیجے میں وہ دوسروں کے احساسات کو نظر انداز کرنے لگتا ہے۔اسلام ہمیں سختی اور نرمی کے درمیان توازن قائم رکھنے کا درس دیتا ہے۔ رسولِ اکرم  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی سیرتِ مبارکہ میں ہمیں اس کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔ آپ  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  اصولوں پر مضبوطی سے قائم رہتے،مگر ساتھ ہی نرمی،حلم اور بردباری کا اعلیٰ مظاہرہ بھی فرماتے، حضور   صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے ارشاد فرمایا: شرم و حیا ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں لے جانے والا ہے، جبکہ فحش گوئی سخت دلی سے ہے اور سخت دلی جہنم میں لے جانے والی ہے۔(1)

کامیاب اور متوازن شخصیت کے لیے ضروری ہے کہ انسان سختی اور نرمی کے درمیان اعتدال قائم رکھے۔ جہاں حق پر ڈٹے رہنے کی ضرورت ہو وہاں مضبوطی کا مظاہرہ کرے، لیکن جہاں محبت،دانائی اور صبر کی ضرورت ہو وہاں نرمی اپنائے کہ یہی طریقہ ایک خوشگوار شخصیت،مضبوط رشتوں اور کامیاب زندگی کی چابی ہے۔اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر  نرمی اختیار کی جائے۔گھریلو اور معاشرتی تعلقات میں شفقت اور محبت کو ترجیح دی جائے۔ بات چیت میں سختی کے بجائے نرمی اور حکمت کو اپنایا جائے۔ اپنے رویوں کا جائزہ لیا جائے کہ ہماری سختی واقعی ضروری ہے یا صرف ضد اور انا کی وجہ سے ہے۔ دوسروں کے جذبات اور خیالات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

سختی اور نرمی کے درمیان توازن پیدا کرنا ایک فن ہے، جو نہ صرف انسان کی شخصیت کو نکھارتا ہے، بلکہ اس کے تعلقات کو بھی مضبوط کرتا ہے اور اسے زندگی میں کامیابی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ اگر ہم اپنی سختی کو صرف اصولوں تک محدود رکھیں اور اپنے معاملات میں نرمی، بردباری اور محبت کو شامل کریں تو نہ صرف دوسروں کے لیے باعثِ رحمت بن سکتی ہیں، بلکہ ان شاء اللہ خود بھی ایک بہتر انسان بن سکتی ہیں۔

ام شجاع عطاریہ

گجرات پنجاب

سخت مزاجی انسان کو رسوا کر دیتی ہے۔اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں مکے کے بہت بڑے کافر ولید بن مغیرہ کے عیوب جہاں بیان فرمائے ہیں،انہی میں سے ایک عیب یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ وہ طبعی طور پر بد مزاج اور بد زبان ہے۔(2)

سخت مزاجی کی علامات:

سخت مزاجی کی کچھ علامات یہ ہیں: بات بات پر جھگڑنا،چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر آگ بگولہ ہوجانا اور لڑنے مرنے پر تیار ہوجانا،ہر وقت منہ بنائے رکھنا،لوگوں سے الگ تھلگ رہنا،میل جول نہ رکھنا،اپنے معاملات میں دوسروں سے مشورہ نہ کرنا،کوئی درست مشورہ دے تو اسے قبول نہ کرنا،اپنی بات اور اپنے فیصلے کو حرفِ آخر سمجھنا، دوسروں کو طنز و طعنہ مارنا اور مذاق اڑانا وغیرہ۔

مشہور ہے کہ اگر چاہتے ہو کہ تمہاری عزت کی جائے تو نرم مزاجی اختیار کرو اور اگر چاہتے ہو کہ تمہاری توہین کی جائے تو سخت مزاجی اختیار کرو۔ کسی بزرگ کا  قول ہے: بہت سے عزت دار ایسے ہیں جنہیں ان کی سخت گیری نے ذلیل کیا اور بہت سے ایسے ذلیل ہیں جنہیں ان کے اخلاق نے عزت دار بنا دیا۔

واقعی یہ ایک حقیقت ہے کہ نرم مزاج اور حُسنِ اخلاق کا پیکر انسان اگرچہ بظاہر غریب و نادار ہو لیکن لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہوتے ہیں اور سخت مزاج انسان سے ہر کوئی دور بھاگتا ہے۔ہمارے سلف صالحین سے محبت کرنے والوں کی کثرت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے ان ہستیوں کو نرم مزاجی جیسے وصف سے مزین فرمایا اور سخت مزاجی جیسے برے عیب کو  ان سے  دور رکھا۔

دورِ حاضر میں اس کی مثال امیرِ اہلِ سنت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے،جنہوں نے اپنی نرم مزاجی اور حُسنِ  اخلاق سے کئی افراد بالخصوص نوجوانوں کی زندگیوں میں مدنی انقلاب برپا کر دیا  اور الحمد للہ مرکزی مجلس شوریٰ کے اراکین اور ذمہ داران کی باقاعدہ تربیت فرما کر انہیں بھی اس وصف سے مزین فرمایا۔امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ کی مبارک زندگی میں کئی سارے ایسے واقعات ملتے ہیں جہاں غصہ دکھانے کے موقع پر غصے کے بجائے حسنِ اخلاق  کا مظاہرہ کیا اور آج ان کے اخلاص اور نرمی مزاجی کے سبب دعوت ِاسلامی ایک پھل دار درخت کی طرح ہمارے سامنے موجود ہے۔

سخت مزاجی کے نقصانات:

سخت مزاجی کے بہت سارے نقصانات ہیں یہاں چند ملاحظہ ہوں: سخت  مزاج اللہ پاک کے نزدیک نا پسندیدہ ہوتی ہے۔سخت مزاج اپنے ہی ہاتھوں نقصان اٹھاتی ہے۔سخت مزاج سے سب نفرت کرتی ہیں۔سخت مزاج کی نصیحت کو بھی کوئی نہیں مانتی۔سخت مزاج مشکل وقت میں تنہا رہ جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سخت مزاج اپنی اس بری صفت کی وجہ سے کئی بار دل دکھاتی اور حقوق العباد ضائع کر دیتی ہے اور اسے اس کی خبر کی بھی نہیں ہوتی ہے جبکہ یہ معاملہ نہایت نازک ترین ہے ایسی صورت میں اگر توبہ و تلافی نہ کی تو بروزِ  حشر پھنس بھی سکتی ہے۔

سخت مزاجی سے چھٹکارا حاصل کر کے نرمی  کیسے حاصل ہو؟

اس کے لیے لازمی ہے کہ دل کو نرم کیجیے کیونکہ دل انسانی اعضا کا بادشاہ ہے، جب یہ نرم ہو گیا تو آپ کے کردار، گفتار اور اطوار میں خود ہی نرمی پیدا ہو جائے گی۔بقدرِ ضرورت گفتگو کرنا اوربھوک سے کم کھانا،موت کو یادکرنا،اچھی صحبت اپنانا اور ہر طرح کے گناہوں سے بچنا وغیرہ ایسے کام ہیں جو دل کو نرم کرتے ہیں۔

ہمیں چاہئے کہ ہم اپنا جائزہ لینے کے بعد اپنے اندر سخت مزاجی پائے جانے کی صورت میں آج سے ہی اس بری عادت سے نجات کی کوشش شروع  کردیں۔اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم



1 ترمذی، 3/406، حدیث: 2016

2 پ 29، القلم: 13


Share