احساس ذمہ داری
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

موضوع: احساسِ ذمہ داری

احساسِ ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا،ان کو محسوس کرنا اور پھر اپنی ذمہ داری کے تقاضے پورے کرتے ہوئے انہیں نبھانا۔انسان ذمہ داریوں سے بری نہیں ہو سکتا،مرد ہو یا عورت،   بیوی ہو یا بیٹی،بہن ہو یا ماں ہر ایک پر کچھ نہ کچھ ذمہ داریوں کا بوجھ ہوتا ہے اور کامیاب وہ ہے جو ان ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے بخوبی نبھالے، کیونکہ فرمانِ مصطفےٰ  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔مسلمانوں کا امام(حکمران) نگران ہے، اس سے اس کے ما تحتوں(عوام) کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ مرد اپنے گھر میں نگران ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں(یعنی بیوی بچوں) کے متعلق پوچھا جائے گا۔عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگران ہے،اس سے اس کی رعایا(بچوں)  کے متعلق سوال ہو گا۔خادم اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اس سے اس کے متعلق سوال ہوگا۔ (الغرض) تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا۔([1]) مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃ اللہ علیہ  اس کی شرح میں فرماتے ہیں:عورت سے سوال ہوگا تو نے اپنے خاندان کی خدمت کی یا نہیں؟خاوند کے  مال  اور اولاد  کی خیر خواہی کی یا نہیں؟بچوں کا پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے،اس لئے ماں پر لازم ہے کہ ان کی پرورش اور تربیت اچھی کرے۔ ([2])

ذمہ داریوں کی معلومات:

ذمہ داریوں کا احساس پیدا کرنے کے لئے سب سے پہلے ذمہ داریوں کا معلوم ہونا ضروری ہے اور یہ معلوم کرنا بھی ایک ذمہ داری ہی ہے۔چنانچہ  بیوی ہو یا ماں،بہن ہو یا بیٹی  ہر ایک کو ذمہ داریوں کا احساس اسی وقت ہوگا جب ان کی مکمل معلومات حاصل ہوں گی۔اگر ہر فرد اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے تو معاشرے میں نکھار پیدا ہو جائے۔گلی محلے کی صفائی ہو یا گھر کی،خاندانی رشتہ  ہو یا پڑوسن سے تعلقات،احساس نہ ہو تو بگاڑ پیدا ہوگا۔جیسا کہ بالکل صاف ستھری گلی میں بلڈنگ کے کسی فلور سے کچرے کی تھیلی ہوا میں گھومتی ہوئی آ  کر پھٹ جائے تو ساری گلی جو ابھی حسین لگ رہی تھی کچرے کی بدبو اور گند سے غلیظ ہو گئی،یہ ہے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ!بعض خواتین اس بات کا دھیان ہی نہیں رکھتیں کہ جہاں رہتی ہیں اس کی صفائی میں ساتھ دینا بھی ان کی ذمہ داری ہے اور پڑوسیوں کے بھی کچھ حقوق ہیں، مگر ہم اس کی پروا نہیں کرتیں،بلکہ بعض اوقات تو ایک دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث بن جاتی ہیں۔

یونہی گھر میں ماں پر بچوں کی پرورش ایک بہت اہم ذمہ داری ہے،عموما ًمائیں بچوں کی خوراک لباس پر بہت توجہ دیتی ہیں مگر دین سکھانے کی طرف توجہ نہیں ہوتی، بچے کا دنیاوی مستقبل سنوارنے کے لئے باقاعدگی سے اسکول وقت پر بھیجا جاتا ہے مگر اس کی آخرت سنوارنے کے لئے کوئی خاص اقدام نہیں کیا جاتا۔اسی طرح بچوں کے بڑے ہو جانے کے بعد بھی ماں کی ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی کہ وہ انہیں خیر خواہی پر مشتمل نصیحتیں کرنا بند کر دے، کیونکہ بچے عموما ًماں کی نصیحت فوراً قبول کر لیتے ہیں۔

احساسِ ذمہ داری اور ہمارا رویہ:

فی زمانہ ہم دوسروں کی غیر ذمہ داریوں پر انہیں ملامت و تنقید تو کرتی ہیں مگر اپنی غیر ذمہ داریوں پر نظر نہیں ہوتی،مثلاً:سرکاری محکمے،ادارے،تنظیمیں اپنی ذمہ داری پوری نہ کریں تو اس پر آواز بلند ہوتی ہے،احتجاج،دھرنے اور جلسے تک ہوتے ہیں مگر آج تک اپنے اندر احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کے عنوان سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی،حقوق حاصل کرنے کے لئے مظاہرے ہوتے ہیں،مگر ذمہ داریوں اور فرائض کی بجا آوری کے لئے کبھی کوئی مظاہرہ نہیں ہوا!یہ معاشرے کا دوہرا معیار ہے۔منشیات فروشی عام ہوتی جارہی ہے، بےشمار مرد و عورت اس لعنت کا شکار ہو رہے ہیں،کوئی حکومت کو تو،کوئی اداروں کو قصور وار ٹھہراتی ہے،مگر اپنے اندر اسے روکنے کا احساس بیدار نہیں ہوتا۔الغرض ہر کوئی یہ سوچتی ہے کہ دوسری ٹھیک ہو جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا!اور اسی سوچ کا نتیجہ معاشرتی بےحسی اور لا پروائی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

پیارے آقا کا احساسِ ذمہ داری:

جب کفارِ  مکہ کی وجہ سے حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہجرت پر مجبور ہو گئے تو اس وقت بھی احساسِ ذمہ داری کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے جو امانتیں لوگو ں نے  آپ کے سپرد کی تھیں ان کو لوٹانے کی فکر کر رہے ہیں۔چنانچہ حضور نے حضرت علی  رضی اللہُ عنہ کو یہ امانتیں حوالے کیں اور انہیں واپس کرنے کے بعد مدینے آنے کا حکم دیا۔([3])یہی وجہ ہے کہ حضور نے حجۃُ الوداع کے موقع پر جب یہ فرمایا: اے لوگو! تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا تو کیا کہوگے؟لوگوں نے کہا:ہم گواہی دیں گے کہ بے شک آپ نے پیغام پہنچایا اور حق ادا کر دیا اور نصیحت فرما دی۔حضور نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف بلند فرمائی اور لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا:اے اللہ!تو گواہ ہے۔([4]) احساسِ ذمہ داری کی یہ سوچ آپ کے غلاموں میں بھی منتقل ہوئی۔ چنانچہ خلافت کی ذمہ داری ملنے پر تمام خلفائے راشدین کا انداز اور احساسِ ذمہ داری  کے واقعات اس کے گواہ ہیں۔ہمارے بزرگانِ دین اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھاتے تھے کیونکہ معاملہ گھر کا ہو یا محلے کا، سیاست کا ہو یا حکومت کا،ہر معاملے میں احساسِ ذمہ داری ان کا شعار ہوتا تھا۔کاش!ہمیں بھی اس کا کچھ حصہ عطا ہو۔لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، بطورِ بیوی اپنے شوہر کے گھر اور اس کے مال کی حفاظت کریں، نیک کاموں کی رغبت دلائیں، شوہر کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھیں،گھر کی صفائی، کھانا  پکانا،بچوں کی دیکھ بھال، یہ سب ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ رب کی تقسیم ہے کہ مرد کما کر لائے اور عورت گھر کا نظام چلائے۔اگر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے یہ سارے کام کیے جائیں تو گھر جنت بن جاتا ہے۔ بنی سنوری بیوی،صاف ستھرا گھر اور تمیز دار بچے دیکھ کر شوہر باہر کی ساری تھکن بھول جاتا ہے۔

بحیثیت بیٹی و بہن ماں کا ہاتھ بٹائیں، بھائیوں اور والد کی خدمت کریں،ان کی باتوں کا برا نہ منائیں۔مگر افسوس!آج بیٹی ماں کی خدمت نہیں کرتی، بلکہ ماں بیٹی کی بغیر تنخواہ والی خادمہ ہے، اپنی ذمہ داری اور حیثیت کا احساس کہیں کھو گیا ہے۔ گھریلو کام کاج، بچے کی دیکھ بھال و تربیت، والدین یا شوہر کی خدمت اور عبادت، ان سب کاموں کو بروقت کرنے کے لئے ہمیں اپنا اندازِ زندگی بدلنا ہوگا۔ کسی بزرگ کا قول ہے:ہر وقت کے لئے ایک کام اور ہر کام کے لئے ایک وقت بنا لو!تمام کام بخوبی ہو جائیں گے۔ وقت کی قدر کیجئے پورے دن کا ایک شیڈول ہونا چاہیے۔فجر کی نماز کے بعد گھریلو کام کاج سے جلد فارغ ہو کر تھوڑا  وقت مطالعہ اور علمِ دین حاصل کرنے کے لئے نکال لیجئے۔بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کا ایک ٹائم مخصوص کیجئے۔ ایسےہی دیگر کاموں کے لئے  جب آپ  کا شیڈول بنا ہو گا تو گھر اور خاندان والوں کو بھی خود بخود آپ کے شیڈول کا احساس ہو جائے گا۔ ہمارے پاس فضول وقت ہونا ہی نہیں چاہیے جو سوشل میڈیا کی نذر کرنا پڑے۔ہمارا مذہب بھی ہمیں بیکار کاموں میں پڑنے سے روکتا ہے،بلکہ ایک روایت میں لایعنی کاموں سے رک جانے کو اسلام کی خوبی قرار دیا  گیا ہے۔([5])چنانچہ وقت کی قدر کرتے ہوئے تمام کام کریں گی تو کام بھی ہو جائیں گے اور زندگی بھی پرسکون گزرے گی، بلکہ آخرت کے لئے بھی نفع بخش سودا ہو گا۔اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کے وقت میں برکت ہو، روز تمام ذمہ داریاں بحسن و خوبی انجام دے لیں تو اپنے وقت کو راہِ خدا میں خرچ کیجئے۔عبادت کا ٹائم مخصوص کر لیجئے۔اپنے حسبِ حال علمِ دین حاصل کرنا فرض ہے، اس کو حاصل کرنے کی کوششیں کیجئے۔الحمد للہ دعوتِ اسلامی کے تحت خواتین کے ہفتہ وار اجتماع دنیا بھر میں منعقد ہوتے ہیں،ان اجتماعات میں شرکت کیجئے،دعوتِ اسلامی کے تحت مدنی کورسز کروائے جاتے ہیں جو آن لائن اور بالمشافہ بھی ہوتے ہیں،ان میں شمولیت اختیار کیجئے۔اگر علم حاصل ہوگا تو احساسِ ذمہ داری پیدا ہوگا اور علم ہی کے ذریعے ان ذمہ داریوں کو نبھانے کا طریقہ بھی معلوم ہوگا اور آپ کو پتا چلے گا کہ احساسِ ذمہ داری بیدار ہو رہا ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

رکن انٹرنیشنل افئیرز ڈیپارٹمنٹ



[1] بخاری،1/309،حدیث:893

[2] مراۃ المناجیح، 5/352

[3] سیرت ابن ہشام، ص 194

[4] مسلم، ص 490، حدیث 2950

[5] مؤطا امام مالک، 2/403، حدیث 1718


Share